پیپلز پارٹی کی اندرونی جنگ: وزارتوں سے ترجمانی تک سازشوں کا کھیل
پاکستان پیپلز پارٹی، جو ایک زمانے میں عوامی سیاست اور جمہوری جدوجہد کی علامت تھی، آج کل اقتدار کی راہداریوں میں سازشوں، ترجمانی کی سیاست، اور ایک دوسرے کے خلاف بنائی گئی ”پی آر مہمات“ کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سندھ میں حکومت چلانے کے بجائے وزارتوں کے درمیان ایک مسلسل رسہ کشی جاری ہے۔ اور عوامی مسائل کہیں اس جنگ کے ملبے تلے دفن ہو چکے ہیں۔
کبھی سندھ کی وزارت داخلہ اور جیل خانہ جات میں اختیارات کی جنگ چھیڑ جاتی ہے، تو کبھی لوکل گورنمنٹ اور میئر کراچی آمنے سامنے آ جاتے ہیں۔ بات صرف اختیارات تک محدود نہیں رہتی، بلکہ ذاتی انا، ترجمانی کی ہوس اور سوشل میڈیا بیانیے کی ”فتح“ بھی اس جنگ کا حصہ بن چکی ہے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ سعید غنی اور ناصر حسین شاہ کے درمیان کئی بار پالیسی معاملات پر اختلافات سامنے آ چکے ہیں، اور ان اختلافات کو مزید ہوا دینے میں پارٹی کی ترجمان ٹیم کا کردار بھی کم نہیں۔
خاص طور پر سعدیہ جاوید۔ جو کہ پیپلز پارٹی کی ترجمان اور رکن سندھ اسمبلی ہیں پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے بیانات سے پارٹی وزراء کے درمیان خلیج بڑھاتی ہیں بلکہ بعض اوقات اپنے قریبی حلقوں کے ذریعے مخصوص وزراء کے خلاف منفی خبریں بھی ”لیک“ کرواتی ہیں۔ شادی الملحمون کے ساتھ ان کی سیاسی چپقلش اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ اندرونی ذرائع کے مطابق سعدیہ جاوید نہ صرف شرجیل میمن کو نیچا دکھانے کی کوشش میں ہیں بلکہ اپنی میڈیا ٹیم کو باقاعدہ بریفنگ دیتی ہیں کہ کس وقت، کس وزیر کو زیر کرنا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ سندھ کابینہ میں اصل مسئلہ ”پرفارمنس“ نہیں بلکہ ”پوزیشننگ“ ہے۔ یعنی کون زیادہ فوٹو سیشن میں نظر آئے، کس کا ٹویٹ زیادہ وائرل ہو، اور کس کا بیان قومی میڈیا کی شہ سرخی بنے۔
پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جب ترجمان وزیروں کے خلاف سازشوں میں لگے ہوں، تو نہ عوام کو انصاف ملتا ہے، نہ ترقیاتی کام ہو پاتے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان عوام اور خود پارٹی کو ہوتا ہے، جس کا امیج ایک غیر منظم اور سازشی گروہ کی صورت میں ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔
یہ وقت ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت خاص طور پر بلاول بھٹو زرداری اس اندرونی جنگ کا نوٹس لیں۔ ورنہ جو آگ آج وزارتوں اور ترجمانوں کے درمیان لگی ہے، وہ کل پارٹی کو جلا کر راکھ کر سکتی ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).