’فیس بک پر خواتین سب سے زیادہ ہراساں ہو رہی ہیں‘


ایک حالیہ تحقیق کے مطابق انٹرنیٹ استعمال کرنے والی 34 فیصد خواتین مردوں کے ہاتھوں آن لائن ہراساں ہو رہی ہیں اور ان میں سب سے زیادہ تعداد کوئٹہ، کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملتان کی خواتین کی ہے۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن پاکستان نے گذشتہ ایک سال میں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور گلگت سے 1400 خواتین کو آن لائن ہراساں کیے جانے اور ڈیجیٹل سکیورٹی سے متعلق آگاہی دی ہے اور پھر ان کے انٹرویو کیے۔ سروے کے نتائج کے مطابق 70 فیصد سے زائد خواتین کو پاکستانی سائبر قوانین کا علم ہی نہیں جبکہ ملک کا آئین اور 2016 میں بنایا گیا ‘پریوینشن آف الیکٹرونکس کرائم ایکٹ’ ہر پاکستانی کو اس حوالے سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
بلاشبہ پچھلے چند سالوں میں انٹرنیٹ تک رسائی اور موبائل ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ گیا ہے لیکن اس میں جنسی فرق واضح ہے۔ اس تحقیق کے مطابق خواتین کی سب سے زیادہ تعداد، 67 فیصد، فیس بک کا استعمال کرتی ہے جبکہ میسجنگ کے لیے وٹس ایپ اور سکائپ مقبول ترین ایپلیکیشنز ہیں۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر نگہت داد کے مطابق ان اعداد و شمار کی اہمیت اس حوالے سے بھی ہے کہ ایف آئی اے کے پاس خواتین کو ہراساں کیے جانے کی سب سے زیادہ شکایات فیس بک کے حوالے سے ہی آ رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جب بھی آن لائن تشدد یا ہراساں کیے جانے کی بات ہوتی ہے تو مسئلہ آتا ہے کہ پاکستان میں اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار ہی نہیں، اگر ڈیٹا ہو تو اس کے بنیاد پر آپ اس کا حل ڈھونڈ سکتے ہیں۔ تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا کہ فیس بک پر خواتین سب سے زیادہ ہراساں ہو رہی ہیں، تو ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اس کو رپورٹ بھی کرتی ہیں؟ حیران کن طور پر 70 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ نہیں۔ نہ تو وہ خود ایسے واقعات رپورٹ کرتی ہیں اور نہ کبھی کسی اور کو رپورٹ کرتے دیکھا ہےـ اس کی وجہ انھوں نے قانون سے ناواقفیت بتائی اور شرمندگی کہ لوگ کہیں گے یہ آپ کا اپنا قصور ہے۔’

سروے میں شامل 1400 میں سے 485 خواتین یعنی 34 فیصد کا کہنا ہے کہ مردوں نے انھیں آن لائن ہراساں کیا جبکہ 40 فیصد خواتین نے بتایا کہ ان کو میسجنگ ایپ بشمول وٹس ایپ اور میسنجر پر پریشان کیا گیا۔
اس کے برعکس اپنی شناخت چھپا کر خواتین کو تنگ کرنے والے مرد حضرات کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ تحقیق میں شامل تقریباً 50 فیصد خواتین نے بتایا ان کو آن لائن سٹاکنگ (شناخت چھپا کر ہراساں کرنا) کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان متاثرین کی سب سے زیادہ تعداد راولپنڈی، ملتان اور کراچی میں تھی۔ آن لائن ہراساں کیے جانا صرف ذومعنی باتوں اور چھیڑ چھاڑ تک محدود نہیں بلکہ اس کے سب سے خطرناک پہلو ہیں تشدد اور بدلے کی دھمکیاں۔ 17 فیصد خواتین نے بتایا کہ ان کو بذات خود جبکہ 40 فیصد کی دوستوں کو ایسی دھمکیاں مل چکی ہیں۔ اکثر جب خواتین ہراساں کرنے والے کی بات نہیں مانتیں یا سخت جواب دیتی ہیں تو انھیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ اس تحقیق سے ایک اہم سوال سامنے آتا ہے کہ کیا صرف خواتین ہی آن لائن ہراساں ہو رہی ہیں؟ جب یہ سوال ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی سائبر ہاٹ لائن ہیڈ شمائلہ خان سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ مشرقی معاشروں میں خواتین کو زیادہ ہراساں کیا جاتا ہے، اس لیے ضرورت ہے کہ ان پرتحقیق کی جائے۔ البتہ مرد بھی اس کا شکار ہیں اور اس بات کو ماننے کی ضرورت ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp