62-63  کا حمام اور ننگے صادق و امین


اسے اپنے مداح بنانے کا بھی شوق تھا اس لیے وہ آگے بڑھ بڑھ کر درباریوں کو جھپیاں مارتا تو درباری کھل کھل اٹھتے اور فخر کرتے اور مداح بن جاتے اور مزید مداح گھیر گھیر کر لاتے۔

اس کا یہ شخصی ڈزائین مزید اس لیے پالش کیا گیا تھا کہ اسے پھانسی چڑھ چکے ایک سویلین لیڈر کی بپھری ہوئی روح سے مقابلہ کرنا تھا، اس کے تضاد میں ایک منکسرالمزاج جسم کی صورت۔

اس کے جنون کا اظہار یہ تھا کہ اس کے حکم پر لاتعداد لوگ ناکردہ گناہوں کی سزا میں ننگی پیٹھ پر کوڑے کھا رہے ہوتے، سڑکوں پر عورتیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹی جا رہی ہوتیں، قید خانے بھرے جا رہے ہوتے اور فریاد سنے بغیر تھوک کے حساب سے کھڑے کھڑے سزائیں سنائی اور دی جا رہی ہوتیں اور جیل بھرے جا رہے ہوتے اور وہ بھیگی بلّی کی سی شکل بنائے مسکرا مسکرا کر لوگوں کی بھیڑ میں چہل قدمی کر رہا ہوتا۔ اس بھیڑ کا اہتمام بھی مختلف محفلوں کی صورت اپنے گرد کروانا اس کا خاص شغل تھا۔ اسے شاید سکھایا تھا اسے ڈزائین کرنے والوں نے کہ آرٹسٹوں، گلوکاروں، اداکاروں، ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور دانشوروں کو اپنے گرد جمع کیا کرو۔ یہ تمہارے گرویدہ ہو گئے تو سمجھو تم نے پھانسی چڑھ چکے سویلین لیڈر کی بپھری ہوئی روح کو مات دے دی۔

یہ نام نہاد صادق اور امین لوگوں کی ذاتی زندگیوں تک میں گھس گیا۔ اس نے مذہب کا استعمال سکھایا۔ شخصی عدالتیں لگانا اور انسانوں کے خون سے اپنے پوشیدہ گناہ اور اپنے بدبودار نفس کو دھونا سکھایا۔

اسکولوں کی زرا زرا سی بچیوں کو سفید ململ کے دوپٹے زبردستی اوڑھا کر یہ جتلایا کہ لڑکی کا سینہ ہی غور سے دیکھنے کی چیز ہے اور اسی میں مرد کے نفس کا شیطان چھپا ہے۔ دوسری طرف اپنی لاڈلی بیٹی کو ننگے سر، بوائے کٹ بالوں اور لڑکوں کے لباس میں سرکاری محفلوں میں ساتھ ساتھ لیے پھرتا تھا۔ پیچھے اس کے حکم پر جمہوریت کی جنگ لڑتی عورتوں کو بالوں سے پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹا جا رہا ہوتا۔

اسی نے اس سوچ کی بنیاد ڈالی کہ ایمان اور عبادت اللہ اور بندے کے بیچ کا معاملہ نہیں بلکہ یہ میلہ لگانے کا کام ہے۔ عبادت کا جگمگاتا بھڑکیلا شو پیش کرنا ہوتا ہے۔ ان مذہبی میلوں میں ثواب کی بندر بانٹ کرنے کا بازار لگانے کے ساتھ ساتھ اس نے اس قوم کو عام گنہگاروں کے پوشیدہ و ظاہری گناہ و خطائیں کھوجنے اور گنہگاروں پر ٹوٹ پڑنے کے شغل میں لگا دیا۔

یوں اس نے مذہب کو کمرشلائز اور گلیمرائز کیا۔

اسی نے دولہا بنے رنگ برنگے نعت خوانوں کی محفلیں اپنے آپ کو عاشق رسول ثابت کرنے کے لیے سجانا شروع کیں اور اپنے گرد نعت خوانوں کا جمگھٹا لگایا۔ اسلام کے نام پر کانفرنسز بلائیں۔

یوں کئی بڑے بڑے ادیبوں، دانشوروں اور مذہبی شخصیات نے اس کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور ضیاء کا ساتھ دینا گویا عین اسلامی قرار پایا۔

اپنے بیٹوں کو صدارتی محل میں محفوظ رکھا اور اپنے دور میں جوان ہوتے اس قوم کے بیٹوں کو اس نے جہاد کے نام پر رچائے گئے غیر مسلموں کے کھیل میں اتارا۔ اس کے پاس پھانسی چڑھ چکے سویلین لیڈر کی بپھری روح کے مقابلے میں دنیا کے سامنے سُرخرو ہونے کا یہی ایک راستہ تھا کیونکہ وہ دنیا کی نظروں میں برا ہو چکا تھا۔

سویلین لیڈر کو پھانسی چڑھانے کے جنون میں وہ کئی اسلامی ملکوں کے سربراہان کی اپیل کو ٹھینگا دکھا چکا تھا۔ اب اسے اسلام کے نام پر انہی کے سامنے سرخرو بھی ہونا تھا۔ اس کے لیے اس نے حکم ملتے ہی پاکستان میں جہاد کا اسٹیج سجایا اور سب کو اس میں لگا دیا۔

گو کہ اس میں اس کی پشت پر غیر مسلم جہاد ڈزائینرز کھڑے تھے۔ ورنہ وہ خود ایسی سہمی شخصیت کا مالک تھا کہ جہاد تو دور کی بات، وردی کی حالت میں بھٹو کے سامنے اس نے گھبرا کر جلتا ہوا سگار پتلون کی جیب میں ڈال دیا، جس کی تصویر آج بھی کہیں نہ کہیں موجود ہے۔

قوم اسلام اسلام کھیلنے میں لگ گئی۔ وہ اسلام جس کی بنیاد کلمہِ حق کہنے پر رکھی ہے اسی اسلام کے نام پر ضیاء نے کلمہِ حق کہنے والی زبانوں کو اپنا ثنا خوان بنا دیا۔

اس نے انہی ثنا خوانوں میں سے اپنی پسند کے صادق اور امین چُنے بھی اور مزید صادق و امین تخلیق بھی کیے۔

یہ صادق و امین اسے اپنے لیے نہیں چاہیے تھے۔ یہ جوان صادق و امین اسے ایک نہتی لڑکی کے مقابلے میں اتارنے تھے۔

سندھ میں ایم آر ڈی کی موومنٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے ایک اور الاؤ چاہیے تھا۔ اس کے لیے کراچی میں ویسپا اسکوٹر سے ایک صادق و امین کو اتار کر طاقت کی ماچس تھما دی گئی۔

پنجاب میں نظیراں کے لیے اُن شعلہ بنے پنجابیوں کو ٹھنڈا کرنا تھا جو پنج دریاؤں کی طرح 1986 میں لاہور شہر میں ایک نہتی لڑکی پر اُمڈ پڑے تھے جو بندوقوں سے ڈرتی نہیں تھی اور ایک بار پھر اس وقت بندوقوں کے سامنے اتر آئی تھی جب ضیاء کا عروج نصف النہار پر تھا۔

ضیاء کے بنائے ہوئے صادق و امین بھی سندھ اور پنجاب میں نفسیاتی طور پر اسی زعم میں مبتلا کر کے اتارے گئے کہ وہی عقلِ کُل ہیں۔ وہی طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ عقل سے پیدل یہ قوم ان کی رعایا ہے۔ سندھ ہو کہ پنجاب، ان صادق و امینوں کی زاتی ملکیت ہے۔ ان پر اس زمین پر موجود ہر چیز حلال ہے۔ کوئی ان سے پوچھنے والا ہو نہیں سکتا، کیونکہ وہ صادق و امین ہیں۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments