62-63  کا حمام اور ننگے صادق و امین


پنجاب کا صادق و امین تو اپنے پیر و مرشد جنرل ضیاء سے اس حد تک متاثر ہوا کہ اپنا آپ اسی کے سانچے میں ڈھال لیا۔ وہی کمر سے جھکا ہوا پوسچر۔ وہی روتی صورت۔ وہی احساسِ کمتری میں بھیگی مصنوعی مسکراہٹ۔ اس کے عقب میں چھپا وہی تکبر۔ وہی اسلامی ڈھال۔ وہی اپنے نیکوکار ہونے کا زعم۔ وہی بے سر و پا بات کرنے کا انداز۔ وہی جھوٹ اور ببانگ دھل جھوٹ۔ وہی خوشامدیوں اور درباریوں کا جھرمٹ۔

ضیاء کے صادق و امینوں میں سے ایک صادق و امین مولوی مشتاق بھی تھا۔ عدالت کی کرسی پر بیٹھا ہوا مکمل صادق و امین، صداقت و امانت کے قلم سے فیصلہ سنایا اور قلم توڑ دیا۔

مرا تو قبرستان کے راستے میں جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا۔ لوگ جنازہ شہد کی مکھیوں بھرے درخت کے نیچے چھوڑ کر بھاگ گئے۔ جنازہ کتنی دیر وہاں پڑا رہا۔ پھر آگ جلا کر مکھیا‍ں ہٹائی گئیں اور جنازے کی تدفین کی گئی

صادق و امین انسان ہو نہیں سکتا مگر خود پر صادق و امین ہونے کا گمان اور زعم گمراہی کا ایک ایسا راستہ ہے جو انسان کو ابلیس بنا دیتا ہے۔ اپنے سجدوں پر نازاں ابلیس۔

ابلیس جب شیطان قرار پایا۔ تو اس نے صداقت و امانت اور سجدے چھوڑ کر انسان کو غلط راستے پر بہلانے کی مہم شروع کر دی۔

یہی پالیسی مشرف نے اپنائی۔

وہ آیا۔ اس نے بظاہر ضیاء سے مختلف فلسفہِ حکمرانی پیش کیا لیکن دراصل ڈزائین اسی ڈزائین کی آؤٹ لائن کے اندر تھا۔ مگر اس بار رنگین تھا۔

مشرف نے گبر سنگھ کی طرح ضیائی دور سے پھنسی ہوئی بسنتی کو آواز دی کہ ناچ بسنتی ناچ ۔۔۔۔ کپڑے اتار کر ناچ۔

گھٹن کا شکار ہو چکا سماج اور افراد اور میڈیا ناچنے کی آزادی کے حلوے پر ٹوٹ پڑا۔ مشرف نے کھلے عام کہا کہ یہ جاہل قوم ہے۔ ان جاہلوں نے جاہلوں کو چُن کر اسمبلیوں میں بٹھایا ہے۔ یہ ان پڑھ اس قابل نہیں ہیں کہ حکومت کریں۔ انہیں انگریزی بولنا نہیں آتی۔ سوٹ پہننا نہیں آتا۔ اس جاہل قوم کو ہینڈسم، سوٹیڈ بوٹیڈ انگریزی دان لوگوں کی ضرورت ہے جو شراب کا گلاس سر پر رکھے پارٹی میں ناچنا جانتے ہوں۔ جن کے کتے اعلیٰ نسل کے اور قابلِ احترام ہوں۔ جو مدرسوں میں پڑھنے والی نسل سے نفرت کرتے ہوں اور جن کی نسلیں مہنگے اور انگلش میڈیم اسکولوں میں تیار ہوتی ہوں۔ آزاد شو بز اور آزاد میڈیا کی مارکیٹ تخلیق ہوئی، جس میں بسنتی کھل کر ناچی۔ دوپٹے میں پھنسی قوم رقص و موسیقی اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مرغے لڑانے میں مصروف تو ہوئی مگر دو خوفناک انتہاؤں میں بٹ گئی۔ شہری اور دیہی۔ ان پڑھ اور انگریزی دان۔ لبرل اور مولوی۔ مدرسہ اور انگریزی میڈیم اسکول۔

دونوں انتہائیں دست و گریباں ہوئیں اور آج تک ہیں۔

یہ صادق و امین والی پالیسی کا ہی اگلا صفحہ تھا کہ اسمبلی میں گریجویٹ بیٹھے گا۔ ڈگری کا مسئلہ بلکل یونہی عدالتوں میں گھسیٹا گیا جس طرح آج صادق و امین۔

مشرف صادق و امین کے آرٹیکل کو بوٹ کی نوک تلے رکھے، انگریزی دان گورا صاحب کے  بقایاجات کی صورت بیٹھا رہا اور ضیا کی طرح اس قوم پر سرٹیفکیٹس جاری کرتا رہا۔ اس نے بھی جنہیں استعمال کیا انہیں متکبرانہ رویے میں مبتلا کیا۔

وردی اور شیروانی اتری تو اس کے اندر سے ایک عام، اوسط درجے کا پڑھا لکھا، unintellectual اور سہما ہوا شخص نکلا۔ ضیاء کا ہی روپ۔

مشرف کا شہری اور سوشل میڈیائی حلقہِ اربابِ ذوق عمران خان کو وراثت میں ملا ہے۔ عمران خان اس مصنوعی پنیری کی طرح ہے جو دو مختلف اجناس کے بیجوں کو ملا کر ایک تیسری جنس کے طور پر تخلیق کی جاتی ہے۔ اس کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ وہ سویلین گملے میں بویا گیا ہے۔ وہ دو اجناس کا امتزاج ہے۔ صادق و امین کے زعم میں بھی مبتلا ہے اور گناہِ کبیرہ کا بھی مرتکب ہے۔ انگریزی اور شہری بابوُ بھی ہے اور اچھا طالبان بھی ہے۔ وہ کمر سے جھکا ہوا اس لیے نہیں ہے کہ کرکٹر ہے۔ احساسِ کمتری میں مبتلا نہیں ہے، کیونکہ ورلڈ کپ جیتا ہوا ہے۔ آکسفرڈ سے پڑھا ہوا ہے۔ گوروں میں اپنا نام رکھتا ہے۔ گوری کی وفا کا اہل ہے۔ کپتان ہے اس لیے اسے تکبر کی للکار آتی ہے۔ وہ گنہگاروں اور خطاکاروں کو للکار سکتا ہے۔ وہ بڑھک مار سکتا ہے۔ وہ خود صادق و امین ہو نہ ہو، وہ ان سب کے کپڑے اتار سکتا ہے جو صادق و امین نہیں ہیں۔

اس انوکھے لاڈلے نے کھیلن کو چاند مانگا۔ اسے چاند مل گیا۔ اسے نہیں پتہ کہ چاند داغدار ہے۔ لوگوں نے محبوب کے جلوے کی تشبیہ چاند سے دینا چھوڑ دی ہے۔ اب محبوب وہ ہے جو دل میں بستا ہے۔ ان لوگوں کے دل میں جو جاہل ہیں۔ ان پڑھ ہیں۔ بیمار ہیں۔ بھوکے ننگے ہیں۔ مٹی سے گندھے ہیں۔ مٹی میں بستے ہیں۔ مٹی سے اُگتے ہیں۔ مٹی سے زمین بناتے ہیں۔ زمین کو دھرتی ماتا بناتے ہیں اور دھرتی ماتا سے ملک بناتے ہیں۔

یہ جو سراج الحق صاحب صادق و امین کے آرٹیکل کے تحفظ کے لیے بے چین ہیں تو وہ بھی دراصل اپنے اوپر صادق و امین ہونے کا گمان اور زعم اور تکبر ہے۔ لاتعداد سجدوں کا غرور ہے۔

ابلیس و آدم کی جنگ ہے یہ ۔۔۔۔۔
اللہ آدم کا طرفدار ہے۔
آدم جو عوام ہے۔

پہلی اشاعت: 29 جولائی 2017

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments