پاکستان میں آئین اکبری چلے گا یا فتاویٰ عالمگیری


ماضی قریب و بعید میں جب کوئی کسی قبیلے، قوم یا ملک کو فتح کرتا تو دشمنوں کے سروں کا مینار بنا کر زندہ لوگوں کو یہ پیغام دے دیتا کہ اگر کسی اور نے سراٹھانے کی کوشش کی تو ان میناروں میں اس کا سر بھی ہوسکتا ہے، اس کے بعد کوئی سر اٹھانے کی جرآت نہیں کرتا اگر کوئی غلطی کر بھی جاتا تو اس کا سر نیزوں پراٹھایا جاتا یا پاؤں تلے روند دیا جاتا۔ جوانوں کے سروں کے مینار سجتے، عورتوں اور بچوں کی منڈیاں لگتیں اور غنیم کے مال و دولت کی تقسیم ہوتی ۔ انسان نے اپنی اجتماعی اور انفرادی غلطیوں سے سیکھ کر ہی وقت کے ساتھ ساتھ مخالفت، جنگ اور دشمنی کے بھی اصول وضع کرلئے اور حدود کا تعین کیا۔ اب جنگ صرف مسلح افواج کے بیچ ہوتی ہے عام شہریوں، غیر مسلح لوگوں، عبادت گاہوں، ہسپتالوں اور شہری آبادی کے خلاف کارروائی کو جنگی جرم سمجھا جاتا ہے اور ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات سے عبرت حاصل کرنے کے لئے ان کا ذکر تو کیا جاسکتا ہےلیکن ان پر فخر کرنا اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔

جہاں دوسری اقوام کے ساتھ دوستی اور دشمنی کے اصول بنا لئے گئے اور اپنا لئے گئےوہاں کسی ملک کے اندر رہنے کے بھی کچھ اصول مرتب کیے گئے اور ان پر عمل کیا گیا۔ ہندوستان کو جب برہمنوں نے مغلوب کیا تو اپنے عقائد کے مطابق مقامی آبادی کو اچھوت اور شودر بنا دیا۔ مقامی آبادی کو اپنے قریب آنے پر مار ڈالا اورآواز سننے پر کانوں میں پگھلتا سیسہ ڈلوا دیا۔ ایسا کچھ اہل یورپ نے امریکہ، اسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ایشیا اور افریقہ میں کیا۔ شمالی امریکہ میں سونے کی کانوں میں افریقی غلام موم بتی کی روشنی میں دنوں، ہفتوں اور مہینوں تک کام کرکے سورج کی روشنی میں آکر بینائی سے محروم ہو جایا کرتے تھے۔ امریکہ کی گلیوں میں کسی افریقی کو مارڈالنا کوئی جرم نہیں تھا۔ عرب، ایران، ترکی کے غلاموں کی منڈی ہندوستان اور فارس میں لگتی تو جنگوں میں یتیم ہوئے بچوں اور بیوہ ہوئی عورتوں کے دام لگتے تو یہاں سے ہر آدمی محمود غزنوی کا ایاز، محمد غوری کا ایبک، اور قطب الدین ایبک کا التمش اور شمس الدین التمش کا بلبن نہیں ہوتا بلکہ ہزاروں اور لاکھوں بے نام غلاموں کے خون پسینے کے ساتھ ان کی ہڈیاں اور گوشت بھی ان عالیشان محلات کی تعمیر کا ایندھن بن گئیں جن کو ہم دیکھ کر آج واہ واہ کرتےہیں۔ یہاں ان منڈیوں میں بکی عورتیں افواج اور خواص کی جنسی بھوک مٹانے کا چارہ بنتے بنتے خود بڑھاپے میں بے چارگی کے عالم میں کسی سڑک کے کنارے لاش میں تبدیل ہوکر کتوں اور درندوں کی خوراک بن جاتی تھیں۔

ہم انگریز آقاؤں کے تعصب اور رعونت کی کیا دہائی دیتے اس سے پہلے ابراہیم لودھی نے بھی مقامی ہندو مذہب کے پیروکاروں کی گھوڑے پر سواری کو بھی ناقابل معافی جرم قرار دیا تھا۔ محمود کے ہندوؤں کے مندر لوٹنے ان کی مورتیاں توڑنے پر ہم نے بھی فخر کیا تھا۔ ہم نے ہندوستان میں رائج برہمنوں کی طبقاتی اور نسلی بنیادوں پر منقسم طرز معاشرت کی نئے سرے سے برابری کی بنیاد پر تشکیل نو کی کونسی کوشش کی تھی۔

ہم رواداری اور برابری کی کوئی مثال اگر تاریخ کے صفحات سے پیش کر بھی سکتے ہیں تو وہ آئین اکبری ہے مگر ان صفحات میں فتاویٰ عالمگیری بھی موجود ہے جس نے مساوات، برابری، برداشت اور رواداری کے تمام لفظ کھرچ کے پھر سے غلامی کو حق اور قتل کو جائز قرار دے کر حساب برابر کردیا۔ آج بھی کچھ لوگ اگر اکبر کے آئین کو ہندوستان کا پہلا سیکیولر آئین سمجھتے ہیں تو کسی کے نزدیک ان کی رواداری شرک کے مترادف تھی۔ کچھ اورنگزیب کو متعصب کہتے ہیں تو کسی کے نزدیک وہ پہلے ایسے مجاہد اعظم تھے جس نے اپنے عقیدے کو اپنے منصب پر ترجیح دی تھی۔ یوں ہم آئین اکبری اور فتاویٰ عالمگیری میں آج تک منقسم ہیں۔

پاکستان کی آزادی کے اعلان سے قبل ہی شاید اس بات کا خدشہ تھا کہ یہاں مذہبی رواداری مفقود ہو جائے گی اور عدم برداشت معاشرے پر حاوی ہو جائے گی۔ ان خدشات کا اظہار مختلف زعماء اور مشاہیر نے مختلف اوقات میں کیا لیکن آزادی کے بعد بابائے قوم کی گیارہ اگست کی تاریخی تقریرکے ریکارڈ سے غائب کر دینے کے عمل نے یہ ثابت کیا کہ ملک میں عدم رواداری اور مذہبی تعصب کے حامیوں کا غلبہ ہوچکا ہے۔ اس ملک میں پہلا کرفیو اور پہلے مارشل لاء کی بنیاد بھی عدم روادای اور مذہبی جنون تھا جب کئی شہروں میں انسانوں کو محض عقیدے کے اختلاف کی بنا پرقتل کیا گیا۔ ان واقعات پر جسٹس منیر کمیش کی رپورٹ آج بھی ہمارا منہ چڑا رہی ہے کہ ہم نے اس رپورٹ کی سفارشات پر کبھی بھی عمل نہیں کیا۔

اپنی مختصر سی تاریخ پر نظر دوڈائیں تو معلوم یہ ہوتا ہے پاکستان بننے کے بعد ہر آنے والی نئی دہائی میں ہم عدم رواداری اور مذہبی تعصب کی نئی حدیں چھوتے رہے۔ تقسیم کے وقت ہونے والے مذہبی فسادات نے لاکھوں جانے لے لیں، بقول سعادت حسین منٹو کے کسی نے کہا کہ اتنےہندو مارے گئے کسی نے کہا اتنے مسلمان مگر کسی نے یہ نہیں کہا کہ لاکھوں انسان مارے گئے۔ ہندو اور سکھوں کے چلے جانے کے بعد یہ تعصب اور جنون فرقہ ورانہ نفرت میں بدل گیا اور مزید پھیل گیا۔ احمدیوں اور مجلس احرار کے بیچ ہونے والے فسادات کو روکنے کے لئے پہلا کرفیو لاہور شہر میں 1953 میں لگا۔ ان فسادات کے نتیجے میں ملک میں طویل ترین مارشل لاء لگ گیا مگر یہ فسادات 1974 میں احمدیوں کو اقلیت قرار دینے تک رک نہ سکے۔ 1980 کی دہائی میں شیعوں کے خلاف کارروائیاں شروع کی گئیں جو آج تک جاری ہیں۔ اس وقت ملک میں تمام چھوٹی بڑی اقلیتوں کے خلاف ایک تعصب اور نفرت کی فضا ہے۔

پاکستان کا دستور مکمل اسلامی ہونے کے باوجود اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت اور ان کی نمائندگی اور ان کو برابر کے شہری ہونے کی ضمانت دیتا ہے۔ ہمارے ہاں گلیوں اور مسجدوں میں تمام تر تعصب کے باوجود شدت پسندی اور مذہبی جنونیت کو سیاست میں پذیرائی نہ مل سکی جس کی وجہ سے پارلیمنٹ اور عوامی نمائندگی کے دیگر اداروں میں تعصب اور نفرت کا مظاہرہ کم دیکھنے کو آیا۔ ملک میں بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ مذہبی کہلانے والی جماعتیں بھی اپنی فرقہ پرست سیاست کے باوجود کھل کر کسی عقیدے یا مذہب کے خلاف بولنے سے گریز کرتی ہیں۔ بظاہر بڑی مضحکہ خیز سی بات ہے کہ متحدہ مجلس عمل جیسے بنیاد پرست مذہبی اتحاد سے بھی غیر مسلم اقلیتوں کے نمائندے منتخب ہوئے۔

ملک کے شہریوں کے ساتھ ان کے عقیدے کی بنیاد پر تعصب برتنا اور اپنی زبان اور قلم سے کسی کے جان و مال کو خطرے میں ڈالنا پاکستان کے نہ صرف قانون کی بلکہ آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ یہ حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا کہ وہ پاکستان کے سب سے مقدس اور اعلیٰ ترین ایوان سے ملک کے شہریوں کے درمیان نفرت اور تعصب پھیلائے۔ کسی شخص کا ایسا اقدام نہ صرف ایک مقدس ایوان کی توہین ہے بلکہ ملک کے آئین سے انحراف اور قانون کی خلاف ورزی بھی ہے۔ اگر اس روش کو نہ روکا گیا تو نفرت اور تعصب کی آگ میں معاشرت، سیاست، سماج اور معشیت سب جل کر راکھ ہو جائیں گے۔ دور رس نتائج کے حامل کسی جرم کو ایک واقعہ سمجھ کر نظر انداز کرنا اس سے بڑا جرم ہوگا۔

آج ہم پھر تاریخ کے اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمارا مستقبل آئین اکبری میں ہے یا فتاویٰ عالمگیری میں۔ اکبر کے آئین نےنے کابل سے بنگال تک پورے ہندوستان کو ایک ملک بناکر جس مغلیہ سلطنت کی عظمت کی بنیاد رکھی تھی وہ عالمگیر کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی اور اس کا زوال شروع ہو گیا تھا جس کا آخر میں ایک ذلت آمیز شکست پراختتام ہوا۔ ہمارا آج کا فیصلہ ہمارے کل کے انجام کا تعین کر سکتا ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan