کیا سیکولر لادین ہیں؟


پاکستان میں سیکیولر لفظ کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں یا پیدا کی گئی ہیں۔ پاکستان میں مذہب کے معاملے میں اختلاف رائے کی گنجائش تو ختم ہو ہی گئی ہے۔ اب پاکستان کو مذ ہبی ریاست بنانے والوں نے اس بحث کو بند کرنے کے اپنے نظریاتی مخالفین پر لادین سیکولر جیسا لقب لگا دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں انہیں مرتد قرار دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں جو لوگ پاکستان کو بطور سیکولر ریاست کے دیکھنا چاہتے ہیں ان کی ساری توانائیاں اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے میں لگ جاتی ہیں۔ افسوسنا ک بات یہ ہے کہ اردو ڈکشنری میں بھی سیکولرازم کا مطلب لادینیت درج ہے اور اس کے علاوہ اس کی کوئی تشریح بھی نہیں دی گئی۔

جہاں تک سیکولرازم کا تعلق ہے تو اس اصطلاح کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس نظریہ پر یقین رکھنے والا کسی مذہب کو نہیں مانتا۔ اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ اس نظام کے تحت ملک کے ہر شہری کو برابر کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ کسی ایک مذہب کے ماننے والے کو دوسرے پر فوقیت نہیں ہوتی۔ ریاست لوگوں کو کسی خاص عقیدے پر چلنے پر مجبور نہیں کرتی۔ اس کے شہریوں کو ان کے عقائد پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہوتی ہے۔ ایسے نظام کی خوبیوں کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بہت خوبصورتی سے اپنی 11 اگست 1947ء کی تقریر میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے اس تقریر میں اس نظام کو پاکستان میں وضع کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ ان کے اس وعدے کی وجہ سے متحدہ پنجاب کی مسیحی تنظیموں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دئیے۔

قائد اعظمؒ کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں۔ــ’’(پاکستان میں تم آزاد ہو ، پاکستان میں تم آزادی کے ساتھ اپنے مندر یا مسجد یا کسی بھی عبادت گاہ میں جا سکتے ہو۔ چاہے تمہارا کسی بھی مذہب ، ذات یا عقیدے سے تعلق ہو ، پاکستانی ریاست کو اس سے کوئی غرض نہیں ہو گی۔‘‘ انہوں نے اس تقریر میں خصوصاً انگلینڈ کی تاریخ کا ذکر کیا۔ وہاں پر رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ نے ایک دوسرے کے عقائد کے خلاف تفرقی انگیز قوانین بنائے جو ملک کے شہریوں کی ایذا رسانی کا سبب بنے۔ کیونکہ ایسا ناممکن ہے کہ کوئی دو فرقے ایک جیسے مذہبی قوانین پر متفق ہو جائیں۔ انگلینڈ کے لوگوں کو ایسے قوانین کی وجہ سے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ جب کسی ریاست میں ہر شہری کو برابر کے حقوق میسر نہیں آتے تو وہ قوم ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کی ساری توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے میں صرف ہو جاتی ہیں۔ اس وجہ سے انگلینڈ کے ریاستی نظام حکومت میں ان سب امتیازی قوانین کا خاتمہ کر کے سیکولر حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔ باقی مغربی ممالک نے بھی آپس میں مذہب کی بنیاد پہ صدیوں تک جنگیں کر کے دیکھ لیا کہ اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے سیکولرازم۔ اسی لیے بانی پاکستان نے انگلینڈ کی مثال دے کر فرمایا کہ اگر ایسے قوانین پر عملدرآمد ہو جس میں پاکستانی ریاست کے ہر شہری کو برابر کے حقوق اور اختیار حاصل ہوں اور ان پر برابر کی ذمہ داریاں لاگو ہوں تو ایسی ریاست کی ترقی کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ نہیں ہو گی۔

اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ قائداعظمؒ کی مندرجہ بالا تقریر میں کہاں لادینیت کا عنصر ہے۔ انہوں نے پاکستان کا حصول ہی مسلمانوں کی ترقی کے لئے کیا تھا۔ انہیں آل انڈیا کانگریس کے ساتھ رہ کر یہ احساس ہوا تھا کہ اس وقت مسلمانوں کے لئے علیحدہ ریاست ہی ان کی گرتی ہوئی معاشی حالت کو سنبھال سکتی ہے۔

بہت سے لوگ سیکولر حکومت کے خلاف علامہ اقبال کے اس شعر کا حوالہ بھی دیتے ہیں جس میں انہوں نے کہا ہے۔

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

ہمیں علامہ اقبال ؒ کی شاعری کو اُن کے دور کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ اس شعر میں چنگیزیت کے خلاف لکھ رہے ہیں۔ وہ طاقت کے نشے میں ہونے والے قتال کے خلاف ہیں۔ وہ اس طاقت کے خلاف ہیں جو کمزور کے استحصال کا سبب بنتی ہے۔ ان کے عہد میں مغربی ممالک صنعتی ترقی کے ابتدائی دور سے گزر رہے تھے۔ اس وقت ترقی کے نام پر مزدور کا استحصال ہو رہا تھا۔ سرمایہ دار، مزدور اور غریب کے حقوق سلب کئے بیٹھا تھا۔ علامہ اقبالؒ کی نگاہ میں نشہ طاقت کو زیر کرنے اور مساوات قائم کرنے کا علاج دین کا سیاست میں رہنا ضروری تھا کہ طاقتوروں کو خوف خدا یاد رہے۔ ان کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ سیاست میں دین کو شامل کرکے تفرقہ آمیز قوانین بنائے جائیں۔ مغربی ممالک نے اس کے توڑ کے لیے سوشلزم کے بہت سے پہلو شامل کر لیے ہیں جو کہ کسی حد تک مزدوروں کے حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔ کمزوروں اور مزدوروں کا استحصال کس بھی نظام میں ممکن ہے اور اس کے لیے نظام پرنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس زمانے میں اگر ایسا آزمودہ نظام موجود ہے جو کہ نشہ طاقت کو زیر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ کسی صورت میں بھی علامہ اقبال ؒ کے پیغام مساوات کے خلاف نہیں۔

اگر اس نظام سے کوئی یہ مطلب لیتا ہے کہ سب لوگ اس نظام کے عائد ہونے کے بعد مادر پدر آزاد ہو جائیں گے تو وہ سراسر غلط فہمی کا شکار ہے۔ لوگوں کے لباس، رہن سہن اور ان کی ذاتی زندگیوں کا تعلق ان کے مذہب اور کلچر سے ہوتا ہے۔ اس کا تعلق کسی خاص نظام حکومت سے نہیں۔ اس دور میں اگر کوئی ریاست اپنے شہریوں کی ذاتی زندگیوں پر زبردستی پابندیاں لگاتی ہے تو اس کا نتیجہ صرف بغاوت کی صورت میں نکلتا ہے۔

کچھ دن پہلے جماعت اسلامی کے سربراہ مولانا سراج الحق کا بیان سن کر بے حد حیرت ہوئی۔اُنہوں نے فرمایا کہ سیکولرازم کا مطلب ہے کہ نکاح کی کوئی ضرروت نہیں ہوگی۔ اگر مولانا صاحب یہ بیان دینے سے پہلے تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیتے تو اُن پر واضع ہو جاتا کہ بغیر نکاح کے رہنے کو سیکولر سسٹم نے نہ تو ایجاد کیا ہے اور نہ اُسے اپنے نظام کا حصہ بنایا ہے۔ بغیر نکاح کے رہنے کا نظام صدیوں پرانا ہے۔ رومن تاریخ پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اُس زمانے میں بھی کچھ لوگ غلام عورتوں کے ساتھ بغیر نکاح کے رہتے تھے۔ مگر غلام عورتوں سے پیدا ہونے والے بچوں کا قانونی سٹیٹس تھا۔

کچھ لوگ اس نظام کے خلاف یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس نظام کے تحت شراب بیچنے اور فحش فلمیں بنانے کی آزادی ہو گی۔ اس دلیل کا بھی حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔ امریکہ میں 1873ء سے لے کر 1920ء تک شراب بنانے، بیچنےاورپینے پر پابندی تھی جو کہ اس وجہ سے اٹھائی گئی کہ لوگ غیر قانونی طور پر اپنے گھروں میں شراب بنانے لگے تھےاور اس میں صحت کے اصولوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں بچوں پر بنائے جانے والی پورن فلموں پر پابندی ہے اور اس کے بنانے اور دیکھنے والے دونوں کو سخت سزائیں ملتی ہیں۔کچھ لوگ سیکولرازم کو سرمایہ داری سے جدا نہیں کر سکتے۔ یہ درست ہے کہ دونوں نظام مغربی دنیا میں اکٹھے نافذ ہیں۔ کیپیٹلزم معاشی نظام ہے اور سیکولرازم ایک اصولی نظام ہے جو ریاست کے دخل کے بغیر شہریوں کو اپنے مذہب پر عمل کی آزادی دیتا ہے۔

پاکستان میں اس وقت جو حالات ہیں اور مذہب کے نام پر جو تشدد اور تفریق جاری ہے اس کی وجہ بانی پاکستان کے نظریہ مملکت سے انحراف ہے۔ قائد اعظم کو پوری طرح علم تھا کہ سیکولر نظام مذہب کی نفی نہیں کرتا بلکہ ملک کے ہر شہری کو بغیر خوف و ہراس کے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق چلنے کی آزادی دیتا ہے۔ انہیں یہ بھی علم تھا کہ یہ نظام خصوصاً اسلام کی نفی نہیں کرتا کہ مسلمان کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ اسلام ایک منصفانہ اور مساوات پر مبنی نظام کے کیسے خلاف ہو سکتا ہے۔ لہٰذا سیکولر نظام کو لادینیت قرار ددینا پرلے درجے کی ناانصافی ہے اور بانی پاکستان کے کئے گئے وعدوں سے سراسر انحراف ہے۔ اس وقت ہم پر لازم ہے کہ ہم قائد اعظم کی سیاسی فراست پر بھروسہ کریں۔ پاکستان کو ترقی کی راہ میں ڈالنے کا اور اس کے سب شہریوں کو متحد کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ بانی پاکستان کے وعدے کو جلد از جلد پورا کیا جائے۔

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi