سعودی عرب اب احادیث کی انتہا پسندانہ تشریح کا خاتمہ کرے گا


سعودی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ احادیث مبارکہ کی ایسی تشریحات پر نظر رکھے گی جو تشدد اور دہشت گردی کو برحق ثابت کرنے کے لئے کی جاتی ہیں۔ سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اس مقصد کے لئے ایک اتھارٹی قائم کرنے کا حکم دیا ہے جو احادیث مبارکہ کے استعمال پر نگاہ رکھے گی۔ یہ اتھارٹی جعلی اور انتہا پسندانہ تحریروں اور جرائم، قتل اور دہشت گردی کو درست قرار دینے والی ایسی تصنیفات کا خاتمہ کرے گی جو درست اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ شدت پسند اسلامی گروہ مثلاً داعش اور القاعدہ نے سینکڑوں سال سے پڑھائی جانے والی سخت گیر تشریحات احادیث کو تشدد اور دہشت گردی کو برحق ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا ہے اور یہ دہشت گردی اب خود سعودی عرب کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ ”ہم اپنی زندگی کے اگلے تیس برس تباہ کن خیالات سے نمٹنے میں نہیں لگائیں گے۔ ہم انہیں آج ہی تباہ کر دیں گے۔ ہم اپنی اصل کی طرف پلٹ رہے ہیں، یعنی ایک ایسا معتدل ملک جو دنیا کے تمام مذاہب کے لئے کشادہ دلی رکھتا ہو“۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ وہ یہ بات یقینی بنائیں گے کہ ان کا ملک 1979 کے سائے سے نکل جائے۔ ان کا اشارہ 1975 میں شاہ فیصل کے قتل کے بعد 1979 میں خانہ کعبہ پر حملے اور اس کے بعد پولیٹیکل اسلام کے عروج کی طرف تھا جب سعودی شاہوں نے مذہب و معاشرت پر کنٹرول کرنے والے آل شیخ خاندان کو وسیع اختیارات دے دیے تھے۔

سعودی عرب بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سے خود کو خطرے میں محسوس کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں موجودہ بادشاہ اہم ترین اقدامات اٹھا رہے ہیں اور نئی پالیسیاں سامنے لا رہے ہیں۔ ان اقدامات کا محرک ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو سمجھا جاتا ہے۔ سعودی عرب پر مغربی ممالک کا بھی شدید دباؤ ہے جو اسے مغرب میں پھیلنے والے انتہا پسندانہ نظریات اور دہشت گردی کو فروغ دینے کا باعث سمجھتے ہیں۔

شہزادہ سلمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ گزشتہ دنوں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کے فیصلے کے پیچھے وہی تھے۔ وہ ملک کا جدت کی طرف لانا چاہتے ہیں اور انہوں نے اشارہ دیا ہے کہ وہ ملک میں سینما کی جلد ہی اجازت دے دیں گے۔ پچھلے دنوں مرد و زن کی شرکت کے ساتھ قومی دن منایا گیا تھا اور ایک ثقافتی میلہ بھی ہوا تھا۔

سعودی عرب میں تیل کی دولت بھی تیزی سے ختم ہو رہی ہے اور وہ دوسرے وسائل کی طرف متوجہ ہو رہا ہے۔ اسی مقصد کی خاطر نوم نامی ایک چھبیس ہزار مربع کلومیٹر وسیع اقتصادی زون بنایا جا رہا ہے جہاں سعودی کی بجائے ”بین الاقوامی“ قوانین نافذ ہوں گے۔

سعودی عرب 1979 تک موجودہ دور کے مقابلے میں ایک نہایت معتدل ملک تھا۔ اب وہ مذہب کی سخت گیر اور شدت پسندانہ تشریح کے ہاتھوں ہونے والی تباہی دیکھ کر واپس اپنی جڑوں کی طرف پلٹ رہا ہے جو سینکڑوں سال کی خلافت عثمانیہ کی مذہبی رواداری کی پالیسیوں کا پرتو تھیں۔ سعودی حکمران اپنے ملک کو تباہی سے بچانے کی خاطر سخت گیر مذہبی عناصر سے سختی سے نمٹنے کو تیار ہیں۔ کیا ہم اب بھی سعودی عرب کی پیروی کریں گے یا پھر ہم تباہی کی طرف اپنا سفر مزید تیزی سے جاری رکھیں گے یا پھر مذہب کی آڑ لے کر نفرت اور دہشت گردی پھیلانے والوں کے آگے سر جھکائے رکھیں گے؟


اسی بارے میں

الباکستانی اور السعودی دماغ الٹ رہے ہیں

سعودی عرب نے لبرل ہونے کا عزم کر لیا

معتدل مزاج عرب ایک کٹر وہابی ریاست کیسے بنا؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments