کیا ہم دینا جناح کے مجرم ہیں؟


دینا جناح رخصت ہوئیں۔ زندہ تھیں تو ان کی کوئی خیر خبر نہ تھی۔ ملکِ عدم کو سدھارنے کی خبر ملی تو دل کو چوٹ پڑی، کہیں ان کے معاملے میں ہم کسی بہت بڑی کوتاہی کے مرتکب تو نہیں ہوئے؟

میری دانست میں کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ وہ ہمارے قائد کی براہ راست اور واحد نشانی تھیں۔ ہم خوش قسمت ہو سکتے تھے کہ وہ ہمارے درمیان زندہ تھیں۔ قائد کے عظیم احسان کے بدلےان کی اولاد کو اور کچھ نہیں توہم محض احترام تو دے سکتے تھے۔ ہم انہیں احترام دے کر بلاشبہ اپنے قائد کو احترام دے رہے ہوتے۔ ان کو وطن بلاتے، پاکستان کی اعزازی شہریت دیتے، قائد کی بابت ان کی براہ راست معلومات سے مستفید ہوتے، جانتے کہ قائد کے شب و روز کیسے گزرتے تھے، ان کی شخصیت کے پوشیدہ پہلو کیا تھے۔ دینا کے چہرے کو تکتے اوراس میں قائد کے نقوش ڈھونڈتے، ان میں ہمیں قائد کی جھلک نظر آتی تو سر شار ہو جاتے، وہ بولتیں تو ہم سب دم بخود سنتے، سنتے اور سر دھنتے۔

اور تو اور ہماری نئی نسل کو بھی اپنے جدِ امجد کو براہ راست جاننے کا موقعہ ملتا۔
افسوس صد افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ دینا چلی گئیں تو ان کے ساتھ قائد بھی چلے گئے۔ اب ہمیں قائد صرف کتابوں میں ملیں گے، کسی ہستی میں نہیں!
اب لوگ ہمیں ان کی بابت سنی سنائی سنائیں گے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات نہیں!

یہ الفاظ پڑھنے کی دیر ہو گی تو میرے بہت سے دوست میرے استدلال کو یکسر مسترد کر دیں گے۔ قائد نے اپنی بیٹی کو عاق کر دیا تھا تو ہم کون ہوتے ہیں اس سے ناتہ جوڑنے والے؟
دینا نے تو اک پارسی سے شادی کر لی تھی اور نہ جانے اب کس مذہب کی پیروکار تھیں تو ہم کیوں ان کی فکر کرتے؟
انہوں نے پہلے ہندوستان اور پھر امریکہ کو اپنی جائے رہائش بنایا، پاکستان کو اپنا جانا ہی نہیں تو ہم کیوں اعزازی شہریت لیے ان کے پیچھے پھرتے؟
اور اسی قماش کے دوسرے اعتراضات۔

بصداحترام عرض ہے، قائد اور دینا کے درمیان جو کچھ تھا وہ ان کاخانگی معاملہ تھا۔ ہمارے لئے وہ محض قائد کی بیٹی تھیں اور اسی حوالے سے واجبِ احترام تھیں۔
اور پھر اس متنازعہ شادی کو 80 سال گزرنے کے بعد تو شاید قائد بھی انہیں معاف کر چکے ہوتے۔

پندرہ سال کے لگ بھگ ہوتی ہے قتل کے مجرم کو عمر قید۔ دینا کا جرم قتل سے زیادہ تو نہ تھا۔ اگر تھا بھی تو پانچ عمر قیدیں گزر جانے کے بعد بھی کیا وہ قابل معافی نہ تھیں؟
اور اگر پھر اس شادی کو ہی وجۂ نزع سمجھ لیا جائے تو وہ بھی تو چند سالوں بعد اپنے انجام کو پہنچ گئی تھی۔ قائد حیات ہوتے تو شاید دینا کو دوبارہ شرفِ قبولیت بخش چکے ہوتے۔
اپنی اس بیٹی کی فکر تھی تبھی تو اس کے لئے بینک میں اس وقت کے حساب سے ایک قابل ذکر رقم چھوڑی کہ اسے ماہانہ وظیفہ ملتا رہے۔
وہ غیر مذہب تھیں تو کیا، وطنِ عزیز تو سب قومیتوں کا ہے۔

اور پھروہ کسی بھی مذہب کی پیروکار ہوتیں، ہمارے لئے تو ہمارے محسن کی بیٹی ہی تھیں ناں، اور یہی حوالہ کیا ہمارے احترام کے لیے کافی نہیں؟
پاکستان کو انہوں نے اپنا دیس نہ جانا تو ہم نے کون سا ان کی طرف ہاتھ پھیلا ئے۔ ہم تو میزبان تھے، وہ مہمان تھیں اور مہمانوں میں ایک روایتی اور فطری جھجھک ہوتی ہے۔ اور پھر وہ تو اپنے دل میں سو طرح کے خدشات بھی لئے ہوں گی کہ نہ جانے اس دیس کے رہنے والے انہیں قبول بھی کریں گے کہ نہیں!
ہم خندہ پیشانی سے، کھلے بازو ؤں سے، بڑے دل سے، انہیں بلاتے تو کیا معلوم وہ دوڑی چلی آتیں!

کون جانتا ہے دل ہی دل میں پاکستان سے، جو ان کے باپ کی زندگی کا حاصل تھا، ان کی جیتی جاگتی نشانی تھا، وہ کس قدر نسبت محسوس کرتی ہوں گی۔
کسی اور ملک کی شہریت رکھتی تھیں تو کیا مجھے آپ کو یہ بتانے کی، یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اطراف میں معاشرے کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے ان گنت لوگ، خواہ وہ ملک سے محبت کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے سیاستدان ہوں یا اس کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے افسران، ہنرمند اور پڑھے لکھے ہم وطن ہوں یا مزدوری کی تلاش میں بھٹکتےعام پاکستانی، امریکی شہریت رکھتے نہیں تو کم از کم اس کے طالب ضرور ہیں۔ تو کیا ہم ان سب کو بھی اس بنا پر مسترد کرتے ہیں؟

اور پھر اگر کسی کے مزاج پر گراں نہ گزرے تو انتہائی احترام کے ساتھ عرض کروں، وطنِ عزیز میں تو سیاست، اور نتیجۃً نظمِ حکومت، گھومتا ہی وراثت کے گرد ہے۔ ہم بحیثیت قوم اپنےسیاستدانوں کے بچوں کی اہلیت جانچے بغیر ہی ان کے سامنے سر تسلیمِ خمکیے رکھتے ہیں تو پھر قائد کی بیٹی کو ہی کیوں اتنے کڑے پیمانوں پر تولتے ہیں؟
کاش یہ سب کچھ ہمیں پہلے سوجھتا۔

کاش میں خود بھی اپنے اس استدلال کو لفاظی کا رنگ دینا کی زندگی میں ہی دیتا۔
(جو ایک بار ایسا کیا بھی تو انگریزی کے ایک موقٔر اخبار نے اسے قابل اشاعت ہی نہ جانا۔ )
کاش ہم انہیں اپنے دیس میں جیتا جاگتا ہی لاتے۔

مگر افسوس صد افسوس، اوپر والے کرسی کو مضبوط کرنے کی دھن میں مگن رہے تو ہم نیچے والے روٹی کی تلاش میں سر گرداں۔
اپنے مشاغل اور مسائل کیا کم تھے کہ دینا کی بابت سوچتے!
وہ جو اس دنیا میں نہیں رہیں تو چلئے اب ہی اپنی غلطی کا کسی حد تک مداواکیےلیتےہیں۔
اگر ہم اسے اپنی غلطی نہیں بھی سمجھتےتو اپنے تئیں ایک اچھا کام ہی کر لیتے ہیں۔

پارلیمان کا ایک مشترکہ اجلاس طلب کیا جائے، ایک تعزیتی اجلاس، اور اس میں ملک کی تمام سیاسی، انتظامی، عدالتی اور عسکری قیادت شریک ہو۔ قائد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے، ان کی بیٹی کی رحلت پر تعزیتی قرارداد منظور کی جائے۔ ہو سکے توان کی تصویر والا اک یادگاری ٹکٹ کا بھی اجرا ٔ کیا جائے، وہی جس میں وہ اپنے والد کے پہلو میں کھڑی ہیں اور دونوں کے چہروں پر اک دلپذیر مسکراہٹ ہے!

عوامی سطح پر بھی ایسی ہی تقریبات کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔
یہ سب کچھ ممکن ہے اگر ہم اپنا دل بڑا کریں، وسعت نظری سے کام لیں۔
کچھ بھی کہہ لیں، کچھ بھی سوچ لیں، قائد کی بیٹی ان کے دل سے نکلی تو نہ ہو گی۔
سب اصحابِ اولاد اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں، اولاد غلطی کرے بھی تو کسی بھی قسم کی ناراضی کے باوجودکہاں دل سے اترتی ہے!

اور تو اور وہ لوگ جو اپنی اولاد کو بوجوہ عاق کر دیتے ہیں، گھروں سے نکال دیتے ہیں، ان کے دل میں بھی تو کبھی نہ کبھی ٹیس اٹھتی ہو گی، اور خدا سے اپنی اولاد کی خیر مانگتے ہوں گے۔
کیا معلوم دینا سے ترکِ تعلق کے باوجود، دن کی اپنی ہمہ جہت مصروفیات کے بعد، رات کی تنہائی میں، کان پھاڑ دینے والی خامشی کے بیچ و بیچ، قائد کو اپنی اکلوتی اولاد، اپنی محبوبہ اور مرحومہ بیوی کی جیتی جاگتی واحد نشانی، تو یاد آتی ہو گی اور ایسے میں اس مردِ آہن کی آنکھ کا گوشہ بھی بھیگ جاتا ہو گا!
اپنے ناقدین سے میرا آخری سوال: آج اگر عالم بالا میں قائد کو کوئی پیامبر خبر دے کہ ان کے بنائے ہوئے دیس میں ان کی بیٹی کی عزت افزائی ہوئی ہے تو وہ خوش ہوں گے کہ ناراض؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).