پاکستان کے غلیظ بڈھے



ہم جس دنیا میں رہتے ہیں، وہاں ایسے دین دار لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ دنیا کے بیشتر مسائل خواتین کی تھوڑی سی پٹائی سے حل ہوسکتے ہیں۔ اور خواتین کی پٹائی کے اس خدا داد حق پر پاکستان کے تمام دین دار مرد حضرات کا اتفاق رائے ہے۔

چند ہفتے پہلے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے نے ایک نیا قانون منظور کیا جس کا نام ہے، خواتین کو تشدد سے بچانے کا قانون۔ اس قانون نے قطعی بنیادی قسم کے اقدامات متعارف کرائے ہیں جیسا کہ شوہر اپنی بیوی کی پٹائی نہیں کرسکتا، اور اگر کرے گا تو اسے فوجداری مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا اور ممکن ہے کہ اسے اپنے ہی گھر سے نکال دیا جائے۔ اس قانون میں خواتین کی شکایات درج کرنے کے لیے ہاٹ لائن قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بعض صورتوں میں ملزم کو ایسا کڑا پہننا پڑے گا جس سے اس کی نقل و حرکت کی نگرانی کی جاسکے۔ اور اسے اسلحہ خریدنے کی اجازت نہیں ملے گی۔

تیس سے زیادہ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا کہنا ہے کہ یہ قانون غیر اسلامی، پاکستان کو سیکولر ملک بنانے کی سازش اور ہمارے سب سے مقدس ادارے پر کھلا اور براہ راست حملہ ہے۔ اس مقدس ادارے کا نام ہے، خاندان۔ انھوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت نے قانون واپس نہ لیا تو وہ ملک بھر میں گلی گلی احتجاج کریں گے۔

ان کی منطق کچھ اس طرح کی ہے: اگر آپ کسی شخص کی سڑک پر پٹائی کرتے ہیں تو یہ مجرمانہ حملہ ہے۔ اگر آپ اپنی خواب گاہ میں کسی پر تشدد کرتے ہیں تو آپ کو اپنی چاردیواری کا تحفظ حاصل ہے۔ اگر آپ کسی اجنبی کو مار ڈالتے ہیں تو یہ قتل ہے۔ اگر آپ اپنی بہن کو گولی مار دیتے ہیں تو آپ نے غیرت مند ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو نفیس لوگ اس بل کے خلاف مہم چلارہے ہیں وہ اپنی بیویوں کی پٹائی یا اپنی بہنوں کو قتل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے، لیکن ان کی جدوجہد اپنے ساتھیوں کو یہ سب کرنے کا حق دلانے کی خاطر ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ صرف حزب اختلاف کی جماعتیں اس قانون کے خلاف ہیں: حکومت کی مقرر کردہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اسے اپنے مذہب اور ثقافت پر حملہ قرار دیا ہے۔ بظاہر اس کونسل کا کام اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ملک میں تمام قوانین شریعت کے مطابق ہوں۔ لیکن دراصل یہ ایسے بوڑھے لوگوں کا ٹولہ ہے جو ہر رات اس خدشے کے ساتھ سوتا ہے کہ دنیا بھر کی عورتیں ان کی عزت لوٹنے کے درپے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کونسل میں کوئی دین دار خاتون شامل نہیں کی جاتی، حالانکہ پاکستان میں ان کی کوئی کمی نہیں۔

یہ کونسل ماضی قریب میں مرد کے نابالغ لڑکیوں سے شادی کے حق کا دفاع کرتی رہی ہے، دوسری یا تیسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت کو غیر ضروری قرار دیتی ہے اور زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کے لیے جرم کو ثابت کرنا ناممکن بناتنے کے لئے کوشاں رہی ہے۔ غالباً یہ ملک میں سب سے زیادہ مراعات یافتہ غلیظ بڈھوں کا گروہ ہے۔

ان بزرگان دین کی مذمت کرنا کچھ لوگوں کا معمول بن چکا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ محض لاڈلے مذہبی جنونیوں کا ٹولہ نہیں۔ دراصل یہ پاکستانی مردوں کی اس اجتماعی اذیت کو آواز دیتے ہیں کہ ان کی خواتین ان کے قابو سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔ یونیورسٹی امتحانات کے نتائج پر نظر ڈالیں، تمام ٹاپ پوزیشنیوں پر لڑکیاں قابض ہوں گی۔ کسی بینک چلے جائیں، وہاں کوئی خاتون رنگین ناخنوں سے کڑک نوٹ گن رہی ہوگی۔ ٹی وی کھول کر دیکھیں، کوئی خاتون صحافی مشاہیر سے سیاست اور کھیلوں کے بارے میں سوالات کر رہی ہو گی۔

ایک خاتون صحافی حال ہی میں اس قانون کی مخالفت کرنے والے ایک معروف مفتی کی کھنچائی کررہی تھیں۔ مفتی صاحب نے گڑبڑا کر کہا، ’’آپ خاتون ہیں یا ٹی وی جرنلسٹ؟‘‘ اپنے شعبے کی ماہر خاتون صحافی نے جواباً جھنجھلا کر یہ نہیں کہا، ’’اور آپ ایک مفتی ہیں یا کھڑوس بڈھے؟‘‘

ماضی میں کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ایسا ہونے والا ہے۔ تین عشرے پہلے ملازمت کرنے والی بیشتر خواتین معمولی نوکریاں کرتی تھیں، اور باقی خواتین روایتی پیشوں مثلا طب اور تعلیم سے منسلک تھیں۔ کوئی کوئی قانون کا شعبہ اختیار کرلیتی تھی۔ چھوٹی سی لیکن پر عزم، تحریک نسواں چل رہی تھی۔ خواتین ناول لکھ رہی تھیں اور فلمیں بنارہی تھیں لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی۔ اب وہ جہاز اڑا رہی ہیں، اداروں کی سربراہ ہیں، پولیس کی وردی پہن کر گشت کرتی ہیں، پہاڑ تسخیر کررہی ہیں اور آسکرز اور نوبیل انعام جیت رہی ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں لاکھوں خواتین ہیں جو اپنے گھر میں بیٹھ کر چھوٹے بیوٹی پارلر چلاتی ہیں، دوسری خواتین کو ملازمتیں دیتی ہیں اور آزادی اور اختیار حاصل کررہی ہیں۔

لیکن ہر ایک خاتون بینک کیشیئر کے مقابلے میں لاکھوں عورتیں کھیت مزدور یا گھریلو ملازمہ ہیں۔ ہر ٹی وی جرنلسٹ کے مقابلے میں بے شمار عورتیں نیم غلامی میں زندگی گزار رہی ہیں، صفائی ستھرائی پر مجبور ہیں اور اپنے بچوں کی پرورش اور تحفظ کی کمر توڑ ذمے داری اٹھا رہی ہیں۔

اس صورتحال کا الزام صرف ملاؤں اور مفتیوں کو نہ دیں۔ خواتین سے تعصب مذہب سے بھی پرانا ہے۔ حد یہ کہ وہ لوگ جنھوں نے کبھی مسجد کے اندر جھانکا تک نہ ہو، اور صوفی جو خود کو خدائی سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں، وہ بھی عورت کے ساتھ کسی کیڑے اور پالتو بکری کے درمیان کی کسی شے جیسا برتاؤ کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے دوسری بار سوچنے کی زحمت نہیں کرتے۔

پنجاب اسمبلی میں جب یہ قانون منظور کیا جارہا تھا تو کچھ ارکان جان بوجھ کر اس سے دور رہے۔ غالباً وہ اکثریت کے نمائندہ ہیں۔ کچھ لوگ خود کو خواتین کے حقوق کا علم بردار کہتے ہیں۔ “دیکھو، میں نے اپنی بہن کو اسکول جانے سے کبھی نہیں روکا۔ کبھی اپنی گرل فرینڈ کو شرمندہ نہیں کیا۔ اس طرح میں فیمنسٹ قرار پاتا ہوں۔ ہے نا؟ لیکن ہمیں اپنے خاندان کو بھی بچانا ہے۔ آپ کبھی نہیں چاہیں گے کہ خاندان سے محبت کرنے والا، خواتین کے حقوق کا حامی مرد، ٹریکر والا کڑا پہن کر گھومے۔ کیا واقعی؟”

نام نہاد فیمنسٹ مردوں کو سب سے زیادہ جو بات خوفزدہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ بہت سی خواتین اس بارے میں بات کر کر کے بور ہو چکی ہیں کہ عورت ہونا کیسا ہے۔ اب وہ اپنے کام کے بارے میں بات کرتی ہیں۔ ایک خاتون فلم ڈائریکٹر برے اداکاروں کے بارے میں رائے کا اظہار کرتی ہے۔ فلاحی تنظیم کے لیے کام کرنے والی خاتون عطیات کے احمقانہ طریقوں پر تنقید کرتی ہے۔ گھر کی ماسی موبائل فون اور کپڑے دھونے والے پاؤڈر کے معیار پر گفتگو کرتی ہے۔

میرے پڑوس میں ایک خاتون رہتی ہیں جو تیز چلتی ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ دو بچوں کو تھاما ہوا ہوتا ہے۔ شیرخوار نہیں، تین چار سال کے بھاری بھرکم بچے۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہیں۔ شاید جب دو بچوں کو گود میں لیا ہو تو تیز چلنا پڑتا ہے۔ ان خاتون کے قریب سے گاڑیاں گزرتی ہیں لیکن وہ کسی سے لفٹ کی توقع نہیں کرتیں۔ ان کے پاس ٹیکسی کے پیسے نہیں ہوتے۔ ان کا رخ بس کی طرف ہوتا ہے۔ ہر بار دو بچے ان کے بازوؤں پر اور ایک بستا کندھے پر لدا ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو ان کے گھر پر سپارہ پڑھاتی ہیں۔

میرا نہیں خیال کہ مذہب کے ٹھیکے دار، یا کوئی بھی، اس دو بچوں کی ماں کو بتا سکتا ہے کہ اسے کس طرح چلنا چاہیے۔ کوئی شخص ان خاتون سے پوچھ کر دیکھے کہ اس معاشرے میں عورت ہونا کیسا لگتا ہے؟ غالباً ان کا جواب ہوگا، “‘نظر نہیں آتا؟ میں کام کررہی ہوں!”

٭٭٭    ٭٭٭

زیر نظر مضمون محمد حنیف نے لکھا اور اسے مبشر علی زیدی نے اردو میں ترجمہ کیا۔ آ ج سے ٹھیک پانچ برس قبل “ہم سب” نے یہ مضمون 3 اپریل 2016ء کو اس نوٹ کے ساتھ شائع کیا۔۔۔ “دراصل یہ مضمون ہمارے اس اجتماعی ضمیر کی آواز ہے جسے اب تک شرمندگی اور منافقت کے پردوں میں چھپایا جاتا ہے لیکن جو ہمارے انصاف اور خوشی پر مبنی مستقبل کی تصویر  ہے”۔ تاریخ بڑے کام کی چیز ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
17 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments