کبوتروں والا سائیں


پنجاب کے ایک سرد دیہات کے تکیے میں مائی جیواں صبح سویرے ایک غلاف چڑھی قبر کے پاس زمین کے اندر کُھدے ہوئے گڑھے میں بڑے بڑے اپلوں سے آگ لگا رہی ہے۔ صبح کے سرد اور مٹیالے دھندلکے میں جب وہ اپنی پانی بھری آنکھوں کو سکیڑ کر اور اپنی کمر کو دہرا کرکے، منہ قریب قریب زمین کے ساتھ لگا کر اوپر تلے رکھے ہوئے اُپلوں کے اندر پھونک گھسیڑنے کی کوشش کرتی ہے تو زمین پر سے تھوڑی سی راکھ اڑتی ہے اور اس کے آدھے سفید اور آدھے کالے بالوں پر جو کہ گھِسے ہُوئے کمبل کا نمونہ پیش کرتے ہیں بیٹھ جاتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بالوں میں تھوڑی سی سفیدی اور آگئی ہے۔ اُپلوں کے اندر آگ سُلگتی ہے اور یوں جو تھوڑی سی لال لال روشنی پیدا ہوتی ہے مائی جیواں کے سیاہ چہرے پر جھریوں کو اور نمایاں کردیتی ہے۔ مائی جیواں یہ آگ کئی مرتبہ سُلگا چکی ہے۔ یہ تکیہ یا چھوٹی سی خانقاہ جس کے اندر بنی ہوئی قبر کی بابت اس کے پردادا نے لوگوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ ایک بہت بڑے پیر کی آرام گاہ ہے، ایک زمانے سے اُن کے قبضہ میں تھی۔ گاما سائیں کے مرنے کے بعد اب اس کی ہوشیار بیوی ایک تکیے کی مجاور تھی۔ گاما سائیں سارے گاؤں میں ہر دلعزیز تھا۔ ذات کا وہ کُمہار تھا مگر چونکہ اسے تکیے کی دیکھ بھال کرنا ہوتی تھی۔ اس لیے اُس نے برتن بنانے چھوڑ دیئے تھے۔ لیکن اس کے ہاتھ کی بنائی ہوئی کونڈیاں اب بھی مشہور ہیں۔ بھنگ گھوٹنے کے لیے وہ سال بھر میں چھ کونڈیاں بنایا کرتا تھا جن کے متعلق بڑے فخر سے وہ یہ کہا کرتا تھا۔

’’چوہدری لوہا ہے لوہا۔ فولاد کی کونڈی ٹوٹ جائے پر گاما سائیں کی یہ کونڈی دادا لے تو اس کا پوتا بھی اسی میں بھنگ گھوٹ کرپِیے۔ ‘‘

مرنے سے پہلے گاما سائیں چھ کونڈیاں بنا کررکھ گیا تھا جو اب مائی جیواں بڑی احتیاط سے کام میں لاتی تھی۔ گاؤں کے اکثر بڈھے اور جوان تکیئے میں جمع ہوتے تھے اور سردائی پیا کرتے تھے۔ گھوٹنے کے لیے گاما سائیں نہیں تھا پر اُس کے بہت سے چیلے چانٹے جو اَب سر اور بھویں منڈا کر سائیں بن گئے تھے، اس کے بجائے بھنگ گھوٹا کرتے تھے اور مائی جیواں کی سُلگائی ہُوئی آگ سُلفہ پینے والوں کے کام آتی تھی۔ صبح اور شام کو تو خیر کافی رونق رہتی تھی، مگر دوپہر کو آٹھ دس آدمی مائی جیواں کے پاس بیری کی چھاؤں میں بیٹھے ہی رہتے تھے۔ اِدھر اُدھر کونے میں لمبی لمبی بیل کے ساتھ ساتھ کئی کابک تھے جن میں گاما سائیں کے ایک بہت پرانے دوست ابو پہلوان نے سفید کبوتر پال رکھے تھے۔ تکیئے کی دھوئیں بھری فضا میں ان سفید اور چتکبرے کبوتروں کی پھڑپھڑاہٹ بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ جس طرح تکیئے میں آنے والے لوگ شکل وصورت سے معصومانہ حد تک بے عقل نظر آتے تھے اسی طرح یہ کبوتر جن میں سے اکثر کے پیروں میں مائی جیواں کے بڑے لڑکے نے جھانجھ پہنا رکھے تھے بے عقل اور معصوم دکھائی دیتے تھے۔ مائی جیواں کے بڑے لڑکے کا اصلی نام عبدالغفار تھا۔ اسکی پیدائش کے وقت یہ نام شہر کے تھانیدار کا تھا جو کبھی کبھی گھوڑی پر چڑھ کر موقعہ دیکھنے کے لیے گاؤں میں آیا کرتا تھا اور گاما سائیں کے ہاتھ کا بنا ہوا ایک پیالہ سردائی کا ضرور پیا کرتا تھا۔ لیکن اب وہ بات نہ رہی تھی۔ جب وہ گیارہ برس کا تھا تو مائی جیواں اس کے نام میں تھانیداری کی بُو سُونگھ سکتی تھی مگر جب اس نے بارہویں سال میں قدم رکھا تو اس کی حالت ہی بگڑ گئی۔

خاصا تگڑا جوان تھا پر نہ جانے کیا ہوا کہ بس ایک دو برس میں ہی سچ مچ کا سائیں بن گیا۔ یعنی ناک سے رینٹھ بہنے لگا اور چپ چپ رہنے لگا۔ سر پہلے ہی چھوٹا تھا پر اب کچھ اور بھی چھوٹا ہو گیا اور منہ سے ہر وقت لعاب سا نکلنے لگا۔ پہلے پہل ماں کو اپنے بچے کی اس تبدیلی پر بہت صدمہ ہوا مگر جب اس نے دیکھا کہ اس کی ناک سے رینٹھ اور منہ سے لعاب بہتے ہی گاؤں کے لوگوں نے اس سے غیب کی باتیں پوچھنا شروع کردی ہیں اور اس کی ہر جگہ خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے تو اسے ڈھارس ہُوئی کہ چلو یوں بھی تو کما ہی لے گا۔ کمانا ومانا کیا تھا۔ عبدالغفار جس کو اب کبوتروں والا سائیں کہتے تھے، گاؤں میں پھرپھرا کر آٹا چاول اکٹھا کرلیا کرتا تھا، وہ کبھی اس لیے کہ اس کی ماں نے اس کے گلے میں ایک جھولی لٹکا دی تھی، جس میں لوگ کچھ نہ کچھ ڈال دیا کرتے تھے۔ کبوتروں والا سائیں اسے اس لیے کہا جاتا تھا کہ اسے کبوتروں سے بہت پیار تھا۔ تکیئے میں جتنے کبوتر تھے ان کی دیکھ بھال ابو پہلوان سے زیادہ یہی کیا کرتا تھا۔ اس وقت وہ سامنے کوٹھڑی میں ایک ٹُوٹی ہُوئی کھاٹ پر اپنے باپ کا میلا کچیلا لحاف اوڑھے سورہا تھا۔ باہر اس کی ماں آگ سُلگا رہی تھی۔ چونکہ سردیاں اپنے جوبن پر تھیں اس لیے گاؤں ابھی تک رات اور صبح کے دھوئیں میں لپٹا ہوا تھا۔ یوں تو گاؤں میں سب لوگ بیدار تھے اور اپنے کام دھندوں میں مصروف تھے مگر تکیہ جو کہ گاؤں سے فاصلہ پر تھا ابھی تک آباد نہ ہوا تھا، البتہ دُور کونے میں مائی جیواں کی بکری زور زور سے ممیا رہی تھی۔ مائی جیواں آگ سُلگا کر بکری کے لیے چارہ تیار کرنے ہی لگی تھی کہ اسے اپنے پیچھے آہٹ سُنائی دی۔ مڑ کر دیکھا تو اسے ایک اجنبی سر پر ٹھاٹا اور موٹا سا کمبل اوڑھے نظر آیا۔ پگڑی کے ایک پلو سے اس آدمی نے اپنا چہرہ آنکھوں تک چھپا رکھا تھا۔ جب اس نے موٹی آواز میں ’’مائی جیواں السلام علیکم‘‘کہا تو پگڑی کا کھردرا کپڑا اس کے منہ پر تین چار مرتبہ سکڑا اور پھیلا۔ مائی جیواں نے چارہ بکری کے آگے رکھ دیا اور اجنبی کو پہچاننے کی کوشش کیے بغیر کہا

’’وعلیکم السلام۔ آؤ بھائی بیٹھو۔ آگ تاپو۔ ‘‘

مائی جیواں کمر پر ہاتھ رکھ کر اس گڑھے کی طرف بڑھی جہاں ہر روز آگ سلگتی رہتی تھی۔ اجنبی اور وہ دونوں پاس پاس بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر ہاتھ تاپ کر اس آدمی نے مائی جیواں سے کہا۔

’’ماں۔ اللہ بخشے گاماں سائیں مجھے باپ کی طرح چاہتا تھا۔ اس کے مرنے کی خبر ملی تو مجھے بہت صدمہ ہوا۔ مجھے آسیب ہو گیا تھا، قبرستان کا جن ایسا چمٹا تھا کہ اللہ کی پناہ، گاما سائیں کے ایک ہی تعویذ سے یہ کالی بلا دُور ہو گئی۔ ‘‘

مائی جیواں خاموشی سے اجنبی کی باتیں سنتی رہی جو کہ اس کے شوہر کا بہت ہی معتقد نظر آتا تھا۔ اس نے اِدھر اُدھر کی اوربہت سی باتیں کرنے کے بعد بڑھیا سے کہا۔

’’میں بارہ کوس سے چل کر آیا ہوں، ایک خاص بات کہنے کے لیے۔ اجنبی نے رازداری کے انداز میں اپنے چاروں طرف دیکھا کہ اُس کی بات کوئی اور تو نہیں سُن رہا اور بھنچے ہوئے لہجہ میں کہنے لگا۔

’’میں سُندر ڈاکو کے گروہ کا آدمی ہُوں۔ پرسوں رات ہم لوگ اس گاؤں پر ڈاکہ مارنے والے ہیں۔ خون خرابہ ضرور ہو گا، اس لیے میں تم سے یہ کہنے آیا ہوں کہ اپنے لڑکوں کو دُور ہی رکھنا۔ میں نے سُنا ہے کہ گاما سائیں مرحوم نے اپنے پیچھے دو لڑکے چھوڑے ہیں۔ جو ان آدمیوں کا لہو ہے بابا، ایسا نہ ہو کہ جوش مار اٹھے اور لینے کے دینے پڑ جائیں۔ تم ان کو پرسوں گاؤں سے کہیں باہر بھیج دو تو ٹھیک رہے گا۔ بس مجھے یہی کہنا تھا۔ میں نے اپنا حق ادا کردیا ہے۔ السلام علیکم۔ ‘‘

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4