بھولا جولاہا اور چوروں کی منڈلی


کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں ایک جولاہا تھا جس کی حماقتوں کا ایسا عالم تھا کہ اس کا اصل نام بھلا کر سب اسے بھولا کہنے لگے تھے۔ اس کی پے در پے بے وقوفیوں سے نقصان ہوا تو گاؤں والوں نے اسے نکال دیا اور وہ کچھ فاصلے پر الگ تھلگ گھر میں رہنے لگا۔ تین چوروں کی ایک منڈلی سے اس کی دوستی ہو گئی جو رات گئے چوری سے واپسی پر اس کے پاس ٹھہر جاتے اور دو گھڑی سستا کر آگے نکلتے۔ بدلے میں وہ اسے لوٹ کے مال میں سے کوئی چھوٹا موٹا تحفہ دے دیتے۔ بھولا اسی میں خوش ہو کر ان کو حقہ پلاتا اور روٹی پانی کا بندوبست کرتا۔

ایک رات تین چور واپس پلٹے تو ان کے پاس چار قیمتی بھینسیں تھیں۔ جولاہے کی یہ دیکھ کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس نے کہا ”تم ایک دن میں ہی اتنا مال دولت کما لیتے ہو جو مجھے ایک سال کی محنت سے بھی نصیب نہیں ہوتا۔ اگلی مرتبہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جانا۔ میں بھی چور بنوں گا“۔

چوروں نے اسے بہت روکا، ایک بھینس بھی دینے کی کوشش کی مگر بھولا نہ مانا۔ کہنے لگا ”میں ہڈ حرام یا فقیر تو ہوں نہیں جو اس طرح خیرات لوں۔ میں تو ہاتھ پاؤں چلا کر اپنی محنت سے مال کماؤں گا“۔

اگلی مرتبہ چوروں نے ایک قریبی شہر میں چوری کرنے کا منصوبہ بنایا تو بھولے کو بھی ساتھ لے گئے۔ ایک حویلی انہوں نے تاڑ لی۔ پکی دیوار میں نقب لگانا مشکل تھا لیکن اس کی ڈیوڑھی پر چھپر پڑا ہوا تھا۔ انہوں نے سوچا کہ ڈیوڑھی کی چھت پھاڑ کر اندر جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے بھولے کو کہیں سے بانس لانے کا کہا۔

بھولا ادھر ادھر پھرتا رہا مگر اسے کہیں بانس نہ ملا۔ اس نے سوچا کہ کسی مقامی سے مدد لینی چاہیے، وہ بتا سکے گا کہ اس وقت بانس کہاں سے ملے گا۔ وہ حویلی کی ڈیوڑھی کے سامنے چارپائی پر سوئے ہوئے ملازموں کے پاس گیا اور ان کو جگا کر کہنے لگا ”ہماری ٹولی تمہارے گھر کی چھت پھاڑ کر اندر گھسنا چاہتی ہے۔ کیا تمہارے پاس کوئی بانس ہے جو تم کچھ دیر کے لئے ادھار دے سکو؟ “ ملازم ڈر کر چیخنے لگے ”چور چور“۔ یہ چیخ پکار سن کر تینوں چور جان بچا کر الگ الگ سمتوں میں دوڑ گئے۔ جولاہا بھی ان کے پیچھے پیچھے دوڑا۔

اپنے ٹھکانے پر پہنچے تو تینوں چوروں نے بھولے کو کہا ”دوست تمہیں دوبارہ ہمارے ساتھ نہیں جانا چاہیے۔ تم سب کو مصیبت میں پھنسا دو گے اور ہم پکڑے جائیں گے تو راجہ ہمیں پھانسی چڑھا دے گا۔ آئندہ تم اسی جگہ رہنا جب تک ہم چوری کر کے واپس نہیں آ جاتے۔ ہم تمہیں تمہارا حصہ دے دیں گے“۔

بھولا بہت دلگرفتہ ہوا۔ کہنے لگا ”میں ہڈ حرام یا فقیر تو ہوں نہیں جو اس طرح خیرات لوں۔ میں تو ہاتھ پاؤں چلا کر اپنی محنت سے مال کماؤں گا۔ میں اگلی باری بہت محتاط رہوں گا اور عقل استعمال کروں گا۔ ڈرو مت، مجھے بھی ساتھ لے چلو“۔

چور بھولے کی منت سماجت دیکھ کر اسے ساتھ لے جانے پر تیار ہو گئے۔ انہوں نے ایک مکان منتخب کیا اور دیوار میں سیندھ لگانی شروع کر دی۔ انہوں نے بھولے کو کہا ”تم باہر رک کر پہرہ دو، ہم سامان چرا کر لاتے ہیں“۔

بھولے نے پہرہ چوکی سنبھال لی اور تینوں چور نقب سے رینگ کر اندر داخل ہو گئے۔ دس پندرہ منٹ تک چور واپس نہ نکلے تو بھولا سوچنے لگا ”یہ تینوں چور ضرور اچھی اچھی چیزیں اپنے لئے چھپا رہے ہوں گے اور مجھے بیکار چیز دے دیں گے۔ بہتر ہے کہ میں خود بھی اندر جا کر دو چار اچھی چیزیں اٹھا لوں“۔

وہ رینگ کر نقب سے کمرے کے اندر داخل ہوا تو گھپ اندھیرے میں اسے کچھ دکھائی نہ دیا۔ گھبرا کر ادھر ادھر نظر ڈالی تو چولہا دکھائی دیا جہاں کچھ انگارے ابھی بھی سلگ رہے تھے۔ جولاہے نے عقل لڑائی کہ اگر چولہے میں آگ بھڑکا دی جائے تو روشنی ہو جائے گی اور اچھا مال اٹھانے میں آسانی ہو گی۔ اس نے لکڑیاں سیٹ کیں اور چولہے کو پھونکیں مار مار کر خوب آگ بھڑکا دی۔

روشنی ہوئی تو اس نے دیکھا کہ چولہے کے ساتھ ہی ایک تھالی میں سویاں رکھی ہیں اور ایک دیگچی میں دودھ۔ اس کی بھوک چمک گئی۔ اس نے سویاں دودھ کی دیگچی میں ڈالیں اور دیگچی چولہے پر چڑھا کر سویاں پکنے کا انتظار کرنے لگا۔

چولہے کے نزدیک ہی گھر کی مالکن سو رہی تھی۔ اس کو سینک پہنچی تو اس نے سوتے سوتے ہی کروٹ بدلی اور اس کا ایک ہاتھ لٹک کر جولاہے کے سامنے آ گیا۔ جولاہے نے سوچا کہ یہ بھی بھوکی ہے اور سویاں مانگ رہی ہے۔ اس نے دیگچی سے ایک ڈونگی بھری اور ابلتی ہوئی سویاں اس عورت کے ہاتھ پر ڈال دیں۔

وہ عورت بھیانک چیخ مار کر اٹھ بیٹھی۔ دوسرے تین چور دوسرے کمروں کی تلاشی لے کر واپس جانے کے لئے ابھی ابھی اس کمرے میں پہنچے تھے۔ چیخیں سن کر وہ کونوں میں دبک گئے۔ عورت کی چیخیں سن کر اس کا شوہر بھی تلوار لے کر دوسرے کمرے سے دوڑا دوڑا آیا۔ جولاہا گھبرا کر جلدی سے پرچھتی پر چڑھ کر چھپ گیا۔

شوہر نے جب دیکھا کہ چولہے پر سویاں چڑھی ہوئی ہیں اور اس کی بیوی کا ہاتھ دودھ سے لبڑا ہوا ہے تو وہ دھاڑنے لگا ”تم اپنے کسی محبوب کے لئے چھپ چھپ کر رات کو سویاں پکا رہی ہو۔ تم سوچ رہی تھیں کہ میں سو رہا ہوں تو تم رنگ رلیاں منا لو گی۔“ وہ ایک ڈنڈا پکڑ کر اپنی بیوی کو مارنے لگا۔

کہانی جاری ہے۔ مزید پڑھنے کے لئے اگلے صفحے پر کلک کریں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar