ڈاکٹر خالد سہیل کے مضامین کی سنچری مکمل ہونے پر۔ ۔ ۔ ۔


اگر آپ کو کینیڈا کے شہروں (عموما ریستورانوں) میں کوئی شخص کہ جن کے چہرے پہ اگی داڑھی کی نمایاں رنگت سفید، گھنے گھونگریالے بالوں کی جھولتی لٹیں، اور کاندھوں پہ چمڑے کا بیگ نظر آئے کہ جو اہم موضوعات پہ چھپی کتابوں، اسٹیشنری کا ساماں اور کبھی کچھ تصویرِ بتاں اور حسینوں کے خطوط جیسے لوازمات سے لیس ہو اور جو اپنے مسکراتے چہرے اور چمکتی ذہین آنکھوں کے ساتھ آپ کی شخصیت کا ایکسرے کرتے ہوئے گرمجوشی سے اپنا ہاتھ بڑھا کر تپاک سے خوش آمدید کہے تو کسی سے نام پوچھنے کی یکسر ضرورت نہیں۔ یہ مشہور ماہر نفسیات، ادیب، شاعر، ڈاکٹر خالد سہیل ہیں۔ جنہیں ان کے شخصی خواص کی بنا پر ان کے دوستوں نے (کہ جنہیں وہ فیملی آف دی ہارٹ میں شمار کرتے ہیں) دور جدید کا درویش قرار دیا ہے۔ خوش قسمتی سے میرا شمار بھی ان دوستوں میں سے ہے۔ خالد سہیل سے میری پہلی ملاقات کم و بیش دس سال قبل ہوئی کہ جب میں نے ان سے اردو ٹائمز کے لئے پہلا انٹرویو کیا تھا۔

دوستی کے اس طویل دورانیے میں میں ان کی شخصیت اور تخلیقی صلاحیتوں کی قوسِ قزح کے کئی طلسماتی رنگوں سے واقف ہوتی رہی۔ یہ وہی طلسم ہے کہ جس نے گزشتہ ایک برس سے ہم سب کے قارئین کو اپنے حصار میں لیا ہوا ہے۔ ان کے تواتر سے چھپنے والے مضامین کے موضوعات نفسیات، سماجیات، ادب و فلسفہ وغیرہ ہیں۔ لیکن ان سب میں نمایاں رنگ انسان دوستی اور امن پسندی کا ہے۔ وہ اپنے تخلیقی کام کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں۔ اس بنا پر اگر انہیں سیکولر عابد کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ سادگی ان کی تحریر کا وصف ہے۔ کیونکہ وہ ہم سب کے قارئین کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔

ہم سب پر ان کے لکھے مضامین کی سنچری مکمل ہونے پر بھرپور مبارکباد کہ یہ کوئی معمولی سنچری نہیں بلکہ کئی چوکوں اور چھکوں کی مدد سے کھیلی گئی ہے۔ مبارکباد کے ساتھ قارئین کے لیے ان کا ایک انٹرویو بھی پیش خدمت ہے جو ان کی شخصیت کی کچھ اور پرتیں کھولتا ہے۔

س 1: آپ کی ادبی، تخلیقی، علمی اور کسی حد تک سیاسی بالیدگی میں آپ کے خاندانی پس منظر اور ماحول کا کیا کردار ہے؟

ج: مجھے اپنے والدین سے دو رویے وراثت میں ملے ہیں۔ میری والدہ عائشہ قاسم ایک حقیقت پسند(Realist) خاتون تھیں جبکہ میرے والد عبدالباسط ایک مثالیت پسند (Idealist)انسان تھے۔ میری شخصیت میں ان دونوں رویوں کا امتزاج ہے۔ میرا ننھیال روایتی (Traditional) جبکہ میرا ددھیال غیر روایتی اور تخلیقی (Creative) تھا۔ میرے دادا عبدالمجید نے اپنے دونوں بیٹوں اور بیٹیوں کو 1940 کی دھائی میں گریجویشن کروایا تھا۔ میرے والد ایک ریاضی دان تھے جبکہ میرے چچا عارف عبدالمتین اردو اور پنجابی کے شاعر ادیب اور دانشور تھے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ انہوں نے مجھے شاعر اور ادیب بننے اور سماجی، ادبی اور سیاسی شعور حاصل کرنے میں میری بہت حوصلہ افزائی کی۔

س2: آپ کے یہاں نوجوانی سے ہی بغاوت کا رویہ جاری ہے۔ کہیں اس میں پشاور جیسی قدامت پرست اور روایتی جگہ میں تربیت کا ہاتھ تو نہیں ہے؟

ج: یہ بات تو درست ہے کہ پشاور اور صوبہ سرحد کا ماحول روایتی اور قدامت پسند تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہر شاعر اور ادیب، سائنسدان اور فلسفی اندر سے باغی ہوتا ہے اور غیر منصفانہ روایتوں کے خلاف بغاوت کرتا ہے۔ میرے چچا عارف عبدالمتین نے مجھے بیس برس کی عمر میں بتایا تھا کہ ہر معاشرے اور تاریخ کے ہر دور میں دو گروہ پائے جاتے ہیں۔ اکثریت جو روایت کی شاہراہ پر اور اقلیت جو من کی پگڈنڈی پر چلتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اس اقلیت کا حصہ ہوں۔ یہی وہ اقلیت ہے جو روایت کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔ یہ اقلیت معاشرے میں علم و آگہی کی شمع روشن کرتی ہے۔ ظلم، جبر اور استحصال کے خلاف آواز بلند کرتی ہے اور امن و آشتی کے خواب دیکھتی ہے۔

س3: آپ نے نفسیات کا انتخاب کیوں کیا؟

ج: میری والدہ کا خواب تھا کہ میں ایک ڈاکٹر بنوں جبکہ میرا خواب تھا کہ میں ایک شاعر اور فلاسفر بنوں۔ جب میں ڈاکٹر بن گیا تو میں نے اپنے آپ کو ایک دوراہے پر پایا۔ آخر میں نے سوچا کہ اگر میں ایک ماہرِ نفسیات بن جاؤں تو میرے ڈاکٹر اور فلاسفر بننے کے خواب یکجا ہو جائیں گے۔

نفسیات میں میری خصوصی دلچسپی کی دو وجوھات اور بھی ہیں۔ جب میں دس سال کا تھا تو میرے والد عبدالباسط ایک نفسیاتی بحران کا شکار ہوئے ایک سال کے بعد جب وہ صحت یاب ہوئے تو وہ ایک صوفی بن گئے۔ میرا خیال ہے کہ بچپن کے اس تجربے نے لاشعوری طور پر مجھے ماہرِ نفسیات بننے کی تحریک دی ہو گی۔

نوجوانی کے دور میں جب میری بہت سی شامیں لائبریری میں گزریں اور میں نے سینکڑوں کتابیں پڑھیں اس دور میں میں نے ایک کتاب پڑھی جس نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس کتاب کا نام تحلیلِ نفسی تھا۔ اس کتاب نے مجھے انسانی ذہن کی گتھیاں سلجھانے کی تحریک دی۔ میری نگاہ میں یہ وہ عوامل تھے جنہوں نے مجھے نفسیات کا طالب علم اور بعد میں ماہر نفسیات بننے میں اہم کردار ادا کیا۔

س 4:آپ کی تحریروں میں امن پسندی کا پرچار قابلِ ستائش ہے لیکن یہ آپ ایک امن پسند ملک میں رہتے ہوئے کہہ رہے ہیں۔ ستر کی دھائی میں تعلیم کے بعد آپ نے باہر کا رخ اختیار کیا جبکہ آپ سماج کی تبدیلی اور امن کی ملکی جدوجہد میں حصہ لے سکتے تھے۔ آپ نے وطن میں رہنے کی بجائے ملک چھوڑنے کو ترجیح دی۔ کیا ہم اس کو مشکل حالات سے فرار نہیں کہیں گے؟

ج: پشاور میں جب میں نے نفسیات میں تخصیص حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ آپ ہر شعبے میں تخصیص حاصل کر سکتے ہیں سوائے نفسیات کے۔ چنانچہ پہلے میں ایران گیا اور پھر میں نے نفسیات میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ساری دنیا کی یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے درخواستیں دیں۔ چند ماہ کی کوشش کے بعد مجھے آئر لینڈ، نیوزی لینڈ اور نیوفن لینڈ میں داخلہ مل گیا۔ میں نے اپنی پروفیسر ڈاکٹر شمیم مجید سے مشورہ کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ کنیڈا جا کر فیلو شپ حاصل کروں کیونکہ کنیڈا کی ڈگری ساری دنیا میں زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ چنانچہ کنیڈا آنے اور رہنے میں نفسیات کی تعلیم کا اہم کردار ہے۔ پاکستان میں آج بھی لوگ پیروں فقیروں کے پاس جاتے ہیں ماہرینِ نفسیات کے پاس نہیں۔ اس لیے آپ کے مشورے سے میں نے نفسیات میں اردو میں کتابیں لکھی ہیں تاکہ معاشرے میں نفسیات کی تعلیم اور آگہی بڑھائی جائے۔

جہاں تک امن کا تعلق ہے میں اسے ایک عالمی مسئلہ سمجھتا ہوں چاہے پہلی جنگ عظیم ہو یا دوسری جنگ عظیم، مشرق وسطیٰ کی جنگ ہو یا (war on terror) ہو، یہ عالمی جنگیں ہیں۔ جس میں پاکستان نے اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے اہم کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان افغانستان کا ہمسایہ ہے افغانستان پر روس حملہ آور ہوا تھا۔ جس کے جواب میں امریکہ نے کمیونزم کو شکست دینے کے لیے پاکستان کو استعمال کیا۔ میں نے عالمی امن کے حوالے سے دو کتابیں لکھی ہیں۔

Prophets of Violence, Prophets of Peace

From Holy War to Global Peace

ان کتابوں میں میں نے ان رہنماؤں، لیڈرز (Leaders) اور پیروکاروں (Followers) کا نفسیاتی تجزیہ کیا ہے جو امن یا تشدد کی تحریک میں شامل ہوتے ہیں۔ اپنے آدرش کے لیے جان دیتے ہیں اور پھر جان لیتے ہیں۔ اپنے مطالعے اور تجزیے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بیسویں صدی میں دو اہم تحریکیں چلیں۔ ایک تحریک کمیونزم کی تھی، جو انصاف قائم کرنے کے لئے مسلح جدوجہد کے حق میں تھی۔ اس تحریک کے بانی ولاد میر لینن تھے۔ جنہوں نے روس میں انقلاب لانے میں نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ کارل مارکس سے متاثر تھے۔ روس کے انقلاب کے بعد چین میں ماؤزے تنگ، ویت نام میں ہوچی منہ ، کیوبا میں چے گوارا اور فیڈرل کاسٹرو اس تحریک کا حصہ تھے۔

جس دور میں روس میں مسلح جدوجہد کے بانی ولاد میر لینن زندہ تھے۔ اسی دور میں روس میں امن پسند تحریک کے بانی لیو ٹالسٹائی بھی زندہ تھے۔ ٹالسٹائی کی امن کی تحریک سے متاثر ہونے والوں میں ہندوستان کے موہن داس گاندھی، امریکہ کے مارٹن لوتھر کنگ جونیر اور تبت کے دالائے لامہ بھی شامل تھے۔

میں اس طویل جواب سے یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم سب دنیا کے کسی کونے میں زندہ رہ کر بھی عالمی امن کی تحریک سے جڑ سکتے ہیں۔ اب دنیا ایک عالمی گاؤں بن گئی ہے۔

انٹرویو کا باقی حصہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3