سعادت حسن منٹو کی شادی کیسے ہوئی؟ منٹو کے اپنے قلم سے


سعادت حسن منٹو کی والدہ

میں اپنی ماں کے آنسوؤں کا ذکر کر رہا تھا جو اس لیئے ان کی آنکھوں سے نکلے تھے کہ ان کا بیٹا جو نازو نعم میں پلا تھا اب زمانے کی گردش سے ایسی غلیظ جگہ میں رہتا ہے۔ اس کے پاس کپڑے نہیں۔ رات مٹی کے تیل کا لیمپ جلا کر کام کرتا ہے۔ ہوٹل میں روٹی کھاتا ہے۔

وہ جب تک روتی ر ہی، میں شدید قسم کی دماغی اور روحانی اذیت میں مبتلا رہا جو دن گزر چکے ہیں، ان کی یاد میرے نزدیک ہمیشہ فضول رہی ہے اور پھر رونے دھونے کا کیا مطلب ہے۔ مجھے ہمیشہ ’’آج ‘‘ سے غرض رہی ہے۔ گزری ہوئی کل یا آنے والی کل کے متعلق میں نے کبھی نہیں سوچا۔ جو ہونا تھا ہو گیا، جو ہونے والا ہے ہو جائے گا۔

رونے سے فارغ ہو کر میری والدہ نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا ’’سعادت تم زیادہ کیوں نہیں کماتے‘‘۔

میں نے جواب دیا۔ ’’بی بی جان، زیادہ کما کر کیا کروں گا۔ جو کچھ کما رہا ہوں میرے لئے کافی ہے۔‘‘

انہوں نے مجھے طعنہ دیا۔ ’’نہیں، بات اصل میں یہ ہے کہ تم زیادہ کما نہیں سکتے ۔۔۔۔۔۔ زیادہ پڑھے لکھے ہوتے تو الگ بات تھی۔‘‘

بات درست تھی، لیکن میرا پڑھنے میں جی ہی نہیں لگتا تھا۔ تین بار انٹرنس میں فیل ہونے کے بعد جب کالج میں داخل ہوا تو میری آوارگی اور بھی بڑھ گئی اور ایف اے کے امتحان میں دو مرتبہ ناکام رہا۔ علی گڑھ گیا تو وہاں سے اس بناء پر نکالا گیا کہ مجھے دق کا عارضہ لاحق ہے۔

ان تلخ حقائق کو محسوس کرنے کے باوجود میں نے بات کو ہنسی مذاق میں ٹالنے کی کوشش کی ’’بی بی جان، میں جو کچھ کماتا ہوں، میری ذات کیلئے کافی ہے ۔۔۔۔۔۔ گھر میں بیوی ہوتی تو پھر آپ دیکھتیں، میں کیسے کماتا ہوں۔ کمانا کوئی مشکل کام نہیں۔ آدمی اعلیٰ تعلیم کے بغیر بھی ڈھیروں روپیہ حاصل کر سکتا ہے۔‘‘

یہ سن کر والدہ نے اچانک مجھ سے یہ سوال کیا۔ شادی کرو گے۔‘‘

میں نے ایسے ہی کہہ دیا ’’ہاں ۔۔۔۔۔۔ کیوں نہیں!‘‘

’’تو اس اتوار کو تم، ماہم، آؤ، فٹ پاتھ پر کھڑے رہنا۔ میں تمہیں دیکھ کر نیچے آ جاؤں گی‘‘ والدہ نے یہ کہہ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ’’تمہاری شادی کا بندوبست ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔ انشاء اللہ ۔۔۔۔۔۔ لیکن دیکھو، اپنے بال کٹوا کے آنا ۔۔۔۔۔۔‘‘

میں نے بال نہ کٹوائے۔ رات کو میں نے اپنے کینوس شو پر پالش کر دیا تھا۔ ڈبل ریٹ پر دھلوائی ہوئی سفید پتلون پہن کر میں اتوار کی صبح کو ’ماہم‘ میں ’’ایننگ لیٹومینشنز‘‘ کے پاس فٹ پاتھ پر کھڑا تھا۔ والدہ تیسری منزل کے فلیٹ کی بالکنی پر میری منتظر تھیں۔ انہوں نے مجھے دیکھا تو نیچے آئیں اور مجھے ساتھ چلنے کو کہا۔

بیس پچیس گز کے فاصلے پر ایک بلڈنگ تھی ۔۔۔۔۔۔ ’جعفر ہاؤس‘ ۔۔۔۔۔۔ والدہ نے اس کی دوسری منزل کے ایک فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جو نوکرانی نے کھولا۔ ہم اندر داخل ہوئے۔

منٹو – آٹھ دن میں اداکاری کرتے ہوئے

والدہ زنانے میں چلی گئیں۔ میرا استقبال ایک گورے چٹے ادھیڑ عمر کے آدمی نے کیا۔ مردانے میں بڑی محبت اور بڑے خلوص کے ساتھ بٹھایا اور فوراً بے تکلف ہو گئے۔ آپ نے مجھ سے اور میں نے ان سے ایک دوسرے کے مشاغل کے متعلق معلومات حاصل کیں۔

وہ گورنمنٹ کے ملازم تھے۔ پولیس کے محکمے میں ’’فنگر پرنٹ اسپیشلسٹ‘‘ تنخواہ واجبی تھی۔ کئی بچوں کے باپ تھے۔ ریس اور فلش کے رسیا، کراس ورڈ پزلز بڑی باقاعدگی سے حل کرتے تھے، مگر کوئی انعام حاصل نہیں کر سکتے تھے۔

میں نے ان کو اپنے سارے حالات بتا دیئے۔ یہ بھی کہہ دیا کہ ایسی فلم کمپنی میں ملازم ہوں جہاں تنخواہ نہیں ملتی، صرف سانس کی آمدورفت جاری رکھنے کے لیئے کبھی کبھی ایڈوانس کے طور کچھ مل جاتا ہے۔

مجھے تعجب ہے کہ میں نے جب ان کو یہ بتایا کہ ایسی پتلی حالت میں بھی ہر شام کو بیئر کی ایک بوتل ضرور پیتا ہوں تو انہوں نے برا نہ مانا۔

میری ہر بات کو انہوں نے بڑے غور سے سنا۔ جب میں جانے کیلئے اٹھا تو ملک حسن صاحب، میری کتاب زندگی کے تمام ضروری اوراق کا مطالعہ کر چکے تھے۔

جب ہم وہاں سے نکلے تو والدہ نے مجھے بتایا کہ یہ لوگ افریقہ سے آئے ہیں، تمہارے بھائیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں (انہوں نے دس بارہ برس مشرقی افریقہ میں بیرسٹری کی تھی) ان کے ہاں ایک لڑکی ہے، جس کا بیاہ کرنا چاہتے ہیں۔ کئی رشتے آ چکے ہیں، مگر ان کو پسند نہیں آئے۔ اصل میں کوئی کشمیری گھرانہ چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں نے ان سے تمہاری بات کی ہے ۔۔۔۔۔۔ اور کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھی۔

صفیہ منٹو ذکیہ جلال کے ہمراہ

رہی سہی جو کسر رہ گئی تھی وہ والدہ نے پوری کر دی تھی، لیکن میں سوچنے لگا کہ یہ سلسلہ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ اگر وہ لوگ مان گئے (حالانکہ مجھے اس کا یقین نہیں تھا، اس لیئے کہ مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ وہ مجھے اپنی لڑکی دیتے) تو کیا سچ مچ مجھے شادی کرنا پڑے گی اور ۔۔۔۔۔۔ اور پھر ڈھیروں روپے بھی کمانا پڑیں گے؟

ملک صاحب نے مجھے دوسرے اتوار کو کھانے پر مدعو کیا تھا میں حسب وعدہ وہاں پہنچا تو انہوں نے میری بڑی آؤ بھگت کی۔

کھانا آیا۔ مرغ تھا، کوفتے تھے، ساگ کا سالن بھی تھا اور دھنیئے پودینے اور انار دانے کی چٹنی، ہر چیز لذیذ تھی، لیکن گرم مصالحہ اور مرچیں اس قدر کہ الامان۔ میرے پسینے چھوٹ گئے، لیکن رفتہ رفتہ میں عادی ہو گیا۔

دو تین اتواروں کے بعد میں جب ان لوگوں میں گھل مل گیا تو میری والدہ نے مجھے بتایا کہ انہوں نے میرا رشتہ قبول کر لیا ہے۔ جب میں نے یہ سنا تو چکرا گیا۔ میں تو شادی کے اس قصے کو صرف ایک مذاق سمجھ رہا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے قطعاً یقین نہیں تھا کہ مجھے کوئی ہوش مند انسان اپنی لڑکی دے گا۔ میرے پاس تھا ہی کیا۔ انٹرنس پاس، وہ بھی تھرڈ ڈویژن میں۔ ملازمت ایسی جگہ جہاں تنخواہ کے بجائے ایڈوانس ملتا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور پیشہ فلم اور اخبار نویسی۔ ایسے لوگوں کو شریف آدمی کب منہ لگاتے تھے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6