شفیق الرحمٰن اور کرکٹ


ابن انشا کی ادب میں ہمہ جہتی کو بیان کرنے کے لیے شفیق الرحمٰن نے انھیں اردو کا ایسا ممتاز آل راؤنڈر قرار دیا جو ضرورت پڑنے پر وکٹ کیپنگ بھی کرلے۔

دجلہ میں لکھتے ہیں: ’’ انگریز ہر وقت کرکٹ کرکٹ کرتے رہتے ہیں۔ محبت ہوجانے پر عاشق بولڈ ہو جاتا ہے، کوئی محبوب سے جھوٹ بولے تو کہا جاتا ہے کہ یہ کرکٹ نہیں ہے۔ شادی ہونے پر بیوی اسے سٹمپ کر دیتی ہے۔ ملازمت سے سبکدوش ہوتے وقت اطمینان کا اظہار کرتا ہے کہ شکر ہے، اننگز اچھی رہی۔‘‘

شفیق الرحمٰن نے تکیہ کلام کے بارے میں مزے کا مضمون لکھا ہے۔ اس میں ایک بزرگ کا تکیہ کلام ہے ہاں ! ہوسکتا ہے ان سے جب ایک شخص کرکٹ میں اپنی کسی عمدہ پرفارمنس کا فخریہ اظہار کرتا ہے تو آگے سے اس کو یہ ٹکا سا جواب ملتا ہے ہاں ! ہوسکتا ہے۔ اس تکیہ کلام کو وہ کرکٹر بار بار سنتا ہے لیکن اپنے کارنامے بیان کرنے سے باز نہیں آتا لیکن دوسری طرف بھی ہاں ! ہوسکتا ہے کا ورد جاری رہتا ہے جس سے وہ زچ ہوجاتا ہے۔

’’ترپ چال‘‘ میں بھی کرکٹ کا ذکر ہے جس میں شیطان ہر صورت ٹیم کا حصہ بننے پر تلے بیٹھے ہیں لیکن کپتان انکاری ہیں کیوں بقول شفیق الرحمٰن، شیطان کھلاڑی ایسے ویسے ہی ہیں۔ ان کا زیادہ سے زیادہ سکور صفر تھا۔ ’’دریچے‘‘ میں وہ رومان کے بارے میں لکھتے وقت بیچ میں کرکٹ کو لے آئے ہیں ۔’’رومان کی بین الاقوامی تاریخ شاہد ہے کہ اگر کچھ ہونا ہو تو شروع شروع ہی میں ہوجاتا ہے ورنہ اگر پہلے چند over میں وکٹ نہ ملے تو معاملہ طویل اور بورنگ ہوتا چلا جاتا ہے۔ بلکہ بیشتر معشوق تو چڑ کر اور بے زیادہ بے رحمی سے سلوک کرتے ہیں۔ ‘‘

Australian batsman Norman O’Neill crouches to avoid West Indies bowler Wesley Hall during the second innings of the first test at Brisbane, 19th December 1960.

’’ دجلہ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ مجھے کرکٹ بالکل پسند نہیں۔ ایک مرتبہ بلا غلط گھما دو تو آؤٹ۔ اگر کوئی اچھے بھلے اسٹروک پر نہایت عمدہ کیچ کر لے تو آؤٹ۔ ہاکی، فٹ بال وغیرہ میں غلطیاں کرنے کے باوجود کم از کم ایک گھنٹہ کھیلنے کو تو دیتے ہیں اور پہلی ہی کوتاہی پر میدان سے باہر نکلنا نہیں پڑتا۔ ‘‘

ان کا ایک مضمون ہے ’’ مکان کی تلاش میں‘‘ ، اس میں وہ ہاسٹل میں مقیم اس طالب علم کی بپتا بیان کرتے ہیں جو امتحان کی تیاری کرنا چاہتا ہے لیکن وہ لڑکے جن کے امتحانات ہوچکے ہیں یا ابھی ہونے ہیں، اس کا وقت ضائع کرنے آجاتے ہیں اور لمبی لمبی داستانیں سناتے ہیں جس سے غریب طالب علم عاجز ہے ، اور تو اور ایک صاحب میچ کی روداد سنانے آن پہنچتے ہیں۔

شفیق الرحمٰن نے اپنے مضمون ’’ بیزاری ‘‘ میں اس کی مختلف کفیتوں کو بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ ایک چھوتی بیماری ہے جس کے جراثیم ہوا میں موجود ہیں، اس کی سند وہ کرکٹ سے بھی پیش کرتے ہیں۔

’’ ٹیکسلا سے پہلے اور ٹیکسلا کے بعد‘‘ کے شروع میں میچ کی اطلاع دی جاتی ہے جس میں مردوں نے برقع پہن کر کھیلنا ہوتا ہے۔ اس سے جس مضحکہ خیز صورت حال نے جنم لیا اس کا بیان ملاحظہ ہو:

’’ اب مردوں کی باری تھی۔ خواتین فیلڈ کرنے نکلیں۔ تالیوں کے شور میں دو حضرات برقعے پہن کر نکلے۔ تھوڑی دور گئے ہوں گے کہ بھٹک گئے۔ ایک کا رخ شمال مشرق کی طرف ہوگیا اور دوسرے کا شمال مغرب کی طرف ہوگیا۔ خواتین نے ان کی مدد کی انگلی پکڑ کر انھیں وکٹوں کے سامنے لایا گیا۔ پہلی گیند پر ایک صاحب نے برقعے کے اندر حیرت انگیز ہٹ لگائی۔ دوسری گیند پر گیند بلا برقعہ سب آپس میں الجھ گئے۔ تیسری پر انھوں نے زور سے بلا اپنے گھٹنے پر دے مارا اور بجائے سامنے بھاگنے کے وکٹ کیپر کی طرف چل دئیے۔ آواز دے کر انھیں واپس بلایا گیا۔ ایک صاحب نے خواہ مخواہ اچھلنا کودنا شروع کردیا۔ معلوم ہوا کہ برقعے میں بھڑ داخل ہوگئی ہے۔ برقعہ اتار کر بھڑ کو باہر نکالا گیا۔ ‘‘

شفیق الرحمٰن نے اپنی کتاب ’’ دریچے‘‘ میں اپنے طرز میں کون کیا ہے (Who is who)مرتب کیا ہے جس میں دلچسپ پیرائے میں مختلف شخصیات کا زندگی نامہ پیش کیا گیا ہے، ان میں سے ایک ایسے صاحب کا تذکرہ بھی ہے جنھوں نے کرکٹر بننے کے لیے بڑے پاپڑ بیلے۔ شفیق الرحمٰن نے ان کے بارے میں جو لکھا وہ ملاحظہ کریں:

نزہت جمیل

آپ امیر گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے بخوبی وقت ضائع کر سکتے ہیں۔ 64ء سے آپ نے کرکٹ کا کھلاڑی بننے کے لئے بہتیرے جتن کئے (اور کافی روپیہ صرف کیا۔) لیکن کامیابی نہ ہوئی۔

آپ کا اصلی نام میاں ملنگ باز تھا، لیکن جب آپ نے نوٹ کیا کہ ان دنوں کھلاڑی نفیس شاہد، احسن صبیح، رفعت نفیس، نحیف لطیف، طلعت ملیح کی قسم کے نام رکھنے لگے ہیں، تو آپ نے بھی اپنا نام بدل لیا۔

67ء میں آپ نے وکٹ کیپر بن کر شہرت حاصل کرنی چاہی۔ (چونکہ آپ میں سپورٹس مین بننے کی صلاحیتیں بالکل نہیں تھیں، اس لئے کرکٹ کو آپ کی ذات سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچ سکا)۔

جب بیٹسمین باؤلر کی گیند پر بَلّا گھْماتا لیکن گیند اور بَلّے کی ملاقات نہ ہو سکتی تو آپ گیند کو کیچ کرتے وقت منہ سے پٹاخ کی آواز نکالتے اور ساتھ ہی امپائر سے اپیل کرتے۔ کبھی کبھی امپائر کو شبہ ہو جاتا کہ پٹاخ کی وہ آواز بلے سے گیند چھْو جانے کی تھی اور وہ بے قصور بیٹسمین کو آؤٹ قرار دے دیتا۔ کچھ عرصے کے بعد لوگوں کو پتہ چل گیا اور آپ کی وکٹ کیپری سے سب بدگمان ہو گئے۔

اگلے سال باؤلر بننے کی کوشش کی۔

آپ نے سر کے بال بڑھا لئے اور میچ کی صبح کو ویزلین، تیل یا کوئی اور چکنی چیز سر میں مل لیتے۔ گیند پھینک کر سر پر ہاتھ پھیرتے اور جب گیند واپس ملتی تو چکنے ہاتھوں سے اْسے چمکاتے رہتے۔ چنانچہ جتنی دیر آپ باؤلنگ کرتے گیند کی چمک دمک جوں کی توں رہتی۔ لیکن لوگوں کو اس کا بھی پتہ چل گیا۔ ساتھ ہی آپ نے ایک نیا تجربہ شروع کیا۔ کبھی کبھی گیند پھینکتے وقت امپائر کی آواز میں زور سے NO BALL چلّا دیتے۔ بیٹسمین ایسی گیند کو لاپرواہی سے کھیلتا۔ اور اگر آؤٹ ہو جاتا، تو خوب جھگڑا ہوتا۔ امپائر قسمیں کھاتا کہ میں نے نوبال نہیں کہا۔ یہ ضد کرتے کہ امپائر کے سوا ایسا اہم فیصلہ کون دے سکتا ہے۔

70ء میں بیٹسمین بننے کا فیصلہ کیا۔

مخالف ٹیم کو تنگ کرنے کے لئے ہر over کی چند گیندیں رائٹ ہینڈر بن کر کھیلتے اور چند لیفٹ ہینڈر بن کر۔ چنانچہ آپ کے لئے بار بار فیلڈ بدلی جاتی۔ اس طرح کافی وقت ضائع ہوتا اور مخالف ٹیم سے زیادہ تماشائی خفا ہوتے۔

72ء میں باقاعدہ پریس کانفرنس طلب کی اور بیان دیا کہ آپ کو دیگر اہم مصروفیات کی وجہ سے فرسٹ کلاس کرکٹ (ففتھ یا سیونتھ کلاس کرکٹ کہنا چاہیے تھا) سے ریٹائر ہونا پڑ رہا ہے۔ (اس پر کرکٹ نے اطمینان کا سانس لیا ہو گا۔)

73ء کے بعد سے یہ مشغلہ ہے کہ جہاں کہیں کرکٹ کا میچ ہو رہا ہو، وہاں ضرور جاتے ہیں اور دونوں ٹیموں کے کھیلنے والوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2