من کا پاپی اور عشقِ ممنوع


اس کی پنڈلیوں کے بال چاول کے دانے سے ذرا بڑے، سخت اور سیاہ رنگ کے تھے۔ صفی چور نظروں سے دیکھا کیا۔ وہ دونوں فرش پہ بیٹھے، دیوار سے ٹیک لگائے، آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ صفی نے محسوس کیا، کہ وہ اس کی دُزدیدہ نگاہی کو بھانپ گئی ہے، تبھی اپنے پاؤں کے انگوٹھے سے فرش کو کرید رہی ہے۔ وہ دو بچوں کی ماں تھی، لیکن اُس کے حسن میں کوئی کمی نہ آئی تھی۔ کچھ لڑکیاں شادی کے بعد نکھرتی ہیں، اور ماں بننے کے بعد اور بھی دل کش ہو جاتی ہیں۔

عام لڑکیوں کی نسبت اُس کا قد نکلتا ہوا تھا۔ گندمی سپیدی مائل رنگت؛ سیاہ گھنے بال، لمبی ٹانگیں، مضبوط لیکن متناسب کمر، بھرے ہوئے سینے کی وجہ سے اُسے پتلی کمر بھی کہا جائے تو کوئی معترض نہ ہو۔ صفی سے اس کا کوئی تو ناتا تھا، لیکن اسے کوئی نام دینا مشکل تھا؛ کہنے کو وہ اُس کے دوست کی بیوی تھی۔

”آپ ہمارے ان داتا ہیں؛ آپ نہ ہوتے تو حفیظ آج اس مقام پہ نہ ہوتے۔ میں اور حفیظ آپ کا بہت ذکر کرتے ہیں‘‘۔

کچھ دیر پہلے صفی اسے للچائی نظروں سے دیکھ رہا تھا، یہ بات سن کے وہ کسمسانے لگا۔ صفی کو اس کا ایسے تعریف کرنا پسند نہ تھا۔ اُسے لگتا تھا، اسے احترام کے پنجرے میں قید کردیا گیا ہے۔ وہ عاجز بنا سر جھکائے، تصور ہی تصور میں اس کی چاندی سے ڈھلی پنڈلیوں کو لایا، جو شلوار کا پائنچہ اوپر ہونے کی وجہ سے دکھائی دے رہی تھیں۔ صفی اپنے آپ کو مجتمع کرنے لگا، کہ دوبارہ اس کی نرم جلد کو اپنی آنکھوں میں جذب کر سکے۔ ایسے میں اس کے ذہن میں یہ سوال تھا، کہ ان گداز پنڈلیوں پر بال نہ ہوتے تو کیسا ہوتا! اسے لگا ایسی جلد پہ بال نہ ہوتے تو اسے اُس کی ٹانگوں میں ویسی کشش نہ محسوس ہوتی، جیسی بالوں‌کے ہوتے ہے۔

”کیا آپ کی مسز آپ کی ایسے ہی قدر کرتی ہیں؟ “
صفی نے حیرت سے اُسے دیکھا، کہ کہیں اسے سب خبر تو نہیں ہو گئی؛ لیکن کیسے ہو سکتی ہے، جب کہ یہ بات اُس نے کسی سے نہیں کہی تھی، کہ اُس کی شادی کا تجربہ اذیت ناک ہے۔ اُس کی اپنی بیوی منیرہ سے کبھی نہ بن سکی تھی۔ حال آں کہ دس برسوں میں منیرہ سے اُس نے تین بچے بھی پیدا کر لیے۔ اِن دنوں منیرہ رُوٹھ کے اپنے میکے گئی ہوئی تھی۔

’قدر؟ قدر کیا ہوتی ہے؟ چھوڑو! کوئی اور بات نہ کریں‘‘؟
”’کریں ناں! مجھے آپ کو سننا اچھا لگتا ہے‘‘۔
صفی استہزائیہ انداز میں مسکرایا۔

”اس سے کیا فرق پڑتا ہے، تم کسی اور کی رائے سے، مجھے کیوں جاننا چاہتی ہو“؟
”واہ! مجھے آپ کی یہی باتیں اچھی لگتی ہیں؛ پتا ہے میں حفیظ سے کہتی ہوں، آپ بالکل الگ سا سوچتے ہیں؛ عام طور پہ لوگ ایسے نہیں سوچتے‘‘۔
”عام طور پہ لوگ کیسے سوچتے ہیں‘‘؟

پہلے تو اُس نے حیرت سے دیکھا؛ جب صفی کا سوال سمجھ آیا تو اُس کے ہونٹ یوں کھلے جیسے تتلی پرواز کے لیے پروں کو پھیلائے اور ارادہ ملتوی کرتے سمیٹ لے، اور پھر وہ پر مسکرائیں۔ مسکرانے کا یہ انداز بھی صفی کی حالت غیر کرنے کے لیے بہت تھا۔ اُس کا جی چاہا، آگے بڑھ کے یہ ہونٹ چوم لے؛ لیکن احترام کے کئی حجاب بیچ میں حائل تھے۔ کوئی کسی کو معزز جان کے آؤ بھگت کرے، تو گویا محترم کو رسیوں میں جکڑ دیتا ہے۔
”کب تک آ جائے گا، حفیظ‘‘؟
”کیوں؟ آپ بور ہو رہے ہیں‘‘؟
دوسرے کمرے سے بچی کے رونے کی آواز آئی تو وہ فورا اُٹھ کے چلی گئی۔
”ایک منٹ، میں آئی‘‘۔

صفی بیٹھا سوچ رہا تھا، کہ یہ مکمل عورت ہے۔ یہ مجھے پہلے کیوں‌ نہ ملی۔ ملی تو اب کیوں‌ ملی، جب یہ شادی شدہ ہے۔ صفی کی حفیظ سے دو تین سال پہلے ملاقات ہوئی تھی۔ حفیظ پشاور میں نوکری کے لیے آیا تھا، لیکن جلد ہی اُس کی نوکری جاتی رہی۔ پڑھا لکھا تھا، لیکن دیہی ماحول میں پرورش پانے کے باعث، اُس کے اطوار شہری تہذیب کے سے نہ تھے۔ عام طور پہ ایسے لوگوں کو دیکھ کے ’پینڈو‘ کا لفظ ذہن میں آتا ہے۔ وہ صحت مند تھا، بھولا بھالا تھا، پر خلوص تھا، خوش اخلاقی اس کا سب سے بڑا وصف تھا۔ اسے ڈھنگ سے پہننا سکھایا جاتا تو کسی فلمی ہیرو سے کم نہ لگتا؛ لیکن اس کی اپنے آپ پہ توجہ نہ تھی۔

صفی نے ایسے میں اُس کے رہنے کا بند و بست کیا، جب اُس کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ اسے اپنے جاننے والے ایک پراپرٹی ڈیلر کے پاس ملازمت دلوائی۔ حفیظ دفتر کی صفائی سے لےکر کے کلائنٹ کو مکان دکھانے تک ہر کام خوش اسلوبی سے کرتا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ ساری اونچ نیچ سمجھتا چلا گیا، اور سال بھر ہی میں اس نے کرائے کی دُکان لے کر میز کرسی رکھی، ایک طرف سوفا، اور اپنا پراپرٹی ایجنٹ کا ایک دفتر بنا لیا۔ قسمت کا پہیا متحرک ہو، تو کام یابی کی منزل خود ہی چل کے قریب آتی چلی جاتی ہے۔

حفیظ جب صفی سے ملا تھا، تو شادی شدہ تھا؛ اُس کا ایک بیٹا تھا، لیکن اس کی بیوی جہلم میں اُس کے والدین کے پاس رہتی تھی۔ اس دوران اس کا جہلم آنا جانا لگا رہا، اور اس کی ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ چھہ مہینے پہلے وہ انھیں پشاور لے آیا تھا۔ تبھی اُس نے فخر سے صفی کو اپنی بیوی نصرت سے ملوایا؛ صفی اُسے دیکھ کے حیران ہوا، کہ دونوں کی شخصیت میں کتنا تضاد ہے۔ نصرت کا پہناوا شہری لڑکیوں کا سا تھا۔ معلوم ہوا کہ نصرت لاہور کے قریب شاہدرہ سے ہے، اور اُس نے پنجاب یونے ورسٹی سے ایم اے اردو کیا ہے۔

”تمھاری اور حفیظ کی شادی کیسے ہوئی‘‘؟
جب اُس نے نصرت سے یہ پوچھا تھا، تو حفیظ بھی وہیں موجود تھا۔ وہ بظاہر لا تعلق بنا، سوفے کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کر کے مسکرا رہا تھا؛ جیسے اس خوش کن لمحے کو یاد کر رہا ہو۔
”ہائے! قسمت‘‘!

نصرت نے مسکراتے ہوئے اُس لہجے میں جواب دیا، جو عموما ہر شادی شدہ جوڑا شادی کے تین چار سال بعد، ایک دوسرے کو چھیڑنے کے لیے اپناتا ہے۔ اس میں سچائی کم اور دل لگی کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔
”یہ میرے بھائی جان کے ساتھ دُبئی میں کام کیا کرتے تھے۔ وہیں یہ دونوں دوست بن گئے‘‘۔

”ارے؟ تم دُبئی میں بھی رہے ہو‘؟ صفی نے حفیظ کو متوجہ کیا۔
”پشاور آنے سے پہلے دو سال لگائے ہیں۔ ایک مسئلہ ہو گیا تھا، واپس آ گیا‘‘۔

”یہ بھائی جان سے ملنے شاہدرہ، ہمارے گھر آئے، تو مجھے پتا نہیں تھا، ڈرائنگ رُوم میں ہیں۔ ایسے ہی اندر چلی گئی، اور بس۔ انھوں نے مجھے دیکھ لیا‘‘۔
”تم گھبرا کے لوٹ گئی ہو گی‘‘؟ صفی اِس صورت احوال کا سوچ کے لطف اندوز ہوا۔
”نہیں! گھبرائی تو میں تھی لیکن ایک دم سے نہیں پلٹی‘‘۔
مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran