من کا پاپی اور عشقِ ممنوع


”پھر‘‘؟
حفیظ اُٹھا۔ ”میں سونے جا رہا ہوں‘‘۔

حفیظ جلد سونے کا عادی تھا۔ کئی بار یوں ہوتا کہ وہ تینوں بیٹھے بات کر رہے ہوتے، تو حفیظ وہیں بیٹھے بیٹھے سو جاتا۔
”یار بیٹھو تو سہی، ہم باتیں کر رہے ہیں‘‘۔
صفی نے اُسے رُکنے کو کہا، لیکن اُس کا دل یہی چاہ رہا تھا، کہ حفیظ جا کے سو جائے۔
”نصرت سے باتیں کریں، آپ۔ سارا دِن کا تھکا ہوا ہوں‘‘۔

حفیظ ہمیشہ صفی کو احترام سے بلاتا تھا۔ کبھی تم کر کے نہیں پکارا۔ نصرت بھی صفی کا نام نہ لیتی تھی، لیکن بھائی یا کسی اور رشتے سے پکارنا پسند نہیں تھا۔ وہ برملا کہتی تھی کہ مجھے آپ کو کسی رشتے سے پکارنا پسند نہیں ہے۔ انسان کا کسی سے تعلق ہو، تو ضروری نہیں وہ بھائی، بیٹا، ماموں، چچا، انکل کے صیغے سے پکارا جائے۔ صفی کے لیے حیران کن تھا، کہ بظاہر اُس کا شوہر پینڈو سا ہے، لیکن اُس نے اس بات پہ کبھی کوئی رائے نہ دی تھی، نہ اصرار کیا تھا، کہ اُس کی بیوی غیر سے پردہ کرے، یا صفی کو کسی رشتے سے پکارے۔ اور تو اور اُسے صفی کا نصرت سے ہر موضوع پہ گفت گو کرنا بھی کبھی برا نہ لگا تھا۔ نہ تنہائی میں بیٹھ کے بات کرنے پہ اُس نے کبھی شک کا اظہار کیا۔

ملاقاتوں میں تسلسل آیا تو ان کے بیچ میں جھجک کم ہوتی چلی گئی۔ دونوں کی وٹس ایپ اپلیکیشن کی ذریعے بھی بات ہونے لگی۔ کبھی نصرت کوئی دل چسپ لطیفہ بھیج دیتی، کبھی صفی کوئی دل لگی کی بات کرتا؛ لیکن ایسے کِہ جیسے دو دوست ہوں۔ صفی کبھی ذو معنی ’کوٹیشن‘ بھی بھیج دیتا۔ گزشتہ ملاقات میں پہنے لباس، یا نصرت کے ہاتھ کے بنے کھانے کی تعریف وٹس ایپ پیغام کے ذریعے دیتا، لیکن نصرت نے کبھی ایسا رد عمل نہ دیا تھا، کِہ کہا جا سکے اسے اعتراض ہے؛ بل کِہ صفی کا خیال تھا، وہ حوصلہ افزائی ہی کرتی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی، کِہ دونوں آمنے سامنے بیٹھ کر، ایسے گفت گو بھی کرلیتے تھے، جو عام حالات میں مرد عورت کے بیچ میں نہیں ہوتی۔

منیرہ کے میکے جانے سے صفی کا خالی مکان میں جی نہ لگتا تھا، تو وہ اپنا زیادہ وقت ان کے یہاں بِتانے لگا۔ وہ چلتی پھرتی تو صفی اس کے انگ انگ کا مطالعہ کرتا۔ کبھی اس کے گریبان میں جھانکتا، تو کبھی اس کے کولھوں کے دائرے گنتا۔ صفی چاہتا تھا، کچھ ایسا ہو جائے کہ وہ پگھل کے اس میں سما جائے؛ لیکن مصیبت یہ تھی کہ وہ صفی کو احترام کے سنگھاسن پر بٹھاتی تھی۔

”تمھاری فینٹسی کیا ہے؟ “
”فینٹسی؟ “ اس کی آنکھوں میں حیرانی تھی۔
صفی مناسب لفظ تلاش کرنے رُکا۔

”تُم کچھ ایسا سوچتی ہوگی۔ کچھ بھی۔ کچھ ایسا۔ جو کسی سے بھی کہنے سے جھجکتی ہو؟ حتا کہ اپنے آپ سے“؟
”میں سمجھی نہیں!“
صفی کو سِرا مل گیا، ”کیا کبھی ایسا خیال آیا، کِہ ٹرین میں کوئی اجنبی ملے، اور۔ “

”اور؟ “
”اَور۔ اور یہ کہ اسے تم سے محبت ہوجائے؟ یا تمھیں اُس سے محبت ہو جائے؟ “
صفی ’محبت‘ کے بہ جائے کچھ اور کہنا چاہتا تھا، لیکن ڈر تھا، کچھ ایسا ویسا کَہ دیا تو کہیں بنا بنایا امیج نہ برباد ہوجائے۔
”نہیں! میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا۔ “

”تم نے کبھی ایسا سوچا ہو، کِہ‘‘۔
صفی ایک بار پھر یہ سوال کرتے ہچکچایا، پوچھنا یہ چاہتا تھا، کِہ تمھارا کسی اجنبی سے سیکس کرنے کو جی چاہا، لیکن پوچھنے کی جرات نہ کر پایا۔
کیا تمھیں کسی سے محبت ہوئی ہے؟ “
”ہاں! شادی سے پہلے ہوئی تھی“۔

”شادی کے بعد؟ “
”سچ بتا دوں؟ ہاں!“
صفی کے دِل میں رقابت کے جذبے نے سر اُٹھایا۔ ”کون ہے، وہ؟ تم نے اپنے حفیظ کو بتایا؟ “

”بتایا نہیں۔ انھیں دل چسپی ہی نہیں۔ جب سے شادی ہوئی ہے، وہ کام ہی میں بزی رہتے ہیں۔ ہمارے درمیان ایسی باتیں نہیں ہوتیں“۔
”تمھیں حفیظ کیسا لگتا ہے؟ کیا تمھیں حفیظ سے محبت ہے‘‘؟

وہ تھوڑی دیر چپ سی رہی؛ صفی خاموشی سے دیکھتا رہا، اِس ڈر سے نہ بولا، کِہ نصرت کہنے کے لیے جو الفاظ منتخب کر رہی ہے، کہیں اُس کے بولنے سے وہ لفظ نہ گم جائیں۔
”یہ ویسے نہیں ہیں، جیسا میں نے سوچا تھا۔ آپ نے دیکھا نہیں، نہ انھیں پہننے کا سلیقہ ہے، نہ کھانے پینے کا‘‘۔

”وہ سلیقہ تم میں ہے، تم اس کے لیے لباس چنا کرو، ویسا پہناؤ جیسا دیکھنا چاہتی ہو‘‘۔
”کئی بار کوشش کی، لیکن انھیں دل چسپی نہیں ہے‘‘۔
”کیا وہ تم سے پیار نہیں کرتا؟ کوئی کمی ہے، اُس میں‘‘؟
”میں ایکسپلین (وضاحت) نہیں کر سکتی‘‘۔

”کیا ایسا ہے، کہ اس کے ساتھ کہیں آتے جاتے تمھیں شرمندگی ہوتی ہے۔ تمھیں لگتا ہے، کہ تم پرفیکٹ کپل نہیں ہو‘‘۔
”یہی تو خوبی ہے، آپ کی۔ ایسا ہی ہے لیکن لفظوں میں بیان نہیں کر پاتی، جیسے آپ کر جاتے ہیں۔ آپ نے صحیح کہا ہے‘‘۔

”تم کیا سمجھتی ہو، تمھیں اس سے الگ ہو جانا چاہیے‘‘؟
صفی نے لوہا گرم دیکھ کے سوال داغ ہی دیا۔
”میں آوارہ نہیں کہلانا چاہتی‘‘۔

وہ ایک پل میں تہہ تک پہنچ گیا تھا، کِہ وہ ایسا چاہتی ہے، لیکن سماج کا ڈر ہے۔ اگر یہ حفیظ سے طلاق لے کے مجھ سے شادی کر لے۔ صفی ایسا کچھ سوچ رہا تھا۔
”آوارہ والی کیا بات ہے، اِس میں؟ مذہبی طور پہ بھی تمھیں اجازت ہے‘‘۔

”تو ادھر مذہب کی کون سنتا ہے۔ ایسی کوئی بات کروں، تو سب سے پہلے میرے ماں باپ ہی میرے دشمن ہو جائیں گے‘‘۔
”ہوں! یہ تو ہے‘‘۔ صفی نے تائید کی۔ بات کسی ایسے ہی موڑ پہ اٹک جایا کرتی۔

جب بھی موقع ہوتا، اُن کے بیچ میں ایسے ہی کوئی نہ کوئی بات چھِڑ جاتی، اور ہمیشہ موضوع گفت گو ایک ہی نکتے پہ آ ٹھیرتا۔ منیرہ کو ناراض ہو کے گئے تین مہینے ہو چکے تھے، لیکن صفی نے یہ خبر ان سے کمال ہشیاری سے چھپا رکھی تھی۔ حفیظ اپنے کمرے میں سویا ہوتا؛ دوسرے کمرے میں صفی اور نصرت فرش پہ بیٹھے، دیوار سے ٹیک لگائے، دیر دیر تک باتیں کرتے رہتے۔ کبھی صفی وہیں اُن کے یہاں سو جاتا، کبھی گھر چلا جاتا۔

”حفیظ بتا رہے تھے، آپ کو ہاتھ دیکھنا بھی آتا ہے؟ میرا ہاتھ دیکھیں‘‘۔ ایک رات نصرت نے یہ فرمائش کر دی۔
”تمھارے ہاتھ بہت حِسین ہیں؛ نازُک سے‘‘۔ صفی نے بے سوچے سمجھے کَہ دیا۔ نصرت زیرِ لب مسکرائی۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran