کمانڈو سپاہی، محبت کا شاعر اور داود بانڈہ کا بھیڑیا


چاروں طرف پھیلے ہوئے سیاہ سنگلاخ پہاڑوں کی چوٹیوں پر صبح کی ابرق سفیدی اترنے لگی تھی۔ رات کی منجمد ہوا اب دھیرے دھیرے پگھل رہی تھی۔

ایک طویل خونیں جنگ کے بعد بالآخر ہم داود بانڈہ کی چوکی کو دشمن کے قبضے سے چھڑانے میں کام یاب ہو گئے تھے۔ دشمن اب پسپا ہو رہا تھا اور اس کے لڑاکے اپنے پیچھے اپنا اسلحہ بارود لاشیں اور زخمی چھوڑتے ہوئے تیزی سے قریبی پہاڑی دروں میں رُو پوش ہو رہے تھے۔ اس معرکے میں ہمارے بہت سے جوان شہید ہو ئے تھے اور کئی زخمی بھی تھے جن میں میں خود بھی شامل تھا۔

یہ ان دنوں کا ذکر ہے کہ جب وقت کی ایک بڑی عالمی طاقت تکبر کے نشے میں چور پڑوس کے ایک چھوٹے ملک پر حملہ آور ہو چکی تھی۔ وہاں کے غیور عوام غاصب فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں نکل آئے تھے۔ بیرونی دشمن کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ان غدار ہم وطنوں سے بھی بر سر پیکار تھے کہ جنھوں نے دشمن کا آلہ کار بننا پسند کیا تھا۔ بڑی طاقت کے توسیع پسندانہ عزائم کو بھانپتے ہوئے ہماری عسکری قیادت سرحد پار لڑتے ہوئے مجاہدین کی بھرپور امداد کر رہی تھی۔

داود بانڈہ کی یہ قلعہ نما چوکی تزویراتی لحاظ سے بہت اہم جگہ پر واقع تھی۔ یہاں سے دشمن کے ہاتھوں بکے ہوئے کچھ قبائلی سردار اکثر مجاہدین کے قافلوں کو نشانہ بناتے رہتے تھا۔ اس لئے اس چوکی کو ان سے واگذار کرانا انتہائی ضروری ہو گیا تھا ؛گو کہ فوجی نقطہ نظر سے یہ جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ اس آپریشن کی اہمیت کے مد نظر ہائی کمان نے میرا اور کیپٹن اسد علی کا انتخاب بہت غور و فکر کے بعد کیا تھا۔

وہ ہڈیوں کے گودے تک اتر جانے والی ایک شدید سرد رات تھی، جب میں اور اسد اپنے کمانڈوز کے ہم راہ مجاہدین کے دو دستوں کی قیادت کرتے ہوئے داود بانڈہ پہنچے اور دو مختلف سمتوں سے دشمن پر حملہ آور ہوئے۔ ہمیں ہماری توقع سے کہیں زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پورے آپریشن کے دوران اسد کی کمپنی میری نظروں سے اوجھل رہی تھی۔ جب بلندی سے برسنے والی آگ کی شدت کم ہوتے ہوتے تقریبا ختم ہو گئی تو میں نے اسے کام یابی کا اشارہ جانا اور چوکی پر قبضے کے لیے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ تقریبا اسی وقت جنوب کی سمت سے اسد اپنی کمپنی کی قیادت کرتا ہوا نمودار ہوا۔ اسے دیکھ کر میری جان میں جان آئی۔ میں نے تھمب اپ کر کے اسے مبارک باد دی۔ اس نے سر کی جنبش سے داد وصول کی۔ پھر ہاتھ کی انگلیوں سے تیر کا نشان پوسٹ کی طرف اور پھر اپنی طرف بنایا۔ میں اس کا اشارہ سمجھ گیا۔ اب مجھے فارورڈ چارج کو لیڈ کرنا تھا اور اسد نے مجھے ضروری بیک اپ کور دینا تھا۔

میں نے اپنے دستے کو پوسٹ میں داخل ہونے کا اشارہ دیا اور خود ان کی قیادت کرتا ہوا پوسٹ کی چڑھائی چڑھنے لگا۔ ہم لوگ پوسٹ کے اندر آسانی سے اور بغیر کسی مزاحمت کے داخل ہو گئے۔ لیکن مجھے اس خاموشی سے خطرے کی بو آرہی تھی۔ اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ سامنے کی ایک او۔ پی سے ایک دم آگ برسنے لگی۔ یہ ہیوی مشین گن کا فائر تھا۔ ہمارے سنبھلنے سے پہلے ہمارے کئی جوان شہید ہو گئے تھے۔ بہت سے زخمی بھی ہوئے جن میں خود بھی شامل تھا۔

اسد کی طرف سے فوری جوابی فائر آنے سے دشمن کی گن خاموش تو ہو گئی گو اس سے پہلے ہمارا کافی نقصان ہو چکا تھا۔ اس اچانک حملے سے ہم ابھی سنبھلے نہ تھے کہ قریبی شکستہ دیوار کے پیچھے سے قبائلیوں کا ایک جتھا بد روحوں کی طرح نکلا اور نعرے لگاتا ہوا ہم پر ٹوٹ پڑا۔ اب دست بدست لڑائی شروع ہو چکی تھی۔ میں نےدیکھا کہ سامنے کچھ فاصلے پر اسد دو شر پسندوں کے ساتھ دو بدو تھا۔ وہ دونوں تیز دھار چاقووں سے مسلح تھے۔ میں اسد کے جسم سے رستا ہوا لہو دیکھ سکتا تھا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ان میں سے ایک کو مار گرایا جب کہ دوسرا زخمی ہو کر بھاگ نکلا۔ اسد اس کے پیچھے بھاگا۔ میں بھی ہمت کر کے اٹھا اور اسد کے پیچھے لپکا۔ اسد نے اس شر پسند پر پیچھے سے فائر کیا جو اسے لگا۔ وہ زخمی ہوا لیکن رکا نہیں اور پیچھے عمارت کے منہدم شدہ حصے کی طرف بھاگتا چلا گیا۔

جب میں ان کا تعاقب کرتے ہوئے بیرونی دیوار کے ملبے تک پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ شر پسند زمین پر تھا اور اسد اس کے سر پر بندوق تانے کھڑا تھا۔ صبح کے ملگجے اجالے میں میں نے قریب ہو کر دیکھا تو حیران رہ گیا کیوں کہ وہ شر پسند کوئی جوان مرد نہیں بلکہ ایک لڑکا سا تھا۔ اس کی عمر سترہ اٹھارہ سے زیادہ نہیں رہی ہو گی۔ اس کی ہلکی بھوری باریک داڑھی مونچھوں کو شاید ابھی تک استرے نے نہیں چھوا تھا۔ وہ اس وقت چت پڑا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں نیم وا تھیں تھیں اور اس کا سانس سینے میں بڑی بھاری اور خوف ناک آواز کے ساتھ چل رہا تھا۔ اس کا مٹیالا شلوار قمیص اور میلا چکٹ جیکٹ دونوں خون میں لت پت تھے۔

میں اس نو عمر شر پسند لڑکے کو زیادہ دیر تک زندہ نہ دیکھ سکا۔ اسد کی بندوق کا ٹریگر دبنے سے پہلے کے آخری لمحے میں مجھے لگا کہ اس لڑکے کی مرتی ہوئی نیلی آنکھیں ایک بار پوری کھلی تھیں؛ اس کے ہاتھوں اور بازووں میں بھی حرکت ہوئی تھی۔ مجھے لگا کہ شاید وہ اٹھنا چاہتا تھا۔ اسد سےکچھ کہنا چاہتا تھا۔ لیکن اسے اس کا موقع نہ مل سکا تھا۔ یکے بعد دیگرے دو فائر ہوئے اور گولیاں اس کے نیم مردہ وجود کے پار ہو گئیں۔ اس کے حلق سے غڑپ جیسی ایک آواز نکلی اور ساتھ ہی اس کا کورا جسم ایک پھریری لے کر ٹھنڈا پڑ گیا۔

میں اور اسد چند سیکنڈ اور وہاں رکے اور اس لڑکے کی موت کا اطمینان کر کے واپس پلٹے۔ لیکن ابھی ہم چند قدم ہی گئے تھے کہ ایک ایسا واقعہ رُونما ہوا جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

اسد واپس لاش کی طرف آیا اور کچھ ثانیے تک بغور اس خاک و خون میں لپٹے مردہ جسم کو دیکھتا رہا۔ پھراس بے اپنی بندوق دوبارہ سیدھی کی اور ڈز۔ ڈز۔ ڈز۔ باقی گولیاں بھی اس کے جسم کے پار کر دیں۔
’’سالا۔ سانپ کی اولاد۔ تھو‘‘۔

اسد نے فرش پر تھوکا پھر پلٹا اور مجھے دیکھے بغیر میرے قریب سے گزر کر آگے چلا گیا۔

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5