عوام کو اوپر سے کیسے کنٹرول کیا جاتا ہے؟


بیس کی دہائی میں نیویارک کے بینکوں نے ملک بھر میں نئے ڈیپارٹمینٹل اسٹورز کی چینز کو فنانس کرنا شروع کر دیا۔ ان اسٹوروں پر بڑے پیمانے پر تیار کی جانے والی اشیاء رکھی گئیں اور برنیز کو ایسے نئے صارفین تیار کرنے کا ہدف دیا گیا جو ان کو خریدیں۔

برنیز نے مختلف تجربات کرنا شروع کر دیے۔ برنیز کا ایک کلائنٹ ولیم رانڈولف ہوسٹ بھی تھا، جس نے اپنا خواتین کا میگزین پروموٹ کرنے کا کہا۔

بیرنیز نے میگزین میں گلیمر لانا شروع کر دیا۔ اس کے بعد وہ اداکاروں، ماڈلز اور مصنوعات کو ایک ساتھ میگزین میں لے آئے۔ بیرنیز نے پہلی مرتبہ فلموں اور اسٹیج ڈراموں میں وہ مصنوعات رکھنا شروع کر دیں، جن کی پروموشن کے لیے وہ کام کرتے تھے اور اداکاراوں کو وہ کپڑے اور زیورات پہنانے شروع کیے جو وہ مارکیٹ میں بیچنا چاہتے تھے۔

پہلی مرتبہ ٹی وی اسکرینوں پر یہ اشتہار چلے کہ کپڑے پرسنیلٹی کا اظہار ہوتے ہیں اور آپ اپنی چھپی ہوئی شخصیت کا اظہار مخصوص قسم کے لباس پہن کے کر سکتے ہیں اور ان اشتہاروں کا مقصد صرف نت نئے لباس بیچنا تھا۔

انیس سو ستائیس کے قریب امریکا میں صارفین کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اسٹاک مارکیٹ بھی ایک دم اوپر آئی۔

بیرنیز نے اس سے بھی فائدہ اٹھایا اور عام لوگوں سے کہا کہ وہ بھی اسٹاک مارکیٹ کے شیئرز خریدیں۔ بیرنیز کی اس نصیحت پر لاکھوں امریکیوں نے بینکوں سے ادھار لیتے ہوئے شیئرز خرید لیے۔ اس وقت بیرنیز بینکوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا تھا اور تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ عام شہریوں کو اسٹاک مارکیٹ کے کھیل میں شامل کیا گیا۔

بیرنیز اس وقت اس حوالے سے مشہور ہو چکا تھا کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ 1924 میں امریکی صدر کیلون کولج نے برنیز سے رابطہ کیا۔ صدر کی میڈیا میں شہرت اچھی نہیں تھی۔ پریس صدر کو بیوقوف اور مزاح سے نابلد صدر کے طور پر پیش کر رہی تھی۔ صدر نے بیرنیز کو کوئی حل نکالنے کا کہا اور اس نے وہی مصنوعات والا طریقہ اختیار کیا۔

برنیز نے ملک کے چونتیس فلم اسٹاروں کو وائٹ ہاوس میں مدعو کیا اور طرح تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاست اور پبلک ریلیشنز کے درمیان تعلق قائم ہوا۔ اگلے دن ملک کے تمام اخبارات میں صدر سے متعلق مثبت ہیڈلائنز لگی ہوئی تھیں ۔ مزاح اور زندگی سے بھرپور نظر آنے والا صدر سب کے سامنے تھا۔

بیس کی دہائی میں فرائیڈ کی کتاب امریکا میں چھپ چکی تھی اور اس نے نہ صرف صحافیوں بلکہ دانشوروں کو بھی متاثر کیا تھا۔ انہی میں ایک امریکا کے با اثر ترین پولیٹکل رائٹر والٹر لیپ مین بھی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر واقعی انسان کو اس کے ذہن میں چھپی ہوئیں غیر حقیقی اور لاشعوری قوتیں کنٹرول کرتی ہیں تو جمہوریت کا از سر نو جائزہ لیا جانا چاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسی ایلیٹ ہونی چاہے جو عوام کے غیر حقیقی جذبات کو کنٹرول کرے۔

ایڈورڈ بیرنیز بھی لیپ مین کے ان دلائل سے متاثر ہوا کیوں اس طرح وہ خود اپنے اثرو رسوخ میں مزید اضافہ کر سکتا تھا۔ بیس کی دہائی میں بیرنیز نے نئی کتابیں لکھنا شروع کیں اور یہ دعوی بھی کیا کہ اس نے ہجوم کے لاشعور اور غیر عقلی جذبات کو کنٹرول کرنے کے نئے طریقے دریافت کیے ہیں۔ ان طریقوں کو انجنئرنگ آف کانسِٹ کا نام دیا گیا۔

این بیرنیز اپنے والد کے بارے میں کہتی ہیں، ’’میرے والد کی نظر میں جمہوریت ایک خوبصورت خیال تھا لیکن انہیں یہ یقین نہیں تھا کہ باہر سبھی انسان صحیح اور قابل اعتماد فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں لوگ آسانی سے کسی ایسے غلط شخص کو ووٹ دے سکتے ہیں جو غلط اقدام اٹھانا چاہتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ان لوگوں کو اوپر سے کنٹرول کیا جانا چاہیے۔ ان کے اندرونی خوف سے اور ان کی اندرونی خواہشات سے کھیلتے ہوئے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘

پھر 1928ء میں واقعی ایک ایسا امریکی صدر آیا، جو بیرنیز کے حق میں تھا۔ صدر ہوور وہ پہلے صدر تھے، جنہوں نے کہا کہ کنزیومرازم کو امریکی لائف کا مرکزی انجن ہونا چاہیے۔ اپنی حلف برداری کے تقریب کے بعد ان کا پبلک ریلیشنز اور ایڈورٹائزمنٹ کے ایک گروپ سے ملاقات کرتے ہوئے کہنا تھا، “اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم خواہشات پیدا کرو اور لوگوں کو ایک مستقل حرکت کرتی ہو مشینوں میں تبدیل کر دو۔ ایسی مشینیں جو معاشی ترقی میں چابی کا کردار ادا کریں۔”

بیسویں صدی میں شروع ہونے والا آئیڈیا جمہوریت کے ساتھ مل رہا تھا۔ ایڈورڈ بیرنیز اور لیپ مین کی تھیوری نے دنیا میں جمہوریت کو وہ رنگ دیا، جو اس سے پہلے موجود ہی نہیں تھا۔ اس جمہوریت میں کنزیومرازم (صارفیت) کو مرکزی حثیت حاصل تھی۔

اس دوران ایڈروڈ برنیز امریکا کے بااثر ترین اور امیر افراد میں شمار ہونے لگا لیکن جلد ہی اس کی قائم کردہ سلطنت گرنے والی تھی اور اس انسانی عقل کے ذریعے جسے کنٹرول کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔

1929ء کے اختتام پر برنیز نے لائٹ کلب کے پچاسویں سالگرہ منانے کے لیے بہت بڑی تقریب کا اہتمام کیا۔ صدر ہوور سمیت تمام بڑے امریکی بینکر وہاں موجود تھے۔ یہ امریکی بزنس کی طاقت کا جشن تھا لیکن اسی دوران یہ خبریں آنا شروع ہوئیں کہ نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے شیئرز ڈرامائی انداز میں گرنا شروع ہو گئے ہیں۔ بیس کی دہائی میں بینکوں سے اربوں ڈالر ادھار لیے جا چکے تھے۔ بینکرز کے خیال میں یہ ایک نیا دور تھا جسے زوال نہیں آئے گا لیکن ان سب کے اندازے غلط ثابت ہوئے اور اس کے نتیجے میں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا مارکیٹ کریش ہوا۔ سرمایہ کاروں نے خوف سے ہر چیز فروخت کرنا شروع کر دی اور 29 اکتوبر 1929ء کو مارکیٹ مکمل طور پر کریش کر گئی۔

اس مارکیٹ کریش کے اثرات انتہائی تباہ کن تھے۔ بیرنیز کا پیدا کردہ بوم زمین بوس ہو چکا تھا اور پبلک ریلیشنز کا شعبہ بھی اپنی بقا کی جنگ لڑنے گا۔

بے روزگاری اور مشتعل ہجوم کی وجہ سے امریکہ میں پوری کی پوری جمہوریت کو خطرہ لاحق تھا۔ عوام اپنا غصہ ان کارپوریشنز پر اتارنا چاہتے تھے، جن کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments