فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف بری، العزیزیہ میں 7 سال قید کی سزا


اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز میں 7 سال قید کی سزا سنادی گئی جبکہ فلیگ شپ ریفرنسز میں انہیں بری کردیا گیا۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ریفرنسز پر فیصلہ سنایا، سابق وزیراعظم نواز شریف فیصلہ سننے کے لیے خود بھی عدالت میں موجود ہیں۔

عدالت آنے سے قبل نواز شریف نے عباس آفریدی کے فارم ہاؤس پر وکلاء اور سینئر رہنماؤں سے مشاورت بھی کی۔

احتساب عدالت کے باہر لیگی کارکنوں اور سینئر رہنماؤں کی بڑی تعداد بھی موجود ہے، جن میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، مریم اورنگزیب، احسن اقبال، مرتضی جاوید عباسی، رانا تنویر، راجا ظفر الحق، مشاہد اللہ خان اور خرم دستگیر سمیت دیگر شامل ہیں۔

اس موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں، احتساب عدالت کے اطراف پولیس کے ایک ہزار اہلکار تعینات ہیں جبکہ کمرہ عدالت میں نواز شریف کو کلوز پروٹیکشن یونٹ سیکیورٹی فراہم کرے گا۔

ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے رینجرز بھی موجود ہے جبکہ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے اہلکاروں نے عدالت کے اطراف چیکنگ بھی کی۔

نواز شریف کی آمد کے موقع پر لیگی کارکنوں اور پولیس میں دھکم پیل ہوئی، جبکہ پولیس کی جانب سے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل بھی فائر کیے گئے۔

مریم نواز کا ٹوئٹر پیغام

سابق وزیراعظم نواز شریف کی عدالت آمد کے موقع پر ان کی گاڑی کو لیگی کارکنوں نے گھیر لیا، نعرے بازی اور پھول بھی نچھاور کیے۔

اس موقع کی ویڈیو نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ٹوئٹر پر شیئر کی اور ساتھ میں لکھا، ’عوام کی محبت میں گِھرا ہوا نواز شریف‘ ۔

نیب ریفرنسز کا پس منظر اور عدالتی کارروائی

سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017 کو سنائے گئے پاناما کیس کے فیصلے کے نتیجے میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو بطور وزیراعظم نا اہل قرار دے دیا گیا تھا جبکہ عدالت عظمیٰ نے نیب کو شریف خاندان کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا۔

8 ستمبر 2017 کو نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز، فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور ایون فیلڈ ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے۔

احتساب عدالت ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ پہلے ہی سنا چکی ہے جس میں نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی جسے بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دیا تھا۔

دوسری جانب 19 اکتوبر 2017 کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف پر فرد جرم عائد ہوئی جبکہ 20 اکتوبر 2017 احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف پر فرد جرم عائد کی اور حسن نواز اور حسین نواز کو مفرور ملزمان قرار دیا گیا۔

احتساب عدالت نمبر ایک اور دو میں نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی مجموعی طور پر 183 سماعتیں ہوئیں، جن میں سے العزیزیہ ریفرنس میں 22 اور فلیگ شپ ریفرنس میں 16 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے۔

سابق وزیراعظم مجموعی طور پر 130 بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے، وہ 70 بار احتساب عدالت نمبر 1 کے جج محمد بشیر اور 60 بار احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک کے روبرو پیش ہوئے۔

احتساب عدالت نے مختلف اوقات میں نواز شریف کو 49 سماعتوں پر حاضری سے استثنیٰ دیا، جج محمد بشیر نے 29 جبکہ جج ارشد ملک نے نواز شریف کو 20 سماعتوں پر حاضری سے استثنیٰ دیا۔

احتساب عدالت نمبر ایک میں 70 میں سے 65 پیشیوں پر مریم نواز میاں نواز شریف کے ساتھ تھیں۔

ایون فیلڈ میں سزا کے بعد نواز شریف کو 15 بار اڈیالہ جیل سے لا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔

نیب کا الزام

نیب کا الزام ہے کہ نواز شریف نے وزارت اعلیٰ اور وزارت عظمیٰ کے دور میں اپنے بیٹوں حسن اور حسین نواز کے نام پر بے نامی جائیدادیں بنائیں جبکہ اس دوران ان کے بچے زیر کفالت تھے۔

شریف خاندان کا مؤقف

دوسری جانب شریف خاندان نے مؤقف اپنایا ہے کہ العزیزیہ اسٹیل ملز قطری سرمایہ کاری سے خریدی گئی اور حسن نواز کو کاروبار کے لیے سرمایہ بھی قطری نے فراہم کیا، جس کی بنیاد پر فلیگ شپ کمپنی بنائی گئی۔

شریف خاندان کے مطابق تمام جائیدادیں بچوں کے نام ہیں اور نواز شریف کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔

فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ یہ ریفرنس مخالفین اور جے آئی ٹی کی جانبدار رپورٹ پر بنایا گیا اور استغاثہ ان کے خلاف ثبوت لانے میں ناکام ہوگیا۔
بشکریہ جیو نیوز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).