بابو گوپی ناتھ کے پھول، منٹو کی حماقت اور عثمان بزدار کی سمجھ داری


وہ چونک پڑا۔ جی میں۔ میں۔ کچھ نہیں، یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور زینت کی طرف ایک عاشقانہ نگاہ ڈالی، ان حسینوں کے متعلق سوچ رہا تھا۔ اور ہمیں کیا سوچ ہو گی۔

سینڈو نے کہا بڑے خانہ خراب ہیں یہ منٹو صاحب، بڑے خانہ خراب ہیں۔ لاہور کی کوئی طوائف نہیں جس کے ساتھ بابو گوپی ناتھ کی کنٹی نیوٹلی نہ رہ چکی ہو، بابو گوپی ناتھ نے یہ سن کر بڑے بھونڈے انکسار کے ساتھ کہا اب کمر میں وہ دم ہے نہیں منٹو صاحب۔

اس کے بعد واہیات گفتگو شروع ہوئی، لاہور کی طوائفوں کے سب گھرانے گنے گئے، کون ڈیرہ دار تھی؟ کون نئی تھی، کون کس کی نوچی تھی؟ نتھنی اتارنے کا گوپی ناتھ جی نے کیا دیا تھا، وغیرہ وغیرہ، یہ گفتگو سردار، سینڈو، غفار سائیں اور غلام علی کے درمیان ہوتی رہی، ٹھیٹ لاہور کے کوٹھوں کی زبان میں، مطلب تو میں سمجھتا رہا بعض اصطلاحیں سمجھ میں نہ آئے۔

زینت بالکل خاموش بیٹھی رہی، کبھی کبھی کسی بات پر مسکرا دیتی، مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اسے اس گفتگو سے کوئی دلچسپی کے سگریٹ بھی پیتی تھی، تو معلوم ہوتا تھا، اس تمباکو اور اس کے دھوئیں سے کوئی رغبت نہیں لیکن لطف یہ ہے کہ سب سے زیادہ سگریٹ اسی نے پی، بابو گوپی ناتھ سے اسے محبت تھی، اس کا پتہ مجھے کسی بات سے پتہ نہ چلا، اتنا البتہ ظاہر تھا کہ بابو گوپی ناتھ کو اس کا کافی خیال تھا، کیونکہ زینت کی آسائش کے لئے ہر سامان مہیا تھا، لیکن ایک بات مجھے محسوس ہوئی کہ ان دونوں میں کچھ عجیب سا کھنچاؤ تھا، میرا مطلب ہے وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہونے کے بجائے کچھ ہٹے سے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔

آٹھ بجے کے قریب سردار، ڈاکٹر مجید کے ہاں چلی گئی کیونکہ اسے مورفیا کا انجکشن لینا تھا، غفار سائیں تین پیگ پینے کے بعد اپنی تسبیح اٹھا کر قالین پر سوگیا، غلام علی کو ہوٹل سے کھانا لینے کے لئے بھیج دیا گیا تھا، سینڈو نے اپنی دلچسپ بکواس جب کچھ عرصے کے لئے بند کی تو بابو گوپی ناتھ نے جو اب نشے میں تھا، زینت کی طرف وہ ہی عاشقانہ نگاہ ڈالی اور کہا، منٹو صاحب میری زینت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔

میں نے سوچا کیو کہوں، زینت کی طرف دیکھا تو وہ جھینپ گئی، میں نے اسے ہی کہہ دیا، بڑا نیک خیال ہے۔

بابو گوپی ناتھ خوش ہو گیا، منٹو صاحب ہے بھی بڑی نیک لوگ، خدا کی قسم نہ زیور کا شوق ہے نہ کسی چیز کا، میں نے کئی بار کہا، جان من مکان بنوا دوں؟ جواب کیا دیا، معلوم ہے آپ کو۔ ؟ کیا کروں گی مکان لے کر، میرا کون ہے۔ منٹو صاحب موٹر کتنے میں آ جائے گی۔

میں کہا مجھے معلوم نہیں۔

بابو گوپی ناتھ نے تعجب سے کہا کیا بات کرتے ہو منٹو صاحب۔ آپ کو اور کاروں کی قیمت معلوم نہ ہو، کل چلئے گا میرے ساتھ، زینو کے لئے ایک موٹر لیں گے، میں نے اب دیکھا ہے کہ بمبئے میں موٹر ہونی چاہیے۔

زینت کا چہرہ رد عمل سے خالی تھا۔

بابو گوپی ناتھ کا نشہ تھوڑی دیر کے بعد بہت تیز ہو گیا، ہمہ تن جذبات ہو کر اس نے مجھ سے کہا، منٹو صاحب آپ بڑے لائق آدمی ہیں، میں تو بالکل گدھا ہوں، لیکن آپ مجھے بتائیے، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں، کل باتوں باتوں میں سینڈو نے آپ کا ذکر کیا، میں نے اسی وقت ٹیکسی منگوائی اور اس سے کہا مجھے لے چل منٹو صاحب کے پاس، مجھ سے کوئی گستاخی ہو تو معاف کر دیجئے گا۔ بہت گناہ گار آدمی ہوں۔ وسکی منگواؤں کیا آپ کے لئے اور۔

میں نے کہا نہیں نہیں۔ بہت پی چکے ہیں۔

وہ اور زیادہ جذباتی ہو گیا، اور پیجئیے منٹو صاحب یہ کہہ کر جیب سے سوسو کے نوٹوں کا پلندہ نکالا اور ایک نوٹ جدا کرنے لگا لیکن میں نے سب نوٹ اس کے ہاتھ سے لئے اور واپس اس کی جیب میں ٹھونس دیے، سو روپے کا ایک نوٹ آپ نے غلام علی کو دیا اس کا کیا ہوا؟

مجھے دراصل کچھ ہمدردی سی ہو گئی تھی، بابو گوپی ناتھ سے، کتنے آدمی اس غریب کے ساتھ جونک کی طرح چمٹے ہوئے تھے، میرا خیال تھا بابو گوپی ناتھ بالکل گدھا ہے، لیکن وہ میرا اشارہ سمجھ گیا اور مسکرا کر کہنے لگا، منٹو صاحب اس نوٹ میں سے جو کچھ باقی بچا ہے وھ یا تو غلام علی کی جیب سے گر پڑے یا۔

بابو گوپی ناتھ نے پورا جملہ بھی ادا نہیں کیا تھا کہ غلام علی نے کمرے میں داخل ہو کر بڑے دکھ کے ساتھ یہ اطلاع دی کہ کسی حرامزادے نے اس کی جیب میں سے ساری روپے نکال لئے، بابو گوپی ناتھ میری طرف دیکھ کر مسکرایا، پھر سو روپے کا ایک نوٹ جیب سے نکالا اور غلام علی کو دے کر کہا جلدی کھانا۔ لے آؤ۔

انچ چھ ملاقاتوں کے بعد مجھے پتہ چلا کہ پوری طرح خیر انسان کسی کو بھی نہیں جان سکتا، لیکن مجھے اس کے بہت سے حالات معلوم ہوئے جو بے حد دلچسپ تھے۔

پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ خیال کہ وہ پرلے درجے کا چغد ہے غلط ثابت ہوا، اس کو اس کا پوا حساس تھا کہ سینڈو، غلام علی اور سردار وغیرہ جو اس کے مصاحب بنے ہوئے تھے مطلبی انسان ہیں، وہ ان جھڑکیاں گالیاں سب سنتا تھا لیکن غصے کا اظہار نہیں کیا، اس نے مجھ سے کہا، منٹو صاحب میں نے آج تک کسی کا مشورہ رد نہیں کیا، جب بھی مجھے کوئی رائے دیتا ہے، میں کہتا ہوں، سبحان اللہ وہ مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں لیکن میں انہیں عقلمند سمجھتا ہوں، اس لئے کہ ان میں کم از کم اتنی عقل تو تھی کہ جو مجھ سے ایسی بے وقوفی کو شناخت کر لیا، جن سے ان کا الو سیدھا ہو سکتا ہے بات دراصل یہ ہے کہ میں شروع سے فقیروں اور کنجروں کی صحبت میں رہا ہوں، مجھے ان سے کچھ محبت سی ہو گئی ہے، میں ان کے بغیر نہیں رہا سکتا، میں نے سوچ رکھا ہے جب میری دولت بالکل ختم ہو جائے گی، تو کسی تکئیے میں جا بیٹھوں گا، رنڈی کا کوٹھا اور پیر کا مزار، بس یہ دو جگہیں ہیں جہاں میرے دل کوسکون ملتا ہے، رنڈی کا کوٹھا تو چھوٹ جائے گا، اس لئے جیب خالی ہونے والی ہے لیکن ہندوستان میں ہزاروں پیر ہیں، کسی ایک کے مزار پر چلا جاؤں گا۔

میں نے اس سے پوچھا، رنڈی کے کوٹھے اور تکئے آپ کو کیوں پسند ہیں، کچھ دیر بعد سوچ کر اس نے جواب دیا اس لئے کہ ان دونوں جگہوں پر فرش سے لے کر چھت تک دھوکا ہی دھوکا ہوتا ہے جو آدمی خود کو دھوکہ دینے چاہے، اس کے لئے ان سے اچھا مقام اور کیا ہو سکتا ہے۔

میں نے ایک اور سوال کیا آپ کو طوائفوں کا گانا سننے کا شوق ہے کیا آپ موسیقی کی سمجھ رکھتے ہیں۔

اس نے جواب دیا بالکل نہیں اور یہ اچھا ہے کیونکہ میں کن سری سے کن سری طوائف کے ہاں جا کر بھی اپنا سر ہلا سکتا ہوں۔ منٹو صاحب مجھے گانے سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن جیب میں سے دس یا سو کا نوٹ نکال کر گانے والی کو دکھانے میں بہت مزا آتا ہے، نوٹ نکالا اور اس کو دکھایا، وہ اسے لینے کے لئے ایک ادا سے اٹھی، پاس آئی تو نوٹ جراب میں اڑس لیا، اس نے جھک کر اسے باہر نکالا تو ہم خوش ہو گئے، ایسی بہت فضول فضول سی باتیں ہیں جو ہم ایسے تماش بینوں کو پسند ہیں ورنہ کون نہیں جانتا کہ رنڈی کے کوٹھے پر ماں باپ اپنی اولاد سے پیشہ کرواتے ہیں اور مقبروں اور تکیوں میں انسان اپنے خدا سے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5