بابو گوپی ناتھ کے پھول، منٹو کی حماقت اور عثمان بزدار کی سمجھ داری


بابو گوپی ناتھ اب کی دس ہزار اپنے ساتھ لایا تھا، جو اس نے بڑی مشکلوں سے حاصل کیا تھا، غلام علی اور غفار سائیں کو وہ لاہور میں چھوڑ آیا تھا، ٹیکسی نیچے کھڑی ہے بابو گوپی ناتھ نے اصرار کیا کہ میں ابھی اس کے ساتھ چلو۔

قریباً ایک گھنٹے میں ہم باندرہ پہنچ گئے، پالی ہل پر ٹیکسی چڑھ رہی تھی کہ سامنے تنگ سڑک پر سینڈو دکھائی دیا، بابو گوپی ناتھ نے زور سے پکارا سینڈو۔

سینڈو نے جب بابو گوپی ناتھ کو دیکھا تو اس کے منہ سے صرف اس قدر نکلا دھڑن تختہ۔

بابو گوپی ناتھ نے اس سے کہا آؤ ٹیکسی میں بیٹھ جاؤ اور ساتھ چلو لیکن سینڈو نے کہا ٹیکسی ایک طرف کھڑی کیجئیے، مجھے آپ سے کچھ پرائیوٹ باتیں کرنی ہیں۔

ٹیکسی ایک طرف کھڑی کی گئی، بابو گوپی ناتھ باہر نکلا تو سینڈو اسے کچھ دور لے گیا، دیر تک ان میں باتیں ہوتی رہیں، جب ختم ہوئیں تو بابو گوپی ناتھ اکیلا ٹیکسی کی طرف آیا، ڈرائیور سے اس نے کہا واپس چلو، بابو گوپی ناتھ خوش تھا، ہم داور کے پاس پہنچے تو اس نے کہا منٹو صاحب زینو کی شادی ہونے والی ہے، میں نے حیرت سے کہا کس سے؟

بابو گوپی ناتھ نے جواب دیا حیدرآباد سندھ کا ایک دولت مند زمیندار ہے، خدا کرے دونوں خوش رہیں، یہ بھی اچھا ہے جو میں عین وقت پر آ ن پہنچا، جو روپے میرے پاس ہیں ان سے زینو کا جہز بن جائے گا۔ کیوں کیا خیال ہے آپ کا۔

میرے دماغ میں اس وقت کوئی خیال نہیں تھا، میں سوچ رہا تھا، کہ یہ حیدرآباد سندھ کا دولت مند زمیندار کون ہے؟ ہے سینڈو اور سردار کی کوئی جعل سازی تو نہیں لیکن بعد میں اس کی تصدیق ہو گئی کہ وہ حقیقتاً حیدرآباد کا متمول زمیندار تھا، جو حیدر آباد سندھی ہی کے ایک میوزک ٹیچر کی معرفت زینت سے متعارف ہوا، یہ میوزک ٹیچر زینت کا گانا سکھانے کی بے سود کوشش کیا کرتا تھا، ایک روز یہ اپنے مربی غلام حسین یہ حیدر آباد سندھ کے رئیس کا نام تھا، کو ساتھ لے کر آیا، زینت نے خوب خاطرمدارات کی غلام حسین کی پر زور فرمائش پر اس نے غالب کی غزل

نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بننے

گا کر سنائی، غلام حسین سو جان سے اس پر فریفتہ ہو گیا، اس کو ذکر میوزک ٹیچر نے زینت سے کیا، سردار اور سینڈو نے مل کر معاملہ پکا کر دیا اور شادی طے ہو گئی۔

بابو گوپی ناتھ خوش تھا ایک دفعہ سینڈو کے دوست کی حیثیت سے وہ زینت کے ہاں گیا، غلام حسین سے اس کی ملاقات ہوئی اس سے مل کر بابو گوپی ناتھ کی خوشی دوگنی ہو گئی، مجھ اس نے مجھ سے کہا منٹو صاحب خوبصورت جوان اور بڑا لائق آدمی ہے۔ میں نے یہاں آتے ہی۔ داتا گنج بخش کے حضور جا کر دعا مانگی تھی جو قبول ہوئی۔ بھگوان کرے دنوں خوش رہیں۔

بابو گوپی ناتھ نے بڑے خلوص اور بڑی توجہ سے زینت کی شادی کا انتظام کیا، دو ہزار کے زیور اور دو ہزار کے کپڑے دیے اور پانچ ہزار نقد دیے۔

محمد شفیق طوسی، محمد یاسین پروپرائیٹر نگینہ ہوٹل، سینڈو، میوزک ٹیچر اور بابو گوپی ناتھ شادی میں شامل تھے، دولہن کی طرف سے سینڈو وکیل تھا۔

ایجاب و قبول ہوا تو سینڈو نے آہستہ سے کہا دھڑن تختہ۔

غلام حسین سرج کا نیلا سوٹ پہنے تھا، سب نے اس کو مبارک باد دی جو اس نے خندہ پیشانی سے قبول کی، کافی وجیہہ آدمی تھا، بابو گوپی ناتھ اس کے مقابلے میں چھوٹی سی بٹیر معلوم ہوتا تھا۔

شادی کی دعوتوں پر خوردو نوش کا جو سامان بھی تھا، بابو گوپی ناتھ نے مہیا کیا تھا، دعوت سے جب لوگ فارغ ہوئے تو بابو گوپی ناتھ نے سب کے ہاتھ دھلوائے، میں جب ہاتھ دھونے گیا تو اس نے مجھ سے۔ بچوں کے سے انداز میں کہا، منٹو صاحب ذرا اندر جائیے اور دیکھئے زینو دولہن کے لباس میں کیس لگتی ہے۔

میں پردھ ہٹا کر اندر داخل ہوا، زینت سرخ زر بفت کا شلوار کرتہ پہنے تھی۔ دوپٹہ بھی اس رنگ کا تھا، جس پر گوٹ لگی تھی، چہرے پر ہلکا ہلکا میک اپ تھا، حالانکہ مجھے ہونٹوں پر لپ اسٹک کی سرخی بہت بری معلوم ہوتی تھی، مگر زینت کے ہونٹ سجے ہوئے تھے، اس نے شرما کر مجھے آداب کیا تو بہت پیاری لگی، لیکن جب میں نے دوسرے کونے میں ایک مسہری دیکھی جس پر پھول پھول تھے تو مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی، میں زینت سے کہا یہ کیا مسخرہ پن ہے۔

زینت نے میری طرف بالکل کبوتری کی طرح دیکھا، آپ مذاق کرتے ہیں بھائی جان، اس نے یہ کہا اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔

مجھے اس غلطی کا احساس بھی نہ ہوا تھا کہ بابو گوپی ناتھ اندر داخل ہوا، بڑے پیار سے اس نے اپنے رومال کے ساتھ زینت کے آنسو پونچھے اور بڑے دکھ کے ساتھ مجھ سے کہا منٹو صاحب میں سمجھتا تھا آپ بڑے سمجھ دار اور لائق آدمی ہیں۔ زینو کا مذاق اڑانے سے پہلے آپ نے کچھ سوچ لیا ہوتا۔

بابو گوپی ناتھ کے لہجے میں وہ عقیدت جو اسے مجھ سے تھی، زخمی نظر آئی لیکن پیشتر اس کہ کہ میں اس سے معافی مانگوں، اس نے زینت کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے خلوص کے ساتھ کہ، خدا تمہیں خوش رکھے۔

یہ کہہ کر بابو گوپی ناتھ نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھا ان میں ملامت تھی۔ بہت ہی دکھ بھری ملامت۔ اور چلا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5