جہاں خواب ڈھلتے ہیں


میں آج دفتر پہنچی تو ذہن پر دن کے بہت سے اہم کام سوار تھے۔ سب سے ضروری یہ کہ سنیئرز کے ٹرم پیپرز جو اگلے مہینے ہونے ہیں ان کی تیاریوں کے سلسلے میں آج میں نے ٹیچرز کونسل کی ایک میٹنگ بلائی ہوئی تھی۔ اپنا بیگ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر میں نے کرسی سنبھالی تو ایک فربہ ڈاک فولڈر میرا منتظر تھا۔ میٹنگ میں کچھ وقت باقی تھا اس لیے میں نے پہلے آج کی ڈاک دیکھنی شروع کر دی۔ ابھی میں نے چند ہی خط کھولے تھے کہ پیون نیاز آہستگی سے اندر داخل ہوا اور حسب عادت دروازے کے قریب خاموش کھڑا ہو گیا۔

’ کیا بات ہے نیاز؟ ‘ میں نے عینک کے شیشوں کے اوپر سے اسے گھورا۔

’ میڈم جی کوئی پٹھان آپ سے ملنے آیا ہے۔ ‘

’ پٹھان۔ مجھ سے ملنے۔ نام پوچھا؟ ‘

’ جی گل نصیب نام بتایا ہے۔ ‘

’گل نصیب؟ ‘ مجھے اس نام کو ذہن میں تازہ کرنے کے لئے کچھ وقت لگا۔ ’اؤ ہو۔ یہ کہاں سے آ گیا اچانک دوبارہ؟ مجھے صبح صبح یہ غیر متوقع مداخلت اچھی تو نہ لگی تھی لیکن منع کرنے کو بھی دل نہیں مانا سو میں نے نیاز کو اشارہ کر دیا کہ اسے بلا لائے۔

کچھ لمحات کے بعد گل نصیب میرے کمرے میں داخل ہوا۔ لمبا تڑنگا لحیم شحیم۔ وہی بے ہنگم لمبی داڑھی اور باہر نکلے ہوئے پیلے دانت۔ وہ گہرے بھورے رنگ کا شلوار قمیص اور اسی کلر کی واسکٹ پہنے تھا۔ سر پر گرے رنگ کی ڈبی دار پگڑی اور پاوں میں کوہاٹی چپل تھی۔ اتنے سالوں میں اس کے صرف چند بال سفید ہوئے تھے۔ باقی وہ ویسے کا ویسا ہی تھا۔

’ ہاں بھئی گل نصیب کیسے ہو؟ سب ٹھیک ٹھاک؟ ‘ میں نے اپنی آواز میں خوشی کا تاثر پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’آج کدھر رستہ بھول پڑے اتنے عرصے بعد؟ ‘

’ سلام میڈم صیب۔ ‘ اس نے ماتھے پر ہاتھ لے جا کر مجھے اپنی نیک جذبات پیش کیے اور ساتھ ہی اپنے پیلے دانتوں کی بھر پور نمائش کی۔ میں نے اسے ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ سائیڈ میں پڑے صوفے کے کنارے پر ٹک گیا۔

’ام بالکل ٹیک اے۔ اللہ کا شکر۔ آپ کیسا ہے میڈم صیب؟ سب ٹیک ٹاک جوڑ تکڑا؟ ‘

’بالکل سب اچھا ہے۔ تم اپنی سناؤ کیسے ہو؟ ‘

’ مالک کا بوت شکر اے۔ ‘ وہ بولا۔ ’آج ام ادر چلے پر آیا تا تبلیغی جماعت کا ساتھ اس شہر میں۔ کئی سال او گیا۔ تو سوچا اپنا پرانا سکول دیکے۔ آپ کو سلام کرے۔ ‘

’ نہیں نہیں۔ بہت اچھا کیا جو آ گئے۔ آج بھی یہ تمہارا اپنا سکول ہے۔ ‘ میں نے بھرپور اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔

’ اور میڈم جی بڑا صیب کیسا اے اور فراز بابو کیسا ہے؟ ایمان کا بات اے ام فراز بابو کو بوت یاد کرتا اے اور امارا زیارت گل بی۔ ‘

گل نصیب نے زیارت گل کا نام لیا تو مجھے احساس ہوا کہ اس سے وابستہ وہ کیا چیز تھی جسے میں یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن مجھے یاد نہیں آ رہی تھی۔ اس ذکر کے ساتھ ہی ایک دم زیارت گل کا حسین اور معصوم سراپا میری نظروں میں گھوم گیا جیسا کہ برسوں پہلے میں نے اسے دیکھا تھا۔

’ صاحب اور فراز دونوں اچھے ہیں۔ فراز تو اب سینئر کیمبرج مطلب بڑی جماعت میں پہنچ گیا ہے۔ تم سناؤ ہمارا زیارت گل کیسا ہے؟ اب تو وہ بھی بڑا سارا بچہ ہو گیا ہو گا نا؟ ‘

گل نصیب متفخر انداز سے مسکرایا۔ ’وہ اب بچہ کیدر اے میڈم صیب۔ وہ تو اب تو فسٹ کیلاس جوان بن گیا اے۔ امارے برابر اس نے قد نکالا اے۔ ‘

’ ارے واہ۔ میرا کتنا دل کر رہا ہے نا زیارت گل کو دوبارہ دیکھنے کو۔ ‘ میں نے لمبے تڑنگے زیارت گل کو تصور میں لانے کی کوشش کی۔ ’ویسے کرتا کیا ہے زیارت؟ پڑھ رہا ہو گا نا وہ بھی سکول میں؟ ُ‘

گل نصیب ہنس دیا۔ ’ہم غریب آدمی اے میڈم صیب۔ اوس کو سکول میں کیدر پڑھائے گا۔ ہم نے اس کو مدرسہ دینیہ میں ڈالا اے اودر پشاور میں۔ وہ وہاں شریعت کا تالیم لیتا اے۔ ‘

مدرسے کا نام سن کر میرے کان کھڑے ہوئے۔ میں نے محتاط انداز میں کہا۔

’ شریعت کی تعلیم تو اچھی بات ہے گل نصیب لیکن کچھ دنیا داری کا بھی تو سوچنا چاہیے نا ساتھ۔ میرا مطلب ہے کل کو زیارت کو کمانا ہو گا۔ کوئی نوکری یا کاروبار کرنا ہو گا تو پھر۔ ‘

گل نصیب نے میری بات اچک لی ’اوس کا ام کو کوئی فیکر نئیں اے میڈم صیب جی۔ وہ مدرسے والا امارا زیارت کا بوت اچا خیال کرتا اے۔ وہ اسے کھانا کپڑا بھی دیتا اے دین کا تعلیم بی دیتا اے اور ساتھ جہاد کا ٹریننگ بھی دیتا اے۔ ‘

’جہاد کی ٹریننگ‘ میں ہکا بکا رہ گئی۔ میرے تصور میں خود کش جیکٹیں لہرانے لگیں اور وہ دھماکے گونجنے لگ گئے جنہیں ابھی تک میرے کانوں نے سنا نہیں تھا۔

’ زیارت گل جہاد کی ٹریننگ لے رہا ہے۔ ؟ ‘ میں نے بے یقینی سے گل نصیب سے پوچھا۔

’ ہاں نا‘ وہ بڑے رسان سے بولا۔ ’امارا بیٹا مجاہد بنے گا۔ آمریکا سے لڑے گا۔ آمریکا نے امارا بوت لوگ مارا دیا اودر باجوڑ میں اور میران شاہ میں بھی اور جگہ بی۔ امارا زیارت جہاد کرے گا کافروں سے لڑے گا اور آمریکا کو نکالے گا جیسے روس کو نکالا تا۔ انشاللہ۔ ‘

میں ششدر ہو کر گل نصیب کی گفتگو سن رہی تھی اور تصور کی آنکھ سے ننھے منے زیارت گل کو مورچے میں بندوق تھامے امریکی فوجیوں پر گولیاں برساتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ ایک بار جی میں آیا کہ اس کم عقل انسان کو تھوڑی سی عقل سکھا دوں۔ پھر یہ ارادہ ترک کر دیا۔ اس طرح کے آدمی کو سمجھانے کے لئے میرے پاس نہ تو فالتو وقت تھا اور نہ دماغ۔ میں نے ایک نظر اپنی ٹیبل پر پڑی ہوئی گھڑی پر دوڑائی۔ دن کے ساڑھے دس بجنے والے تھے۔ میرے اعصاب تن رہے تھے۔

’ اور سناؤ گل نصیب کوئی کام کاج کوئی ضرورت وغیرہ ہو تو۔ ‘ میں نے آدھی آنکھ سے اپنے بیگ کو دیکھتے ہوئے، کہ جس میں وہ رقم پڑی تھی جو آج مجھے فراز کے اکاونٹ میں جمع کرانی تھی، ممکنہ حد تک محتاط الفاظ میں گل نصیب سے کہا۔

’ نئیں نئیں میڈم صیب‘ گل نصیب ایک دم کہہ اٹھا۔ ’ام کو کوئی حاجت نئیں اے۔ ام تو بس سلام کا واسطہ آیا تا۔ ایمان کا بات اے۔ تم بوت اچا لوگ اے۔ بڑا صیب آپ اور فراز بابو سب۔ ام پر بوت مہربانی کیا۔ ام کو نوکری بی دیا اور گھر بھی دیا۔ اللہ تم کو بوت بوت اجر دے۔ ‘ وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ ’ابی ام کو اجازت دیو ام چلتا اے۔ بڑے صیب کو سلام دینا اور فراز بابو کو بوت پیار کرنا‘ وہ سیلوٹ کر کے کمرے سے نکلنے لگا۔

’گل نصیب کبھی زیارت کو لے کر آنا ہمارے گھر میں‘ ۔ میں نے جاتے جاتے اسے آواز لگائی۔ ’فراز بہت خوش ہو گا اسے مل کر‘

’ جی میڈم صیب‘ اس نے پلٹ کر کہا۔ ’ام ضرور لائے گا زیارت کو آپ کے پاس انشا اللہ۔ سلام۔ خدائی پہ امان‘

گل نصیب آ کر جا چکا ہے اور مجھے اسی پرانے خلجان میں ڈال گیا ہے جس سے میں نے بمشکل جان چھڑائی تھی۔ وہی پاگل سوچیں پھر سے مجھے گھیرے ہیں کہ جن کا کوئی انت نہیں ہے۔ گل نصیب اور غلام سرور شاہ۔ زیارت گل اور فراز۔ نیو یارک اور نوا کلی۔ باجوڑ اور بروکلین۔ میران شاہ اور مین ہیٹن۔ مدرسہ دینیہ اور وہارٹن بزنس سکول۔ شریعت اور جمہوریت۔ دہشت گرد اور مجاہد، کافر اور مومن، ٹریننگ اور جہاد۔ یہ کیا ہو گیا ہے مجھے۔ میرا ایک شاندار اور پرسکون گھر ہے شوہر ہے ایک خوبصورت بچہ ہے۔ ایک چلتا ہوا مشہور سکول ہے۔ پھر یہ پھانس سی کیا یے جو گلے میں اٹک گئی ہے اور یہ کیسا احساس ہے جو مجھے پیچھے کی طرف کھینچتا ہے۔

وہ دن مجھے کبھی نہیں بھول سکتا جب میں نے زیارت گل کو پہلی بار دیکھا تھا۔

میرے سکول کا افتتاح ہوئے ابھی چند ہی روز ہوئے تھے۔ سکول میں داخل ہونے والے بچوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ میرا معمول تھا کہ میں بہت سویرے پہنچ جاتی اور بچوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہونے سے پہلے ٹیچرز کے ساتھ سکول کے اندر مین گیٹ کے قریب موجود رہتی۔ اس روز بھی میں مین گیٹ کے قریب کھڑی تھی۔ چوکیدار گل نصیب بچوں کو والدین سے وصول کر کے سکول کے اندر چھوڑتا جاتا تھا جہاں سے متعلقہ ٹیچر انہیں ان کے کلاس روم کا راستہ دکھاتی جاتی تھی۔ روشن روشن چہروں والے معصوم اور پیارے بچوں اور بچیوں کو اجلے سفید اور سبز یونیفارم پہنے رنگ برنگے بستے اٹھائے اور پانی کی بوتلیں سنبھالتے ہوئے سکول میں آتے دیکھنا ایک روح پرور نظارہ تھا اور اس نظارے پر تو میری زندگی کا کل سرمایہ لگا ہوا تھا۔ میں اندر سے جتنی خوش تھی اسے بیان کرنے کے لئے الفاظ بہت چھوٹے معلوم ہوتے تھے۔ اتنے میں جو میں نے غور سے دیکھا تو مجھے گل نصیب کی ران سے لپٹے ہوئے ایک زندہ وجود کا احساس ہوا۔ وہ ایک ننھا منا سا بچہ تھا جو گل نصیب ہی کی طرح سیاہ ملیشیا کا شلوار قمیض پہنے ہوئے تھا۔ اس کے سفید براق پیروں میں جو جوتے تھے وہ بہت پرانے تھے اور واضح طور پر اس کے نہیں تھے۔ اس کی عمر تقریبا اتنی ہی رہی ہو گی کہ جس عمر کے بچے اس وقت جوق در جوق سکول کے میدان اور برآمدوں کو بھرتے جا رہے تھے اور جن کو وہ اپنے باپ کی ٹانگ سے لپٹا ہوا بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3