آتش۔ جوانی اور اللہ کی کہانی


میرے یار وہ ایک بہت بڑی طوائف ہے۔ تیرا دماغ تو نہیں چل گیا۔ بلال کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ’وہ کہہ رہا تھا کہ وہ جس گھر میں رہ رہی ہے۔ وہ ایک بہت پوش علاقہ میں ہے۔ جس کا رینٹ تمام گھر کے اخراجات اور پوری فیملی جس میں صدف، اس کی بھابھی اور بھائی شامل ہیں کل دو لاکھ ماہانہ اس کا آج کل کا مالک اس کو بطور خرچ دے رہا ہے۔ تو بھائی جو بی بی دس لاکھ ماہانہ لے رہی ہواور جو صاحب بلاتکلف اور توقف اتنی رقم اس پر خرچ کررہے ہیں۔

ہفتہ کے صرف دو یا ایک دن اور اس کے بھی چند گھنٹے اس کے ساتھ گزارنے کے تو وہ تیرے جیسے خالی جیب اور دو وقت کی روٹی سے تنگ بے روز گار کے ساتھ تو نہیں جائے گی ناں۔ اپنے دماغ میں پانی ڈال یا گھر جا کر اباجی سے کہہ کہ پرانے حقے کا پانی اور چم کے جوتے کے ساتھ تمہارے دماغ کی ٹکورکریں۔ تاکہ تیرے ہوش ٹھکانے آئیں۔

بلال کی ساری بکواس سن کر میں نے پوری ہٹ دھرمی سے کہا۔ ٹھیک ہے ہوگی وہ طوائف یا طوائف زادی میں نے کون سا اس سے نکاح کرناہے۔ بس ملنا چاہتاہوں ایک دفعہ اور بس، ضروری تو نہیں وہ میرے ساتھ سوئے بھی۔

پھر تم اس سے کیوں ملنا چاہتے ہو۔ اورکیا تم نے اسے تبلیغ کرنی ہے۔ بلال طنزیہ لہجے میں بولا۔

میں نے چوری پکڑے جانے کے خوف سے، خشک ہوتے ہوئے گلے کو ترکرنے کے لئے ایک گھونٹ بھرا اور بڑی ملتجی آنکھوں سے درخواست کی، کہ یار ایک دفعہ ملادو۔ تم بھی ملتے رہے ہو اس سے، راتیں رہتے رہے ہو اس کے پاس۔ کریلے گوشت اور پتانہیں کیا کچھ کھاتے رہے ہو۔ تم کون سا دس لاکھ دے کر رہتے رہے ہو اور اس سے اُس کے Sponser کو بھلاکیا پتہ چلے گا۔ وہ تو صرف جمعہ اور ہفتہ کو آتاہے۔ !

میری مسلسل بحث، درخواست یا حالت سے تنگ آکر بلال نے ملاقات کی حامی بھر لی۔ میرا لمحہ لمحہ اس سوچ اور انتظار میں کٹتا تھا کہ کب ملاقات ہوگئی۔ کیسے ہوگی، میں کیا کہوں گا، وہ جواب میں کیا کہے گی۔ کب اور کس طرح، کے انتظار میں وقت گزرتا رہا۔ اور پھر ایک دن اس کی کال آئی۔ خیر وخیریت پوچھنے کے بعد وہ گویا ہوئی۔

کب آرہے ہیں آپ ملنے۔ میرے وہم وگماں سے باہر تھا کہ وہ براہ راست مجھے ملنے آنے کا کہے گی۔ اور میں اس کو یہ بھی نہیں باورکروانا چاہتاتھاکہ میں اس کے بارے میں سب کچھ جان چکاہوں۔ میں تو بس اپنی پیاس بجھانے کا متمنی تھا۔ اس کے لئے اتاولاہوا جارہاتھا۔ اس کی آواز سے ہی میرے جسم میں کانوں کے راستے ایک سرورسا گھل جاتا تھا۔ جو خون میں مل کر رگ رگ اور روں روں تک پہنچ جاتاتھا۔ جس سے ایک انجانی تسکین ملتی تھی۔ اور تڑپ اور بڑھ جاتی تھی۔

میں اس سلسلہ تکلم کو طوالت دینا چاہتا تھامگر شاید وہ مصروف تھی یا۔ کوئی اور وجہ۔ پھر اگلے دن شام چھ بجے ملنے کا پروگرام بن گیا۔ اور اس نے انتہائی تفصیل سے گھر کا پتا سمجھایا۔ اور ساتھ اس بات کی اجازت بھی دے دی کہ میں مزید معلومات کے لئے کل آتے ہوئے کال بھی کرسکتا ہوں۔

انسان بہت خود غرض ہے اپنی تسکین کے لئے کبھی بھی کچھ بھی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے یہ تسکین زیادہ ترجسمانی ہوتی ہے۔ کیونکہ جس دن ہم روحانی تسکین کے لئے خود غرضی کا مظاہرہ کرنے لگیں گے اس دن ہم جسمانی ضرورتوں سے پاک ہو جائیں گے۔ روحانی تسکین روح کے خالق سے اور جسمانی تسکین جسم کے مالک سے حاصل ہوتی ہے۔ روح کا سکون روح والے کے پاس ہے۔ جب کہ جسم کا سکون جسم در جسم سفر کرنے کے باوجود حاصل نہیں ہوتا۔ جب تک کہ انسان روح اور جسم دونوں کو روح اور جسم کے اصل مالک کے حوالے نہ کردے۔

صرف تب ہی روح، جسم اور جسم کے تمام اعضا کو ہمیشگی کا سکون نصیب ہوتا ہے۔ مگر یہ منزل بہت ”اوکھی“ ہے۔ اور ماسوائے چند کے، باقی کثیر تعداد اجسام کے اس کھیل کا حصہ رہنے کے بعد مختلف وقفوں سے خدا آشناہوتے ہیں۔ اور حقیقت سے ملاقات کرتے ہیں۔ ہاں اس ملاقات کا عرصہ ہدایت من اللہ کے ساتھ براہ راست منسلک ہے۔

میں ”صدف“ کو ملنے نہ کسی محبت کے لئے جارہاتھا اور نہ کسی جذبہ صادق کی تسکین کے لئے۔ میں تو صرف اُس Impulsive Needاور Urgeکی تسکین کے لئے جارہا تھا۔ جو اس کی آواز اور تصویر نے میرے اندر بھردی تھی۔ اس عمر کے خواب بھی اس عمر کی مانند عجیب سے گرم اور گیلے ہوتے ہیں۔ اور انسان حقیقت میں کچھ حاصل کرے نہ کرے ان خوابوں میں رہ کر بہت کچھ حاصل کرلیتاہے۔ اور پھراس حصول اور نہ صرف خواب میں انجوائے (Enjoy) کرتاہے بلکہ خواب کے بعد والی کیفیت بھی بہت خوبصورت ہوتی ہے۔

بس میرے خواب بھی اس کی بابت ایسے ہی تھے۔ گرم۔ خوشگوار۔ متحرک۔ پرلمس اور بھرپور، جس سے باہر نکلنے کو دل ماننے کے لیے تیارنہیں تھا۔ بس بندہ اس کے اندررہنا چاہتاہے مکمل، ہمیشہ، ہمیشہ کے لئے۔ مگر خواب تو خواب ہوتے ہیں۔ جو حقیقت سے بہت دور ہوتے ہیں۔ جو کام ہم حقیقت میں نہیں کرپاتے وہ ہم خوابوں کی دنیا میں سرانجام دیتے ہیں۔ کچھ لوگ دنیا کے خوابوں میں رہتے ہیں۔ اور کچھ خوابوں کی دنیا میں۔ انجام دونوں کا ایک ہی ہے۔ لاحاصل۔ نہ دنیا کبھی کسی کو مکمل حاصل ہوئی ہے اور نہ خواب کی کبھی حقیقت میں مکمل تعبیر ہوئی ہے۔ میں بھی اس دن دنیا کے خواب اور خوابوں کی دنیا میں بنائے ہوئے محل کی تعبیر لینے کے لئے نکل پڑا۔

پینوراما سے خریدی ہوئی نیلی جینز کی پینٹ اور آدھے بازوکی سفیدشرٹ کو بہت احتیاط سے استری کرکے پہنا۔ مانگے ہوئے پرفیوم سے بغلوں، گلے اور بازوؤں پر پھس پھس کیا اور بلال کی 98 ماڈل کی سیاہ کرولا اور کچھ رقم ادھار مانگ کر میں روانہ ہوا۔ غربت آڑے آگئی۔ Fuelکی سوئی حد آخرکو کراس کرکے میرا منہ چڑا رہی تھی۔ میں نے چند گالیاں بلال کو یہ سوچتے ہوئے عنائت کیں ”اتنا پیسہ ہے اس کے پاس اور 500 کا تیل ڈلواتے ہوئے مرگیا ہے۔ “

ملاقات کا شوق، بے شمارسوالات، کچھ خوشگوارخیالات، خوبصورت احساسات اور توقعات کا انبار لے کر، مال روڈ پر گاڑی ڈال دی۔

مال روڈ لاہور جو برٹش افسر ز کی فیملیز اور مشرقی افواج کے ملازمین کے درمیان حدفاصل، ریڈلائن، مالک اور نوکر کے درمیان تفریق نہیں بلکہ سرکار اور غلام کے درمیان ایک واضح لائن کے طورپر بنائی گئی تھی۔ تاکہ لاہور اور گردونواح کے سپاہی کسی طور پر بھی یہ سٹرک عبورکرکے برٹش افسران کے علاقے میں جانے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ مگر جس طرح کولڈوار (سردجنگ) کے دور میں EastاورWest Blocکے بجائے 1961 ء میں دنیا North اور Southمیں تقسیم ہوگئی تھی۔ اسی طرح اس دور میں مال روڈ بھی لاہور کے باسیوں کو North اور Southجب کہ آج کل Eastاور Westکے درمیان تقسیم کرتی ہے۔ ہاں تب یہ فرق گوروں اور کالوں میں تھا اور وہ کہتے تھے Southکی طرف Dogs & Indians are not allowedاور آج بھی میاں میرپل کے پرے Dogs & Poors are not allowed کا اصول کارفرما ہے۔

تقریباً نصف صدی بیت گئی۔ مگردنیا نہ بدلی اور نہ اطوار اور رواج۔ تب گورے اور کالے کا فرق تھا اور آج امیر اورغریب کا۔ تب شمال سے جنوب کی طرف جانا جرم تھا اور آج مغرب سے مشرق کی طرف جانا منع ہے۔ میاں میر کا پل اترنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک بڑی سی گاڑی کے اندریا کوئی چم چم کرتی میم نما خاتون ہو یا کپڑوں کی بناوٹ اور اندرکی سجاوٹ سے مرغوب کن ہو۔ ہاں تب یہ سلوک غیرکرتے تھے اور دکھ نہ ہوتاتھا۔ آج اپنے غیر ہوگئے ہیں۔

مگر دکھ اب بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایک دکھ ہی تو رہ گیا ہے اور وہ کتنا اور کب تک کریں گے۔ دکھ اور سوچ۔ شاید سوچ، فکر اور دکھ کا غربت کے ساتھ رشتہ چولی دامن سے بھی قریب کاہے۔ ! سو میں کالج کے ہاسٹل سے، مانگی ہوئی گاڑی میں بیٹھ کر میاں میر پل عبورکرکے ایک ایسی لڑکی یا خاتون کو ملنے کے لئے جارہاتھا، جو پہلے ہی کسی سے دو لاکھ ماہانہ لے کر اپنی زندگی گروی رکھ چکی تھی۔ میرے پلے تو چندسکّوں کے پھول لے جانے کے پیسے بھی نہ تھے۔

چھ ٹریفک سگنلز اور درختوں کی جھکی ہوئی سرسبز شاخوں کے درمیان سے پہلی ملاقات اور مانگی گاڑی چلانے کی احتیاطیں، چالان کاخوف، لائن کی Voilationکا ڈراور ملاقات سے وابستہ توقعات اور خواب سے حقیقت کے سفر کی انجانی سی خوفزدہ سوچ کے ساتھ ساتھ میں سفر کرتا ہوا منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ مختلف اشارے، چوک، دائیں بائیں کے بورڈاور ٹرن (Turn) اور جتنے بھی راستے کے Mile Stonesاور Land Marksاس نے یاد کروائے تھے سب عبورکرکے میں Generallyاس ایریا میں پہنچ گیا۔ پھر ڈرتے ڈرتے اس کا نمبر ڈائل کیا۔

نمبرڈائل کرنے اور ملنے کے درمیان کے وقفے میں ایک بار پھر تمام وہم، ہونی انہونی کے تمام ممکنات اور وسواس ذہن پر حملہ آور ہوگئے۔ اتنی دورسے، اتنی کوشش، خواری، مانگے کی گاڑی، پرفیوم اور وقت کے ساتھ تیل خرچ کرکے میں پہنچا تھا۔ ہوسکتا ہے وہ نمبرہی Attendنہ کرے۔ تو۔ ! شاید اس نے مذاق کیا ہو۔ ! اور بلال کے بقول طوائف زادی ہونے کے ناطے میری چاہ، طلب اور اشتیاق اور اشتہا بڑھانے کے لئے شاید میرے ساتھ کھیل رہی ہو۔ تاکہ جتنا میرے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی اتنا ہی میں زیادہ بناڈور اس کی طرف کھنچا چلا جاؤں گا۔ اتنا ہی جسم اور نفس کی ضرورت زیادہ بڑھے گی۔ اور اسی تناسب سے قیمت میں اضافہ ہوگا۔

انسان بے بس ہوجاتاہے۔ اپنی ضرورتوں کے ہاتھوں مجبور ہوجاتاہے۔ ضرورت روح، جسم، جذبات، احساسات، خیالات یا معاشیات کسی کی بھی ہو۔ وہ انسان کو بے بس کردیتی ہے۔ اگر انسان کو کسی دوسرے کی ضرورت نہ ہو تو زندگی کا مزا اورچسکا ختم ہوجائے۔ یہ سارا تماشا اور ڈراما (Drama) دراصل ان ضرورتوں کے حصول کے لئے ہے۔ یہ ضرورتیں ہمارے اندر کیوں اور کیسے آئیں یہ فطر ت کومعلوم ہیں۔ شاید ان کا تعلق میری تخلیق کے ادوارسے ہے۔

یا خالق کے Divine Design سے ہے۔ ضرورت تو ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں اچھی بری، ضروری غیرضروری، شرعی غیر شرعی، اسلامی غیراسلامی کچھ نہیں ہوتا۔ اس کا تعلق ان سب سے بالاتر ہے۔ او ریہ ہر انسان کی اپنی اپنی ہوتی ہے۔ یہ وقت کے ساتھ ساتھ اور حالات کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ ان کے حصول کی شدت میں کمی اور اضافہ ہوتارہتاہے۔ اور یہ Man to man varyکرتی ہیں۔ ایک فرد کی ضرورت دوسرے کے لئے شایداصراف میں آتی ہو۔ کسی کی ضرورت دوسرے کے لئے شایدگناہ کا درجہ رکھتی ہو۔ یہ کلچر، فرد، سوسائٹی، مذہب اور معاشرے کے مطابق ہوتی ہیں۔ مگراپنی ضرورتوں کے حصول کے لئے انسان کچھ بھی کرگزرتاہے۔ خودکشی، قتل، زنا، جرائم، فراڈ، منافقت سب کچھ ”All is fair for the fulfullment of Need“

”صدف“ میری خواہش اور ضرورت تھی۔ میں اُس کے حصول کے لئے بڑی شدت سے اس کی جانب بڑھ رہاتھا۔ تمام وسواس اور اپنے اور باہر کے ڈر اور خوف اس کے ماضی اور مستقبل کو جانتے ہوئے بھی میں اس کی طرف بڑھ رہاتھا۔ جوں جوں میں اس کے قریب ہورہاتھا میرے اندر عجیب سی تبدیلیاں آرہی تھیں۔ ملنے کی خوشی Rejectionکا ڈر۔

اس چند لمحوں کے وقفے میں ہیلو کی آواز کے ساتھ ہی میرے خیالات کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ میں نے بہت احتیاط سے ایڈریس سمجھا اور چند لمحوں کے بعد ہی میں دو گلیاں پہلا دائیں اور اگلے دو بائیں Turnلینے کے بعد ایک بہت بڑے گھر کے کارپورچ کے سامنے کھڑا تھا۔ !

بہت خوبصورت علاقہ، جہاں جا بجا خوبصورت پھول اور درخت ایک دوسرے کو جپھے مارکرلپٹے ہوئے، ایک دوسر ے سے طاقت اور قوت (Strength Drive) کررہے تھے۔ یاتنہائی کو دور کررہے تھے۔ چھوٹی چھوٹی دیواروں اور دروازوں کے باوجود ایک سناٹا ایک تنہائی اور ان دیواروں کے پیچھے ایک جدائی اور بے بسی سی بستی ہو۔ ایسے لگتا تھا جیسے یہاں اللہ نے جنت بنا کر رکھ چھوڑی ہو۔ مگر اس کو بسانا ابھی باقی ہو۔ سب کچھ موجود تھا مگر زندگی نہیں تھی۔

محسوس ہوتاتھاجیسے انسان کو کہیں دور قیدکردیاگیا ہو۔ ہوکا عالم، اکادُکا کوئی گاڑی، کوئی اجنبی چہرہ، پاس سے گزر جاتا۔ بے زارچہرہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کیوں، کس کو ملنا ہے، کہاں سے آئے ہو۔ شایدکسی کوضرورت محسوس نہیں ہوتی یا کوئی ضرورت محسوس کرنا نہیں چاہتا۔ سالوں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے باوجود اجنبی، نامانوس، غیر اور ناشناسا چہرے ایک گھر میں میت اور دوسرے میں شہنائی۔ جذبات دونوں طرف مفقود! تمام نعمتیں اور رعنائیاں مگر زندگی ندارد!

نہ کسی کو شادی کی خوشی نہ موت کا غم۔ سب اپنی اپنی ذات میں مگن۔ سرِ شام تنہائی مٹانے کے لئے کوئی کتے کے ساتھ واک کررہاہے کوئی رنگ برنگی بوتل کھول کر اسے سامنے رکھ کر خود کلامی کررہاہے۔ کوئی بلندآواز میں میوزک لگا کر، کسی ڈرگ کا لمبا کش لگاکر تھرک رہاہے اور اندرکی بے چینی اور خوف کو بھگانے کی کوشش کررہاہے۔ پوری پوری عمر اکٹھے گزارنے کے باوجود سب اکیلے تنہا، جداجدا ہیں۔ ایک دوسرے سے دورمیلوں اور صدیوں دوررہ رہے ہیں۔ رشتوں اور جذبات کی دنیا سے بہت دور ایک ہی چھت تلے ایک کمرے میں برس ہا برس اکٹھے رہ کر بھی اکیلے اور اجنبی۔ !

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

لیاقت علی ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

لیاقت علی ملک

لیاقت علی ملک ۔۔۔ داروغہ ہے۔ خود ہی عدالت لگاتا ہے، خود ہی فیصلہ سناتا ہے اور معاف نہیں کرتا۔۔۔ بس ایک دبدھا ہے۔۔۔وہ سزا بھی خود ہی کاٹتا ہے ۔۔ ۔۔کیونکہ یہ عدالت۔۔۔ اس کے اپنے اندر ہر وقت لگی رہتی ہے۔۔۔۔

liaqat-ali-malik has 12 posts and counting.See all posts by liaqat-ali-malik