آتش۔ جوانی اور اللہ کی کہانی


جب مجھے ہوش آیا تو وہ ایک بہت خوبصورت اور جہازی سائز کے بیڈ پر موجود تھی۔ جس کے سرہانے دو تکئے، Neck Roleاور ایک بہت بڑا مخملیں اور اس کے جسم کی طرح نرم گدازکشن (Cusion) موجود تھا، جس پر سرخ رنگ سے دل کا نشان بنا ہوا تھا۔ جو شاید سب آنے والوں کو اسی طرح دعوت دیتا تھا اور خوش آمدیدکہتا تھا جس طرح اس نے آج مجھے کہاتھا۔

جوں جوں میرے حواس درست ہورہے تھے اور میں عالمِ خواب سے عالم حقیقت میں واپس آرہاتھا، توں توں مجھے شرم آرہی تھی اور مجھے اپنے آپ سے گھن آرہی تھی۔ برا محسوس ہورہاتھا۔ مجھے اپنا جسم اور اس سے وابستہ تمام جذبات اور احساسات۔ غلیظ لگ رہے تھے۔ میں نے ساتھ پڑی ہوئی ”صدف“ کواس کے ”سیپ“ سے باہر دیکھا تو مجھے اس میں کوئی کشش نظر نہ آئی۔ مجھے ایسے لگاکہ عورت جتنی زیادہ حجابات اور پردوں میں ہو اتنی ہی اس کی خوبصورتی اور کشش میں اضافہ ہوتا اور جوں جوں وہ کپڑے مختصرکرتی جائے اسی تناسب سے اس کا حسن، Attractionاور کشش کم ہوتی جاتی ہے۔

اور اگر کبھی بغیر لباس کسی عورت کو غور سے سر تاپا دیکھ لیں، تو وہ عورت کم اور چڑیل، EvilاورWitchلگنا شروع ہو جاتی ہے۔ نہ جانے کیوں ایسے محسوس ہوتاہے کہ جیسے اس کے دانت ابھی لمبے لمبے اور بھیڑئیے جیسے ہونا شروع جائیں گے۔ سانپ کی طرح بہت لمبی زبان۔ سینہ پھٹے گا تو اس میں سے دو بہت بڑے بڑے اژدھے حملہ آور ہوں گے اور پاؤں اور ہاتھ کسی کوڑھی کی مانند اور اُلٹے ہو جائیں گے۔ عورت حجاب ہے اور حجاب عورت ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیرنامکمل ہیں۔

میں نے اس کو دیکھا، اس کے بے ربط بال، نشان زدہ گال اور گردن اور دوسرے حصے، وہ بالکل سب سے بے پروا پڑی ہوئی تھی۔ میں نے اس کے اوپر چادرپھینکی اور خود جلدی سے اپنی شرٹ اور بال درست کرنا شروع کردیے۔

فطرت نے انسان کو ننگا پیدا کیا پھر ہر دور اور مذہب کی ضرورت کے مطابق اس کو شعوری طور پر خود کوپردوں میں رکھنے کا فہم اور حکم بھی دیا۔ اور انسان ہر دور کی ضرورتوں کے مطابق خود کو اس پردے میں رکھتا رہا۔ مگر فطری ننگا پیدا ہونے والے انسان کے جسم کے کپڑوں میں عمرکے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جاتاہے اور وہ زیادہ سے زیادہ حصوں کو ڈھانپتا جاتاہے اور پھر ایک وقت آتاہے جب قدرت اس کی آنکھیں اور جسم سارے کو ڈھانپ دیتی ہے اور پھر اس کو مکمل طورپر دو کپڑوں میں لپیٹ کر قدرت کے پاس بھیج دیا جاتاہے۔ اور انسان پوری زندگی اس ایک حکم عدولی کے صلے میں سزا کے طور پر ملنے والے ننگے پن کے ہاتھوں اپنے آپ کو بچاتے ہوئے گزارتاہے۔

شیطان کے بہکاوے میں آنے کے بعد جب انسان پر اُس کی شرمگاہیں ظاہر ہوگئیں تو اس نے شرمگاہ کو چھپانے کے لئے جنت کے پتوں کا سہارا لیا۔ شاید اوّلین جوڑے یا انسانِ اوّل کے نزدیک، جسم کو ڈھانپنے سے مراد صرف رانوں کے بیچ کے حصے کو ہردوطرف سے ڈھک لیناہی کافی ہوگا۔ اور انسان کے ارتقا کے ساتھ ساتھ اور مذاہب کے مختلف ادوار کے ساتھ جسم کی تعریف اس مخصوص حصے سے نکل کر اوپر اور نیچے کی جانب بڑھنے لگی اور ہردور، مذہب اور معاشرت میں ستر یا جسم کے پردے کے مقام کے پیمانے اور حدود بھی اس دور، مذہب اور معاشرت کے مطابق ہوگئے۔

ننگا پن، جسم کا ہویا سوچ کا، مگر یہ صرف ایک احساس کا نام ہے۔ صرف احساس کا۔ اولین جوڑے پر جب ان کی شرمگاہیں واضح ہوئیں تو ایک شرمندگی کا احساس لئے، انہوں نے فی الفور ہاتھوں سے اپنے آپ کو ڈھانپا ہوگا اور ایک دوسرے کی اوٹ یا درختوں کے تنوں کے پیچھے جا چھپے ہوں گے۔ شاید شرمگاہوں کے اظہارکے بعد، پہلی دفعہ جسم کے جسم کو مس کرنے سے کوئی خاص احساس بھی پیدا ہوا ہوگا۔ کوئی نیا جذبہ، کوئی نئی تحریک، کوئی نئی امنگ پیدا ہوئی ہوگی۔

اور شاید اجسام کا انہدام اوریک قالب میں انتقال کا ارمان دل میں پیدا ہوا ہوگا۔ پہلی دفعہ صنفِ مخالف کا احساس اور حصول اور دخول سے قبل کا تلاطم اور بعد کا سکون۔ میسرآیا ہوگا۔ اور اس Feelingکے بعد ہر دو انسانوں نے اپنے آپ کو ایک دوسرے سے چھپا لیا ہوگا۔ اور اکٹھے رہنے اور زندگی گزارنے والے بھی آپس میں نظریں ملانے سے قاصر اور چرانے پر مجبور ہوگئے ہوں گے۔ اس طرح وقت کے گزرنے کے ساتھ اور معاشرتی روایات اور مذہبی احکامات کے ساتھ ساتھ، جتنا ان جذبات کو دبایا جاتا ہوگا اتنا ہی یہ ”پارہ اور متحرک جذبہ“ سرکو چڑھتا ہوگا۔ جب تک انسان ایک جسم سے ضرورت پوری کرتا رہے تب تک اس کی آنکھ اور جسم کا تعلق اور شرم اور حیا کا رشتہ قائم رہتاہے۔ اور جب یہ آنکھ دوسری آنکھ اور جسم دوسرے جسم سے ملتاہے تو پھر ایک دوسرے کے ساتھ شرم و حیا کا رشتہ یکسر بدل جاتاہے۔

انسان جب تک ایک کا ہوکر رہتاہے۔ سکون میں رہتاہے۔ چین میں رہتاہے۔ ایک کمرے میں۔ اپنے ساتھی کے ساتھ، عمربھر کے رفیق کے ساتھ، بھی آپ جب ایک ہوں تو ایک دوسرے کو دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ایک قدرتی شرم اور حیا اور احساس سے چہرہ سرخ ہوجاتاہے اور آنکھیں جھک جاتی ہیں اور بند ہوجاتی ہیں۔ مگرجب آنکھوں اور جسم اور روح کا باہم ربط ختم ہوجائے، تو پھر جسم بالکل اس طرح رہ جاتاہے، جس طرح پانی کا کنواں۔ چند بالٹیاں پانی نکال لیں۔ چندڈال دیں۔ گند ڈال دیں۔ وہ بے سدھ۔ بے زبان۔ اس کو کچھ فرق نہیں پڑھتا۔

جب جسم اور روح کا تعلق ختم ہوجائے، تو پھر کوئی جسم کو چاہے کاٹے، کھائے، نوچے یا پانی بہائے، کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ آنکھیں خالی ہوتی ہیں اور جسم اور روح سوالی ہوتی ہیں۔ اس لئے طوائف یا شریف، جب اجسام کے کھیل میں الجھ جائے تو پھر جسم کنوئیں کی مانند ہی ہو جاتا ہے۔ جس کا روح اور آنکھوں سے دورکا بھی تعلق نہیں رہتا۔ پھر جو مرضی آئے، کھائے، پانی بہائے اور چند پل بتائے اور جب مرضی چلاجائے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کچھ بھی فرق نہیں پڑتا۔ سب بکتا ہے۔ سب بکتاہے۔ !

انسان ننگے جسم کو تو چند لمحوں کے بعد کپڑوں سے ڈھانپ لیتا ہے۔ مگرننگی سوچ کو نہیں ڈھانپ سکتا۔

قدرت انسان کو ننگا پیدا کرکے ہر وقت کپڑوں میں دیکھنا چاہتی ہے۔ جب کہ انسان فطرت کے مطابق ہمیشہ سے ہمیشہ تک ننگا رہنا چاہتاہے۔ رحمن اور انسان کی خواہش میں یہ تضاداور تکرار انسان کو پریشان رکھتا ہے۔ اور وہ ہمیشہ ننگاہونے کو ترجیح دیتا ہے۔ اور جسم کے حصوں کو وقتاً فوقتاًExposeکرتارہتاہے۔ یہ Expouserکہیں کم اورکہیں زیادہ ہوتاہے۔ انسان بعض اوقات مکمل فطرت کے مطابق اور بعض اوقات معاشرتی اور اخلاقی قدغن کی بدولت اس پر قابو پاتا رہتا ہے۔

اس اندرکی جنگ اور رحمن کی خواہش کے مطابق رہنے کی کوشش میں ناکام ہوتاہے۔ توپھر وہ پریشان ہوتا ہے اس پریشانی، الجھن اور بے قراری میں وہ کبھی مسجد کی طرف دوڑتاہے تو کبھی مندر اور گورودوراے کی طرف۔ اپنے اپنے طریقے سے اپنے اپنے خدا کو راضی کرنے اور اس کی خواہش پر عمل کرنے کی خواہش اور اس میں ناکام رہنے کی بے بسی کا اعتراف کرتاہوا روتا اور پیٹتا رہتاہے۔ اور یوں انسان کا ننگاپن، خدا اور فطرت کا اصول اور خواہش کے اصول پر کاربند رہنے کی کوشش میں زندگی ختم اور انسان بے بس ہوجاتاہے۔ اور اللہ میاں صفا اور مروا کے درمیان بے چینی اور پریشانی کے ساتھ ننگے پاؤں، پتھریلی پہاڑی زمین پر نوکدارپتھروں کے درمیان اوپرنیچے بھاگتی ہوئی ”ہاجرہ“ کی مانند پریشان، بے چین اور مضطرب اپنی تخلیق کی بے قراری پر مسکراتاہے۔

انسان تب بھی ننگا تھا۔ انسان آج بھی ننگا ہے۔ تب آدم حوّا کے سامنے اور آج آدم آدم کے سامنے ننگا ہے۔ الف ننگا۔ تب جلد بازی میں پتوں سے سترکو ڈھانپ لیا تھا۔ مگرآج سترکو ڈھانپنے کی ضرورت نہیں رہی۔ کیونکہ یہ Backward لوگوں کے چونچلے ہیں۔ خاندانی لوگ تو اس کو فطری آزادی کا نام دیتے ہیں۔ جب کہ فطرت نے انسان کو ننگا پیدا کرکے کپڑوں اور حجابات میں قیدکر دیاہے۔ ننگا پیدا ضرورکیا ہے مگر ننگا رہنے کا حکم نہیں دیا۔

دورکونے میں، میں اور میری سوچ ننگے کھڑے مجھے دیکھ رہے تھے۔ نادم اور شرمندہ میں خود پر اوراپنی بے بسی پر۔ اور اللہ میاں خوش تھے کہ دیکھا میرا بندہ میری طرف لوٹ آیاناں، میرا تھا، اس لئے میرے پاس لوٹ آیا۔ بہت مختصر سے وقت اور گمراہی کے بعد واپس اپنی اصل کی طرف لوٹ آیا۔ ”دیکھا یہ میرا ہے اور میرا ہی رہے گا۔ عارضی طورپر دائیں بائیں بھٹکے گا، بھاگے گا، مگر لوٹ کر صرف میری طرف آئے گا۔ میں عجیب گومگوں کی کیفیت میں سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ بولی بس۔ ! آج کے لئے اتناہی کافی ہے تم تو اتنے میں ہی الٹ گئے ہو باقی تم برداشت نہیں کرسکو گے۔

باقی اگلی میٹنگ میں۔ !

میں نے کہا ایک بات پوچھوں۔ بولی ہاں ضرور۔ ؟

میں نے کہا کہ ”تم ایسا کیوں کرتی ہو۔ کیسے بندہ روز نئے بندے کے ساتھ سوسکتا ہے۔ تمہیں کبھی محبت نہیں ہوئی کسی سے؟ “

زندگی بہت مصروف ہے۔ یہ محبت و حبت کے بکھیڑے کون پالے۔ ہم سب مصروف ہیں زندگی سے لے کر زندگی تک۔ کوئی ویلیو Velueنہیں کرتا محبت اوراخلاص کو۔ محبت ایک احساس ہے۔ ایک خیال ہے ایک روح کا جذبہ ہے۔ جس کاجسم سے کوئی تعلق نہیں جو صرف روح سے روح تک ہے۔ اس لیے انسان مختلف جسموں میں کھیلنے کے باوجودبھی کسی کے ساتھ بھی Seriousنہیں ہوتا۔

کوئی رشتہ بھی مستقل نہیں ہوتا۔ اس کی ضرورت وقت کے ساتھ ساتھ کم یازیادہ ہوتی رہتی ہے۔ اس کی معیاد ہمارے رویے، برداشت، سمجھوتے اورباہم تعاون پرمبنی ہوتی ہے جو Relationsجذبات، احساسات اورمحسوسات پرمشتمل ہوں وہ ابدی ہوتے ہیں اورزندگی کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔ جبکہ جن کاتعلق اور بنیاد جسم ”Body“ سے ہو۔ وہ باڈی کے ساتھ انحطاط کاشکارہوجاتے ہیں۔ اور اسی اعتبارسے کمزورہوتے ہیں۔ ڈھلتے جاتے ہیں جس اعتبارسے جسم عمر کے ساتھ ساتھ ٹوٹ پھوٹ کا شکارہوکر کمزورہوجاتاہے۔

روح سے روح تک کاتعلق ابدی، جب کہ جسم کا جسم سے وقتی ہوتاہے۔ اور جسم کبھی پائیدار نہیں ہوتا سوائے روح کے۔

صاحب، یہاں تو سب جسم کے لئے آتے ہیں، محبت کے لئے نہیں۔ اور ویسے بھی آج کل محبت مفت میں Sexکرنے کا نام ہے۔ اور ہمارے ہاں تو پل پل کی قیمت لگتی ہے۔ سو مفت میں ہر دوسرے محبت کرنے والے کے ساتھ کون سوئے۔ ساری طوائفیں بھوکی مرجائیں گی اس محبت کے نام پر۔

”زندگی دوسروں کو خوش رکھنے اور خوشیاں بانٹنے کا نام ہے۔ اور اگر میرا جسم، سوچ، احساس، خیال، ملاقات اور جان سے کوئی خوش ہوتاہے۔ کسی چہرے کو رونق ملتی ہے تو میں اورمیرا سب کچھ بیچ چوراہے پڑا ہے۔ جو مرضی لے جائے۔ جب مرضی لے جائے۔ جیسے مرضی لے جائے۔ کیونکہ میں شاید کسی ایک کے کام آجاؤں ورنہ میں جس کی منتظر ہوں وہ اپنی تسکین کے لئے شاید کسی اورکی طرف دیکھ رہا ہو۔ اس لئے

”Let me make someone happy at the cost of my lilfe and happiness“

وہ بولی کیا کروں ”میں زنا بھی کرتی ہوں، شراب بھی پیتی ہوں، کوک، آئس اور ہیروئین سب کرچکی ہوں۔ پارٹیوں میں جاتی ہوں مگر ایک احساس ضرورہوتاہے کہ میں غلط کرتی ہوں یہ سب گناہ ہے۔ براہے۔ سب گندگی ہے۔ کبھی کبھی مجھے خود سے بھی نفرت ہوجاتی ہے۔ مجھے گھن آنا شروع ہو جاتی ہے اور جب میں اس عادت سے چھٹکارا پانے کے لئے کوئی راستہ اور وسیلہ نہیں ڈھونڈ پاتی تو پھر Frustrationاور Depressionسے بچنے کے لئے میں شراب، آئس یا کسی جسم کا سہارا لیتی ہوں۔

میں سکون چاہتی ہوں، تسکین اپنے احساسات، جذبات، خیالات جسم اور ذہن کی تسکین چاہتی ہوں مگر کوئی راستہ کوئی راہ کوئی منزل کوئی دامن کوئی آغوش نظر نہیں آتی۔ سب نوچتے ہیں۔ کھاتے ہیں۔ چاٹتے ہیں۔ پانی بہاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ کسی کی میں ضرورت پوری کرتی ہوں اور کوئی میری۔ ساراچکر ضرورت کا ہے۔ جسم اور بدن کی ضرورت۔ ذہن اورفکرکی ضرورت۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

لیاقت علی ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

لیاقت علی ملک

لیاقت علی ملک ۔۔۔ داروغہ ہے۔ خود ہی عدالت لگاتا ہے، خود ہی فیصلہ سناتا ہے اور معاف نہیں کرتا۔۔۔ بس ایک دبدھا ہے۔۔۔وہ سزا بھی خود ہی کاٹتا ہے ۔۔ ۔۔کیونکہ یہ عدالت۔۔۔ اس کے اپنے اندر ہر وقت لگی رہتی ہے۔۔۔۔

liaqat-ali-malik has 12 posts and counting.See all posts by liaqat-ali-malik