آتش۔ جوانی اور اللہ کی کہانی


میں نے پوچھا ”کیوں یہ سب کیوں۔ ؟ کیا ضرورت ہے اس سب کی۔ تمہارے اتنے سارے دوست ہیں امیر اور ہرطرح کے۔ کھلاپیسہ ہے پھر بھی تمہیں اس سب کے باوجود Drugsکی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔ کس لئے کیا کمی ہے یا کیا ضرورت ہے جس کو پوراکرنے کے لئے تم یہ سب کرتی ہو؟ “

وہ بڑے اضطراب سے بولی ”غلط کام تو غلط ہی ہوتاہے نا۔ جب روز نئے بند ے کے ساتھ سونا پڑے۔ اُس کی فرمائشیں اور چند منٹوں میں اس کے مزاج کے مطابق ڈھلنا پڑے۔ ! یہ کوئی کمپیوٹرپروگرام تو ہے نہیں کہ ایک Clickکریں اورسارے فنگشن آپ کی مرضی کے مطابق Costumiseہوجائیں گے۔ جیتا جاگتا انسان ہوں میں۔ میری سوچ ہے۔ جذبات ہیں۔ احساسات۔ میرے ٹھنڈے جسم کے ساتھ یہ لڑتے رہتے ہیں۔ کاٹتے رہتے ہیں اور پھر ان کے جانے کے بعد یہ جسم مجھے کاٹتا ہے۔ میری روح کو کاٹتاہے۔ بہت دیرتک، دورتک اور اندرتک کاٹتا ہے۔ اس کاٹ اور ماتم سے بچنے کے لئے پھر میں ڈرگز (Drugs) لیتی ہوں۔ “

اس نے تکیہ اپنے سر کے نیچے سیدھا کرتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی دائیں ہاتھ سے جسم پر پڑی ہوئی بے ترتیب سفیدچادرکو تھوڑا سا اوپر کی طرف کھینچ کرسیدھا کیا اورچمکتے ہوئے جسم کے لوتھڑوں کو ڈھانپنے کی کوشش کی۔ بالوں کو اپنی کمرکے نیچے سے نکال کر بائیں طرف تکئے اور بسترپر اچھال دیا اور تھوڑا ساسیدھا ہوکر لیٹ گئی۔

میری ساری آگ بجھ جانے کے باوجود میری آنکھوں کی ہوس باقی تھی اور میں چادرکی مختلف سلوٹوں اور ان سلوٹوں کی کروٹوں کو مسلسل دیکھ رہاتھا اوران کے اندرتک اُن کو سوچ رہاتھا۔ پاؤں کی طرف سے لے کر گردن سے تھوڑا نیچے تک، جہاں اس کا جسم ایک تنگ پہاڑی ندی کی صورت اختیار کرلیتا تھامیں چادر کے اتارچڑھاؤ اور اُبھاراورسینے کی دھڑکن اور سانس کی حرکت کے ساتھ مزید واضح ہوتی چادرکے خدوخال کاجائزہ لیتاہوا اور سرکی جانب نظرسرکارہاتھا۔

کہ دیکھا وہ چھت کی طرف ایسے دیکھ رہی تھی کہ جیسے وہ کسی نامعلوم مقام پر موجود ہو۔ خلا سے پرے کسی نئے سیارے پر۔ کہاں تھی؟ یہ تومعلوم نہ تھا مگر کم از کم اس کمرے میں اس بسترکا حصہ جسمانی طورپرضرورتھی روحانی طورپر نہیں۔ اور اس کی آنکھوں سے جاری ہونے والی پانی کی دوندیاں دائیں بائیں، کانوں کے اندرسے نکلتی ہوئی نیچے تکئے میں جذب ہورہی تھی۔ اور وہ مسلسل بول رہی تھی۔

”بہت تکلیف ہوتی ہے۔ جسم میں جب تک روح موجود ہوفطرت کے خلاف کوئی بھی کام کریں تو تکلیف ہوتی ہے۔ پھر ڈرگز (Drugs) کا سہارا۔ رنگ برنگے لوگوں سے میں نے رنگ برنگے نشے مستعار لئے ہیں۔ جس طرح ان کو ایک جسم سے چین نہیں ملتا، اسی طرح ہر نشہ بھی پرانا ہوجاتاہے۔ بے اثر ہوجاتاہے۔ سو کوئی نیا نشہ، نیا اثراور زہر تلاش کیا جاتا ہے۔ یہ سب Sexکے لئے کرتے ہیں۔ تاکہ جسم سُن ہوجائے، زیادہ سے زیادہ وقت تک Pleasureڈرائیوکرسکیں، Enjoy کر سکیں۔

دماغ سُن ہوجاتاہے اور جسم بھی۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے۔ یہ زیادہ وقت گزارنے اور اپنے پیسے پورے کرنے کے لئے کرتے ہیں اور میں ان کی مزدوری کرنے کے بعد جسم اور دماغ کے سکون کے لئے۔ تاکہ مجھے احساسِ گناہ، برائی کا احساس نہ ہو۔ تکلیف نہ ہو۔ رونا سب کا سکون کا ہے اور سکون کی تلاش میں مزید بے سکونیاں تلاش کرتے ہیں۔ زیادہ بے قرار رہتے ہیں۔ زیادہ اضطرار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ فطرت سے دوررہتے ہیں۔ اور جو فطرت سے دورہوگا یا اس کے مخالف چلے گا، وہ بے چین رہے گا، دکھ اٹھائے گا۔ تکلیف میں رہے گا۔ جیسے میں اور تو۔ !

ا س کی بات سن کر جیسے ایک بجلی سی میرے ذہن میں چمکی اور ایک لمحے سے کم وقت میں میرے ذہن میں خیال آیاکہ یہ بری عورت ہرگز نہیں ہے۔ تو میں اس کی نظروں میں گندہ کیوں بنوں۔ دراصل ہر انسان جتنا بھی برا ہو وہ اپنے آپ کو اچھا ہی کہلوانا چاہتا ہے۔ ہم سارے اپنے اپنے طور پر کسی نہ کسی حساب سے ”داغی پھل“ کی طرح ”کانے“ ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنا سب پتا ہوتا ہے اور سٹرے ہوئے گارے سے اتنا خوبصورت انسان بنانے والے کو بھی اپنی مخلوق کی ایک ایک حرکت کی خبر ہوتی ہے۔

مگر ہم سب جانتے ہوئے بھی پارسا اور نیک نام کہلوانے اور بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس جذبے کے تحت میرے دماغ نے بھی اپنا ”منجن بیچنے“ کا پروگرام بنایا اورخود کو بڑا مومن اور نیک نام ظاہر کرنے کے لئے لمحوں میں ایک منصوبہ بنایا۔ بلکہ اسی طرح جس طرح ہم سارے کرتے ہیں جہاں کچھ سمجھ نہ آئے یا حاصل نہ ہوفوراًمذہب اور اسلام کو بیچ دو، اللہ میاں کو بیچ کرنوکری، کاروباریا چھوکری پکی کرلو اسی طرح میں نے بھی فی الفور اپنے پلان پر عمل درآمد کے لئے کہا ”صدف ایک بات مانوگی“ بولی ”ہاں کہو“۔ ! میں نے بلاسوچے سمجھے کہا شراب پیو، نشہ کرو، دوستوں سے ملو، پارٹی کرو، سب اجازت ہے بس ایک کام کرو۔ !

وہ جھٹ سے بولی کیا۔ کیا کرنا ہوگامجھے۔ !

میں نے کہا دن میں تین باربا وضو بے وضو جب وقت ملے صرف یہ پڑھ لیا کرو

استغفراللہ الذی لا الہ الاھوالحی القیوم و اتوب الیہ

اللہ سب معاف کردے گا۔ اور تم دل سے پڑھنا وہ خود ہی سکون بھی دے دے گا۔ اور تمھیں سب کچھ سے آہستہ آہستہ دور بھی کردے گا۔

یہ کہہ کر میں نے اس کے ماتھے پر ایک بوسہ ثبت کیا اور کل ملنے کا وعدہ لے کر روانہ ہوگیا۔

واپسی کے سارے راستے ہی میں کچھ پشیمان اورکچھ خوش ہاسٹل کی طرف روانہ ہوا۔ رات بھر میں پھر اس کی خوشبو، لمس اور آدھا بچاہوا خواب اپنے خواب میں مکمل کرنے میں لگا رہا۔ خدا خدا کرکے دن ہوا۔ میرے ذہن میں صرف صدف اور اس کا چمکتا ہوا بدن تھا۔ میں نے بڑی مشکل سے کالج کا وقت گزارا اور اس سے رابطہ کرنا شروع کردیا۔ پہلی دوسری اور تیسری دفعہ میں نے سمجھا نمبرBusyہے یقینی طور پر کہیں بات کر رہی ہوگی۔ کسی یار کے ساتھ وقت بنا رہی ہوگی۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ اس نے میرا نمبرRejectپر لگایا ہے۔ میں نے اپنے دوست کے نمبرسے اس کو کال کیا۔ اس کے ہیلو کے ساتھ ہی میں نے اس سے ملاقات کی بھیک مانگنا شروع کردی۔ کل کا وعدہ یاد دلایا ساری اس کی محبت اور فلاسفی یادکرائی مگر میری حیرانی کے لئے وہ بولی۔

”سب چھوڑ دیا۔ سب چھوڑ دیا۔ جب حی القیوم استغفار سن لے تو پھر اس سے بہترDrug، شراب اور Companyبھلاکون سی ہوسکتی ہے۔ پلیز مجھے معاف کردیں کل کے لئے۔ آپ ایک اچھے انسان ہیں میں نے آپ کو برابنانے کی کوشش کی مگر آپ کے چند الفاظ کے ورد نے مجھے ہمیشہ کے لئے گند سے نکال کر پاک کردیا۔ میں یہ گھر چھوڑ کر اپنے آبائی پانچ مرلے کے گھر میں آج ہی جارہی ہوں۔ پلیز میری بخشش کے لئے دعاکیجئے گا۔ میرے لئے اب دنیاوی سہاروں کے بجائے“ حی القیوم ”کا سہارا کافی ہے باقی زندگی گزارنے کے لئے۔

اس کے بعد فون کٹ گیا آج تک اس کی کوئی خبر نہیں کہ وہ کہاں گئی۔ صدف دوبارہ اصل صدف بن کر سیپ کے اندر بند ہوکر پاک اور صاف ہوگئی یا کیچڑ میں گم ہوگئی۔ مگر میرا کبھی اس سے رابطہ نہ ہوسکا اور نہ بلال کا۔

مگر میں آج تک شرمندہ ہوں کہ۔ ”جسم کے بچاری کو جسم بیچنے والی سے جسم نہ ملا مگر جسم بیچنے والی کو جسم کے پجاری سے خدا مل گیا۔ جو جسم لینے آیا تھا اس کو نہ جسم ملا اورنہ اللہ، جبکہ جو جسم کو شب وروز بیچتی تھی اس کو خدا مل گیا۔ یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے کہ مندر سے خدا اور کعبہ میں بھگوان ملتاہے۔ ظرف والوں کو ظرف کے مطابق ملتا ہے۔ خداوالوں کو خدا اور جسم والوں کو جسم! ہاں البتہ وقت اور عرصہ رحمت پر منحصرہے۔

تسکین جسم کی ہو یا روح کی ملتی اللہ ہی سے ہے وگرنہ عمر بھر کی اچھل کود اور جسم در جسم کے سفر سے غلاظت تو مل سکتی ہے راحت نہیں۔

سنگ میل کی شائع کردہ کتاب “حاصل لاحاصل” سے اقتباس

لیاقت علی ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

لیاقت علی ملک

لیاقت علی ملک ۔۔۔ داروغہ ہے۔ خود ہی عدالت لگاتا ہے، خود ہی فیصلہ سناتا ہے اور معاف نہیں کرتا۔۔۔ بس ایک دبدھا ہے۔۔۔وہ سزا بھی خود ہی کاٹتا ہے ۔۔ ۔۔کیونکہ یہ عدالت۔۔۔ اس کے اپنے اندر ہر وقت لگی رہتی ہے۔۔۔۔

liaqat-ali-malik has 12 posts and counting.See all posts by liaqat-ali-malik