آزار بند بنانے والا لوتھڑا


دائی بہت افسوس سے اس نامکمل لوتھڑے کو دیکھ رہی تھی۔ پانچ بیٹیوں کے بعد پیدا ہوا وہ بھی ایسا۔ نہ ہاتھ نہ پاؤں کسی کیچوے کی طرح حقیر، پتھر کی طرح جامد۔ جہاں ڈال دو پڑا رہے۔ دھرتی اور ماں باپ کے سینوں پہ بوجھ۔ دائی کو اس کی قسمت سے زیادہ اپنی قسمت پہ افسوس تھا۔ شاید آج کا معاوضہ بھی پورا نہ ملتا۔ تحفے تحائف تو سوچو بھی مت۔ پہلے پانچ بار کی ادھ موئی ماں ویسے ہی چھٹی زچگی سے بے حال تھی۔ کبھی دورانِ خون حد سے بڑھ جاتا کبھی بہت کم ہوجاتا۔

شہر والی ڈاکٹرنی کے منع کرنے کے باوجود دورانِ خون درست رکھنے کی دوا کھاتی اور ہر بار اس کی سخت سست سنتی تنگ آکر جاناہی چھوڑ دیا۔ ویسے بھی کوئی کم خرچہ تھا؟ چھ سو آنے جانے کے، پانچ سو ڈاکٹرنی کے اپنے اور ہزاروں کی وہ دوا لکھ دیتی تھی۔ تیسری سے چوتھی بار جانے کا نہ دل مانا نا شوہر کی جیب نے اجازت دی۔ ساس نے تو پہلے ہی پیسے جوڑنے شروع کردیے تھے کہ اب کی بار لڑکی ہوئی یا کچھ نا ہوا تو اب اگلی بہو سے اولاد ہوگی۔

بھلا ہو رسول بخش کی غربت کا کہ اس کے جیب میں پیسا ہوتا تو کب کا اس کی ماں اس کے لیے دوسری بیوی خرید لاتی۔ کہ جب جب پیسا جمع ہوتا تو یہ فیصلہ مشکل ہوجاتا کہ صحن میں بندھنے کے لیے بھینس خریدی جائے یا رسول بخش کے کمرے میں بندھنے کے لیے ”گائے“۔ اور پھر موجودہ گائے کے لیے گھر کے احاطے میں شاید بھینس جتنی جگہ بھی نہ رہے۔

ناچار رسول بخش کی بیوی نے اپنی زندگی داؤ پہ لگانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ دائی افسوس کر ہی رہی تھی جب اس نے دھندلی آنکھوں سے اس کو دیکھنے کی کوشش کی۔ بنا ہاتھ پاؤں کا یہ جسم دیکھ کر پہلا خیال اس کے دل میں آیا کہ کاش یہ بھی لڑکی ہو تاکہ کہیں بھی کونے میں پھنکوا دی جائے کیا فرق پڑے گا۔ مگر جسے وہ تازہ کٹی آنول نال سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی وہی اس کے لڑکے ہونے کا ثبوت بھی تھا اور اس کی زندگی کی ضمانت بھی۔ کندھے سے جڑی ننھی ننھی انگلیاں مختصر سی ہتھیلی اور بازو ندارد۔ ادھوری سی ٹانگیں جیسے بنانے والا اسے بناتے بناتے کسی زیادہ اہم تخلیق کی طرف متوجہ ہو کر اسے مکمل کرنا بھول گیا ہو۔

وہ جب رسول بخش کی گود میں آیا تو سب سے پہلے اس کے دل میں یہی خواہش آئی کہ کاش اسے دائی نے نہ دیکھا ہوتا تو وہ اسے خاموشی سے کہیں رکھ آتا اور کہہ دیتا کہ پیدا ہی مردہ ہوا تھا۔ شاید پہلی بار میاں بیوی نے ایک جیسا سوچا تھا۔ رسول بخش اسے گود میں لیے سوچے جارہا تھا۔ اردگرد ماں باپ کھڑے تھے۔ بچیاں بھائی کو دیکھنے کے لیے اچک اچک کر باپ کی گود میں جھانکنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ وہ بچہ کسی مرتی ہوئی گنڈار کی طرح جسم سمیٹ سمیٹ کے گھٹی ہوئی آواز میں رو رہا تھا۔

رسول بخش نے سر اٹھا کے ماں کی طرف دیکھا۔ ماں کی نظروں میں انکار تھا۔

اس سال بھی فصل کم ہوئی تھی۔ ایک اور خرچے کی گنجائش نہیں تھی۔

نظر گھما کے باپ کی طرف دیکھا وہاں سوال نظر آیا۔ الٰہی بخش کا نام زندہ رکھنے کو تو وہ تھا اس کا نام کون زندہ رکھتا۔

نظروں نظروں میں فیصلہ ہوگیا۔ اس کو پالنا تھا۔ تب تک جب تک اس بے کار جسم سے کام نہ لیا جاسکتا۔ زیادہ نہیں بس ایک اور نام زندہ رکھنے والا۔ کہ الٰہی بخش کی نسل چل سکے۔ اور فیصلہ ہوتے ہی سب کے چہروں پہ ایک ساتھ مصنوعی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ دائی کو تحفے تحائف دیے گئے مٹھائیاں بٹوائی گئیں، شادیانے بھی بجے، خسرے بھی ناچے، جو تھوڑی بہت جمع پونجی تھی سب اس مصنوعی خوشی کی نظر ہوگیا۔ صحن کی بھینسیں بک گئیں، رہ گئی تو بس رسول بخش کے کمرے کی بندھی گائے۔ جس نے اب اس لوتھڑے کا بوجھ ڈھونا تھا۔ جب تک اس کے کمرے میں بندھنے کے لیے گائے نہ آجائے۔

بہنیں بچاری ننھے سے اس وجود کو پاکر بہت خوش تھیں۔ بڑی دونوں کہے بغیر ہی اس کی ہر ذمہ داری پوری کرنے کو تیار تھیں۔ بھائی جو تھا، ان کی عزت کا محافظ، ان کو زمانے کی سرد و گرم سے بچانے والا۔ وہ بچاریاں کیا جانیں کہ یہ اپنی حفاظت نہیں کرسکتا تھا ان کی کیا کرتا۔ اور تب بالکل ان کہے اس کی ذمہ داری ادھ موئی ماں کے کندھوں سے ان چھ سات سال کی ننھی ماؤں پہ آگئی۔ بس سارا دن اس ننھے وجود کو گھر کے کسی چیتھڑے میں لپیٹے سارے گاؤں میں گھومتی رہتیں۔

کبھی خود گرتیں کبھی اُسے گراتیں کبھی سنبھل سنبھل کے چلتیں۔ جو کھاتیں اُسے بھی کھلاتیں کہ ماں کی نُچڑی چھاتیوں میں اب اُس کے لیے کچھ نہیں تھا۔ کچھ بڑا ہوا اور کھسکنا شروع کیا تو گاؤں بھر کے بچے جمع ہوکر اس کے گھسٹنے کا تماشا دیکھ دیکھ کر تالیاں بجاتے اور وہ بچارا اسی کو کھیل سمجھ کر خود بھی قلقاریاں مارتا۔ کچھ بڑا ہوا تو بہنوں کو نیا کھیل سوجھا اس کی آدھی بالشت سے بھی کچھ چھوٹی ٹانگوں میں ٹین کے ڈبے پھنسا کر چلانے کی کوشش کرتیں۔

ماں کو پتا ہی نہیں چلا کب ایک ایک کرکے سب بہنیں بیاہ کے چلی گئیں اور اُس کا بوجھ اِس کے سینے پہ آگیا۔ اِسے تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ وہ لوتھڑا جس کا نام انہوں نے مراد بخش رکھا تھا وہ کس وقت سوتا تھا کس وقت جاگتا تھا۔ کیا کھاتا تھا ضروری حوائج کیسے پورے کرتا تھا۔ کہنے کو سب اس کے سامنے تھا اور معلوم بھی تھا مگر ذمہ داری سر پہ پڑی تو وہ یوں بوکھلائی جیسے کچھ نا جانتی ہو۔ ساس سسر تو کب کے مر کھپ گئے تھے۔

اس کی اپنی حالت بھی چل چلاؤ والی تھی۔ گھر کا ایک مرد سارا دن مزدوری کرتا اور دوسرا مرد تو تھا مگر آدھا۔ صرف نسل چلانے کا آلہ۔ سوچا بس اب وقت آگیا کہ اس کی ذمہ داری اس کی بیوی پہ ڈال دی جائے۔ پورا جوان نہیں ہوا تھا تو کیا ہوا جب تک پیسے جڑتے کوئی لڑکی ملتی تب تک ہو ہی جاتا جوان۔ کہنے کو پیٹ لکھی میں ہی لڑکی مل گئی تھی مگر جو لڑکی اس کے نام سے منسوب تھی اسے تو دو سال پہلے ہی کہیں اور بیاہ دیا گیا تھا۔

رسول بخش اور اس کی بیوی نے بہت شور کیا جرگے تک معاملہ گیا مگر لڑکی کا باپ جرمانہ دینے پہ تیار تھا لڑکی نہیں۔ رسول بخش نے سوچا چلو معاوضہ ہی غنیمت ہے۔ کچھ پیسے ملا کر کسی مجبور کی مسکین گائے لی جاسکے گی مگر آدھے سے زیادہ تو جرگے نے اپنی جیب میں رکھ لیا۔ رسول بخش کے پاس آئے تو چند ہزار، اس کے بعد دو بیٹیوں کی شادی کی کچھ سال پہلے خریدی تین بھینسوں میں سے ایک بھینس بیچی تو اتنی رقم ہوئی کہ اس کے لیے برابر والے گاؤں کے ایک مجبور بندے کو راضی کر سکے۔

اس کے گھر تو لوتھڑا جیسا بھی نہ تھا بس چھ لڑکیاں جن میں سے دو بھری جوانی میں بھی بمشکل ماں کے کندھوں تک پہنچتی تھی۔ پیسے دے کر تو کیا کوئی پیسے لے کر بھی بیاہنے کو تیار نہ تھا۔ دونوں طرف کی مجبوریاں اُس کی خوش قسمتی بن گئیں، رشتہ طے ہوگیا۔ اُس کے لیے براق سفید کڑکڑاتا کُرتا شلوار سلا، گھر کو رنگین جھنڈیوں سے سجایا گیا۔ بارات نکلنے کو تیار تھی کہ کسی نے خبر دی کہ لڑکی پولیس اسٹیشن پہنچ گئی ہے۔ کچھ ہی دیر بعد پولیس اور کئی رپورٹر دندناتے ہوئے گھر میں گھس آئے۔ اگلے دن سارے ملک میں ہاتھ جوڑے مظلوم لڑکی اور اُس کی تصویریں اخباروں میں چھپ گئیں۔ میڈیا پہ گرما گرم بحث چھڑ گئی کہ ملک میں عورتوں اور خصوصی افراد کی کیا حالتِ زار ہے۔

نجانے کہاں سے ہمدردیوں کا سیلاب امڈ آیا۔ روز کوئی اخبار والا دروازے پہ کھڑا ہوتا۔ کوئی رپورٹر پلنگ پہ پڑے لوتھڑے کے سامنے پدرسری معاشرے کو لعن طعن کرتا تو کوئی خاندان کی شادیوں کو، کوئی ریاست کو ذمہ دار ٹہراتا کوئی جاگیرداری نظام کو۔ اسے بار بار بے حس و حرکت لاش کی طرح پڑا رہنے پہ مجبور کیا جاتا۔

کوئی جذباتی رپورٹر اس کے منہ میں مائک گھسا کر اس کے سر پہ چڑھا اس سے اپنی مطلب کی بات کہلوانے کی کوشش میں لگا ہوتا۔ اس کی تصاویر ایسی ہی معذوری کا شکار مغربی مقرر کے ساتھ لگائی جاتیں۔ اُس کی کامیابیوں اور اِس کی مجبوریوں کا تقابل ہوتا۔ جاتے جاتے رپورٹر ماں یا باپ کے ہاتھ میں چند سو یا ہزار تھما جاتے کہ اگلے چکر کے لیے آسانی رہے۔

ماں باپ کے ہاتھ میں پیسے آنے لگے تو اس کی شادی نہ ہونے کا غم بھی ہلکا ہوگیا۔ مگر یہ سلسلہ کب تک چلتا۔ اخبار والوں کو دوسری خبریں مل گئیں اور رزق کا یہ تھوڑا بہت آسرا بھی بند ہوگیا۔ پورا دن اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اب ماں کو دوبارہ کَھلنے لگی۔

راتیں مزید گہری اور تاریک ہوگئیں۔ ایک ایسی ہی رات سوتے سے اس کی آنکھ کھلی تو رسول بخش اور اس کی بیوی سر جوڑے نہ جانے کیا کُھسر پُھسر کر رہے تھے۔ اس نے دوبارہ سونے کی کوشش کی مگر جب باتوں میں اس کا نام آیا تو نیم غنودہ حسیات مکمل جاگ گئیں۔ جملے تو پورے سنائی نہیں دے رہے تھے مگر چند ادھورے جملوں سے اسے بات پوری سمجھ آگئی تھی۔ کل ماں باپ کا اسے شہر کے پریس کلب لے جانے کا ارادہ تھا۔ جہاں وہ اس کی طرف سے بھوک ہڑتال کا اعلان کرکے حکومت کی طرف سے امداد طلب کرتے۔

اُسے لگا وہ پوری زندگی گزار کے آج جاگا ہے۔ وہ کسی امداد کا طلبگار نہیں تھا۔ وہ مزید کسی تشہیر کا خواہاں نہیں تھا۔ اسے افسوس اس بات کا تھا کہ وہ جو اپنی مختصر سی انگلیوں سے نفیس ازار بند گانٹھ لیتا تھا اس کا ہنر والدین کی نظر میں کچھ بھی نہیں تھا وہ اب تک ان کے لیے صرف ایک بیکار لوتھڑا تھا۔ اسے ایک ازار بند بنانے میں کتنی محنت کرنی پڑتی تھی یہ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور جتنی محبت سے بڑی بہن نے اسے یہ ہنر سکھایا تھا نہ اس کا اندازہ کر سکتے تھے۔ وہ کچھ دیر دم سادھے لیٹا رہا۔ رسول بخش اور اس کی بیوی ساری بات چیت کر کے مطمئن ہو کے لیٹ گئے۔ کچھ ہی دیر بعد تاریک کمرے میں دو گہری خوابیدہ سانسیں گونجنے لگیں۔

وہ دھیرے سے اٹھا۔ کھسک کر چارپائی کے ایک طرف آیا چارپائی کے ایک پائے پہ دونوں ہتھیلیاں ٹکائیں اور حسبِ عادت جسم کو پائے کے ساتھ نیچے لٹکا لیا۔ اس کی چارپائی باقی چارپائیوں سے ذرا نیچی تھی وہ بہت خاموشی سے فرش پہ اتر چکا تھا۔ اس نے کونے میں پڑا اپنے ازار بند بنانے والے سامان کا تھیلا اٹھایا اور دروازے تک آ گیا۔ چند لمحوں کے لیے دروازے کی دہلیز پہ رکا ماں باپ پہ آخری نظر ڈالی اور باہر نکل گیا۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima