کیا صرف میری ایک کمی ہی میری شناخت ہے؟


”اللہ کی شان تنکے میں جان“

وہ اسکول میں داخل ہوا توکسی جانب سے آواز آئی۔ دو قدم چلا ہوگا کہ دوسری طرف سے آواز آئی

”ارے جیب میں دو پتھر رکھ لیا کر بھائی کسی دن اڑ جائے گا۔ “

اس میں ماتھے پہ آتا پسینہ بھی صاف کرنے کی ہمت نہیں تھی، قدم تیز کرنے کی کوشش کی مگر لگتا تھا پیروں میں جان ہی نہیں وہ بمشکل کلاس تک پہنچا۔ یہ روز کا معمول تھا ایسا نہیں تھا کہ اس کے دوست نہیں تھے یا وہ کوئی ڈرپوک یا پڑھائی میں نکما لڑکا تھا مگر ہر کوئی اس کے دبلے پن پہ کوئی جملہ کسنا جیسے فرض سمجھتا تھا حد یہ کہ اساتذہ بھی اس فقرہ بازی میں شامل ہوتے وہ ہر بار سوچتا اب کسی کی بات کو دل پہ نہیں لے گا مگر ہر بار اپنا مذاق اڑنے پہ اس کا سارا اعتماد گم ہو جاتا تھا۔

مگر اگلی صبح کچھ عجیب ہوا وہ داخل ہوا اور پورا رستہ کسی نے اس کو کچھ نہیں کہا بلکہ اسکول کچھ سنسان سنسان سا لگ رہا تھا۔ لوگوں کی تلاش میں اس کی نظریں ڈھونڈتی ڈھونڈتی گراونڈ کے ایک درخت کے نیچے لگی ایک بیچ پہ جا کر ٹھہریں جہاں ایک چھوٹا سا مجمع لگا ہوا تھا دور سے ہلکی ہلکی قہقہوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ سمجھا صبح صبح کوئی کمپنی والے آئے ہوں گے، اپنی پراڈکٹ کی پروموشن کے لیے۔ عموما وہ کوئی کامیڈین یا میجیشن وغیرہ کو لے آتے تھے۔ مگر قریب پہنچ کر اندازہ ہوا کہ دائرے کے بیچ کوئی بڑا آدمی یا عورت نہیں ایک بچہ ہی کھڑا تھا بہت موٹا اتنا موٹا کہ اس کی بھی ہنسی نکل گئی۔

ہاہاہا اس میں کیا اس کے ابو نے ہوا بھروائی ہے۔ یا غبارے کو بیٹا بنا لیا۔ اس نے غیر ارادی طور پہ پاس کھڑے لڑکے سے کہا۔ دونوں زور سے قہقہہ مار کے ہنس دیے اس کی ہنسی میں لطف بھی تھا اور ایک عجیب سی خوشی جیسی دشمن سے پرانا بدلہ لے کر ملتی ہے۔ اس کو دوگنی خوشی ملی تھی ایک تو اسکول خاص کر کلاس کے باقی طلبہ کی توجہ اب اس موٹو پہ تھی اور اب کوئی تھا جس کا وہ بھی مذاق اڑا کر اپنا غصہ نکال سکتا تھا۔

نئے آنے والے لڑکے کے مٹاپے کے سامنے اس کا دبلا پن کچھ بھی نہیں تھا۔ اسے یقین تھا کہ اب اس کا مذاق اڑنا کم ہوجائے گا۔ وہ کوشش کرنے لگا کہ زیادہ سے زیادہ موٹے کے قریب رہے تاکہ کوئی جیسے ہی اس کے دبلے پن پہ کچھ بولتا وہ اس کا دھیان موٹے کی طرف کروا دیتا پھر وہ مل کر اس موٹو کا مذاق اڑاتے۔ ہر ایک نے موٹو کو پنچنگ بیگ سمجھ لیا تھا گھر سے پٹ کر آنے والا، ٹیچرزسے غلطی پہ بار بار بے عزتی سہنے والا، لوگوں کے بے توجہی کا شکار غرض سب موٹو سے اپنے مسئلوں کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔

کیونکہ موٹو کے گھر سے کوئی کبھی کمپلین لے کر نہیں آیا۔ اور موٹو میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ کلاس ٹیچر یا پرنسپل سے شکایت کرسکتا اس لئے سب بے خوف ہو کر موٹو کا مذاق اڑاتے اور اس کی تاثرات دیکھ کر خوب لطف اٹھاتے۔ نیا مہینہ شروع ہونے والا تھا اور ٹیچر نے نیا ٹاپک دیا ”بلئینگ bullying“ پھر تھوڑا وضاحت کرنی شروع کی کہ دیکھیں بلئینگ کا مطلب ہوتا ہے مذاق اڑانا کسی کی رنگت پہ قد پہ جسامت پہ فقرے کسنا جیسے موٹو سوری معیز کو سب اس کے موٹے ہونے پہ چڑاتے ہیں تو ایسا کرنا بلئینگ کہلاتا ہے اس کا نتیجہ بہت خطرناک ہوسکتا ہے بچے خودکشی بھی کرلیتے ہیں مگر معیز آپ ایسی کوشش مت کیجیئے گا کہیں چھت ہی نا گر جائے۔

ٹیچر نے رک کے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ پھر آگے پتا نہیں کیا کیا بتاتی رہیں مگر معیز کا دماغ سائیں سائیں کرتا رہا۔ اگلے دن معیز اسکول نہیں آیا بلکہ اخبار میں خبر آئی ساتویں کلاس کا شاگرد ٹیچر کی معمولی مذاق پہ ناراض، گلے میں پھندا ڈال کر دنیا چھوڑ گیا۔ ۔ ۔ ۔

معیز ہمارے اردگرد موجود کئی ایسے کرداروں میں سے ایک کردار ہے جنہیں ہماری توجہ اور سپورٹ کی ضرورت ہے۔ اصل زندگی میں بھی بلئینگ ہمیں نا صرف ہر جگہ نظر آتی ہے بلکہ ہم کبھی نا کبھی اس کا شکار بھی ہوئے ہوتے ہیں۔

 بلئینگ کی مختلف اقسام ہیں جن میں سب سے زیادہ عام مذاق اڑانا ہے اس کے علاوہ کسی کے لیے جنسی نوعیت کے کمنٹ کرنا، کسی کے لیے افواہیں پھیلانا، اس کو کسی مخصوص ذات یا طبقے سے تعلق کی بنا پہ بار بار کمتر ہونے کا احساس دلانا دھمکیاں دینا، اپنی طاقت کے مظاہرے کے طور پہ مارنا پیٹنا یہ سب بلئینگ کی اقسام ہیں۔ اس کے علاوہ اب ایک منفرد قسم سامنے آئی ہے وہ ہے سائبر بلئینگ یعنی انٹرنیٹ اور موبائل کی مدد سے دوسرے کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے والے اقدامات کرنا جس میں کسی کو دھمکی آمیز میسجز بھیجنا، فحش میسجز یا تصاویر بھیجنا، سوشل سائیٹس پہ مختلف جگہ کسی شخص کو بار بار اپنی موجودگی کا احساس دلا کر چڑانا اس کی ”ایکٹویٹی“ پہ نظر رکھنا اور پھر اس کے حوالے سے اسے حراساں کرنا جسے عمومی طور پہ اسٹالکنگ کہا جاتا ہے۔

 یہ سب بھی بلئینگ کا حصہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب سے فرق کیا پڑتا ہے اگر ہم ”اگنور“ کردیں تو معاملہ ختم؟ یہی مشورہ دیا بھی جاتا ہے مگر اصل میں نظر انداز کرنا اتنا آسان نہیں ایک ماہر نفسیات ہونے کی حیثیت سے روز کئی لوگ ہمارے پاس کم اعتمادی، پبلک میں بات کرنے کی گھبراہٹ، تنہائی کا احساس، چھوٹی چھوٹی باتوں پہ غصہ آجانا، اپنا آپ غیر اہم لگنا، فیصلہ سازی کی صلاحیت نا ہونا اور ایسی کئی شکایات لے کر آتے ہیں جو کہ مسلسل بلئینگ کا شکار ہونے کا شاخسانہ ہوتی ہیں۔

 دنیا بھر میں روز کئی بچے کسی نہ کسی قسم کی بلئینگ کا شکار ہوتے ہیں۔ جن میں سے 30 فیصد بچے خود کو تکلیف دینا شروع کردیتے ہیں، 30 فیصد بچے خودکشی کا بار بار سوچتے ہیں اور 10 فیصد عمل بھی کر لیتے ہیں مزید دس فیصد بچے نشے کا سہارا لیتے ہیں۔ اور بقیہ 20 فیصد اسکول جانا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں بلئینگ سے متعلق معلومات جمع کرنے کا کوئی منظم نظام موجود نہیں۔ جن تھوڑے بہت سرویز کی بنیاد پہ اسٹیٹسٹکس بنائی گئیں اس کے حساب سے پاکستان دنیا بھر میں بلئینگ میں بائیسویں نمبر پہ ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima