بڈھا گوریو: بالزاک کے عظیم ناول کا اردو ترجمہ


” انسانی دل محبت کی سیڑھیاں طے کرتے وقت ممکن ہے کہیں سستانے کے لیے ٹھہر جائے لیکن نفرت کی ڈھلوان پر رکنا محال ہے“

کم ظرف مالکن نے اپنا غصہ اس طرح نکالا کہ کھانے میں جن دوچار لذیذ چیزوں کا اضافہ کیا تھا، ان میں پہلے کمی کی اور بعد ازاں وہ لوازمات ہی بند کردیے۔ گوریو کی صحت پر اس سے فرق نہ پڑا، جس سے چڑ کر مالکن نے بورڈنگ ہاؤس کے رہائشیوں کو اس کے خلاف بھڑکایا تو وہ اس کی تضحیک کرنے لگے۔ گوریو اسے بھی برداشت کرتا رہا۔

مادام ووکے کے رویوں کا تجزیہ کرتے ہوئے بالزاک نے جو نکات بیان کیے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی باطن کے بارے میں اس کا علم کس قدر گہرا ہے۔ اس کے بقول ”۔ شاید بعض لوگوں کو اپنے ساتھ والوں سے کوئی امید ہی باقی نہیں رہتی۔ جب وہ اپنے دوستوں کو یہ دکھا چکتے ہیں کہ ان کا دل کیسا خالی ہے تو پھر یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ دوستوں کی رائے ہمارے بارے میں بہت سخت ہے حالانکہ وہ اس رائے کے پوری طرح مستحق ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ خواہش بھی کم نہیں ہوتی کہ لوگ ہماری عزت کریں اور ہمیں اچھا سمجھیں۔ یا پھرانھیں یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ ہمارے اندر وہ خوبیاں نظر آئیں جو دراصل موجود نہیں ہیں چنانچہ انھیں اجنبیوں سے امید ہوتی ہے کہ یہ لوگ ہمیں پسند کریں گے اور ہمارے عزت کریں گے، چاہے ان میں یہ جذبہ دیر تک قائم نہ رہ سکے۔ پھر کچھ لوگ فطرتاً ذلیل ہوتے ہیں وہ اپنے دوستوں اور عزیزوں سے محض اس لیے بھلائی نہیں کرتے کہ ان کا تو حق ہے لیکن اگر کسی غیر کے ساتھ کوئی اچھا سلوک کریں تو خود اپنے دل میں اپنی عزت بڑھتی ہے۔ دوست جتنے قریبی ہوں گے اتنا ہی کم وہ انھیں پسند کریں گے، اور جان پہچان والوں میں کوئی آدمی جتنا دور ہوگا اس کے ساتھ اتنی ہی عنایت سے پیش آئیں گے۔ مادام ووکے، ان دونوں قسم کے لوگوں سے مشابہت رکھتی تھی جو دراصل کمینے، جھوٹے اور قابل نفرت ہوتے ہیں۔ “

گوریو کی زندگی میں نیا موڑ اس وقت آیا جب راستیناک کی طبقہ اشرافیہ کا حصہ بننے کی دھن اسے گوریو کی بیٹی ویلفین تک لے گئی۔ دونوں میں ربط ضبط ہوگیا۔ بیٹی کے اس محبوب سے گوریو کو لگاوٹ ہوگئی کہ اب اس کی سرگرمیوں کی خبر اسے برابر ملنے لگی۔ بیٹیوں کے شاہانہ رہن سہن اور گوریو کو پھٹے حالوں دیکھ کر راستیناک کو دکھ ہوتا۔ اس کا اپنا عمل بھی ناخلف بیٹیوں سے مختلف نہ تھا۔ گوریو اپنی بیٹیوں پر پیسہ لٹا دینے کے بعد وہ قیمتی چیزیں جس سے اس کی یاد نگری آباد ہے، بیچنے پر مجبور ہے، تو دوسری طرف راستیناککا خاندان چیزیں گروی رکھ کر اور انھیں بیچ کر اسے پیسے بھیجتا ہے جن سے وہ اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لا کر پیرس کی ان عورتوں کا قرب چاہتا ہے جن کے بارے میں بالزاک نے لکھا ہے :

ان کے دلوں کا حال جانو تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں محبوب کے بجائے مہاجن براجمان ہیں۔

ہم آج اپنے معاشرے کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ اس میں خال خال ہی ایسی افراد موجود ہیں جو ترغیب و تحریص کے دام میں نہیں آتے، لیکن 1835 میں شائع ہونے والے اس ناول میں بھی ہمیں بتایا جارہا ہے کہ ماضی کے برعکس زمانہ حال میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ہر طرح کی لالچ کا اپنی قوت ارادی سے مقابلہ کریں اور جن کے لیے ”سچائی کے رستے سے ذرا سا بھٹکنا بھی گناہ میں داخل ہو۔ “

ناول پڑھتے ہوئے کئی جگہوں پر پاکستانی معاشرے کا خیال آتا ہے، مثلاً : ایمان داری کا یہاں کوئی مول نہیں۔ ایمان دار آدمی کو سب اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ لیاقت نایاب ہے۔ دنیا میں اکثریت اوسط درجے کے لوگوں کی ہے، اور بے ایمانی ان کا ہتھیار ہے۔

یہ ناول دامادوں کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ گوریو بیٹیوں کی محبت میں پاگل ہوا ہے اس لیے ان کا ناخوب بھی اسے خوب دکھتا ہے البتہ دامادوں پر وہ خوب برستا ہے۔ :

” میرے دامادوں نے میری بیٹیوں کا گلا گھونٹ دیا ہے، ہاں، جس روز ان کی شادی ہوئی میں اسی دن ان سے محروم ہوگیا تھا۔ والدین کو چاہیے کہ قانون ساز مجلس سے کہہ کر شادیوں کے خلاف کوئی قانون بنوالیں۔ اگر تمھیں بیٹیوں سے محبت ہو تو انھیں شادی نہ کرنے دینا۔ داماد تو ایسا شیطان ہوتا ہے کہ لڑکی کا دل اور اس کی پوری فطرت ہی بدل ڈالتا ہے، اب اور شادیاں نہ ہونے دینا۔ وہ ہماری بیٹیاں ہم سے لے جاتے ہیں۔ انھیں ہم سے چھین لیتے ہیں اور پھر جب ہم مرتے ہیں تو ہمارے پاس کوئی نہیں پھٹکتا۔ مرتے ہوئے باپوں کے لیے بھی قانون بننا چاہیے۔ یہ کتنی بری بات ہے۔ اس کا تو انتقام ضروری ہے۔ وہ ضرور آتیں اگر میرے داماد انھیں نہ روک لیتے۔ ان دونوں کو جان سے مار ڈالو۔ ریستو کو مارگراؤ اور اس جرمن کتے کا بھی خاتمہ کردو۔ وہ دونوں میرے قاتل ہیں۔ موت یا میری بیٹیاں، آہ، میرے خاتمے کا وقت آگیا، میں مررہا ہوں۔ ناسی، ویلفین، تم کیوں نہیں آتی ہو، تمھارا باپ جارہا ہے۔ “

بڈھے گوریو کی موت جن حالات میں ہوئی اس نے ناول کے اختتامی حصے کی فضا سوگوار بنادی ہے۔ وہ جب اس بورڈنگ ہاؤس میں آیا تھا تو اس کی اٹھارہ ریشمی قمیصیں دیکھ کر مالکن کے ہوش اڑ گئے تھے اب اسی جگہ وہ آخری دموں پر ہے تو مادام ووکے اس کے لیے چادریں دینے کو تیار نہیں۔

میرے پیارے موسیو یوژین، اس نے چادروں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔ :

” میری طرح تم بھی جانتے ہو کہ بڈھے گوریو کے پاس ایک پائی بھی نہیں ہے۔ مرتے آدمی کو چادریں دینا تو ایسا ہے جیسے اٹھا کر پھینک دیں، خصوصاً ایسے موقعے پر کہ جب ایک چادر تو کفن کے لیے ہی استعمال ہوگی۔ “ اور جب راستیناک اس کا قرض چکا دیتا ہے تو وہ مکاری سے باورچن سے کہتی ہے ”چادریں سات نمبر سے لے لینا۔ وہی جن کے کنارے بیچ میں کردیے ہیں۔ “ وہ اس کے کان میں بولی ”خدا گواہ ہے، وہ لاش کے لیے بہت مناسب رہیں گی۔ “

دولت مند تاجر جس کی تجہیزو تکفین کے لیے پیسے بھی نہیں بچے تھے، بیٹیوں کی راہ تکتے تکتے دنیا سے سدھارا۔ راستیناک اس ساری صورت حال کا حصہ تھا اس لیے آزردہ ہے لیکن تدفین کے بعد وہ شہر پر نظر دوڑاتا ہے اور محبوبہ کے یہاں کھانے کی دعوت کے لیے روانہ ہوجاتا ہے۔

ناول کے ترجمے کا تعارف ممتاز نقاد محمد حسن عسکری نے لکھا ہے اور خوب لکھا ہے۔ ان کے بقول :

” یہ ناول میرے تخیل پر اس طرح چھایا ہوا ہے جیسے کسی کو اپنی کوئی درد ناک محبت یاد ہوتی ہے، یعنی تفصیلات تو ذہن سے غائب ہوجاتی ہے مگر پورے تجربے کا خیال آتے ہی دل پر ہیبت سی طاری ہوجاتی ہے۔ اس ناول کے متعلق میں بے تکلف میر کا وہ مشہور مصرع پڑھ سکتا ہوں :

جب نام ترا لیجیے تب آنکھ بھر آوے

سیدہ نسیم ہمدانی کا یہ ترجمہ بھی عسکری سے منطور شدہ ہے جس کو اصل متن سے ملا کر بھی انھوں نے دیکھا اور پسند کیا۔ اسے پہلی دفعہ 1953 میں مکتبہ جدید لاہور نے ”شائع کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2