دولھا


کچھ وقفوں کے بعد (اس وقفے کا وقت مقرر تھا، گو اس کا تعین کسی گھڑی کی مدد سے نہیں کیا جاتا تھا بلکہ بڑی دیر کی عادت کی بدولت یہ طے پاچکا تھا کہ اس کے غسل اور پائپ نوشی اور کھانا کھانے کے دوران میں کتنا وقفہ مناسب رہے گا۔ ) اس نے افریقان میں پکار کر کہا، ”میاں، میرے لیے کھانا بنانا بھول گئے کیا؟ “

مڑے تڑے اندھیرے کے اس قطعے کے پار سے، جہاں دونوں آگوں کی روشنی آکے ملتی تو نہ تھی مگر لڑکھڑاتی شکلیں اور ایک دوسرے پر بچھے ہوئی غف چمچماہٹیں بکھیر رہی تھی، ایک بھرایا ہوا، احتجاجی قہقہہ سننے میں آیا جو کسی نئی چہل کو داد سے نوازنے سے کہیں بہتر اس لیے تھا کہ آپس کے ایک پرانے مذاق کو وضع داری سے نباہے چلے جانے کے لطف کا حامل تھا۔

پھر چند منٹ بعد؛ ”پیٔٹ، میرا خیال ہے تم نے سب کچھ جلا کر رکھ دیا ہے، ہیں؟ “

”باس؟ “

”کھانا کہاں ہے، بابا؟ “

کالا آدمی تہہ ہوجانے والی میز اور تیل سے جلنے والا لیمپ اٹھائے اپنے وقت پر نمودار ہوا۔ وہ روشنی اور اندھیرے میں آجا کر، برتن اور رکابیاں اور کھانا اٹھا اٹھا کے لاتا اور گہری دل جمعی سے ملی جلی افریقان اور انگریزی میں چٹکیاں بھرتا رہا۔ ”آپ کوئک سوسٹر (koeksusters چھوٹا، بلدار کیک جسے تیل میں تلتے ہیں۔ ) مانگتا، سو میں کوئک سوسٹر بناتا۔ آپ آج سویرے مجھے بولا۔ سو مجھے تیل تیار کرنا پڑا، بڑھیا اور کڑکڑاتا ہوا۔

مجھے ساری تیاری کرنا پڑا۔ اس لیے کام ذرا ہولے ہولے بنا۔ ہاں، مجھ کو معلوم بنا۔ مگر میں ہر کام جلدی جلدی تو کر نہیں سکتا۔ آپ آج رات جلدی مچایا۔ آپ انتظار کرنا مانگتا تو پھر بہتر یہ کہ آپ کوئک سوسٹر سنیچر کو بنوایا کرو۔ تب مجھے سہہ پہر کو فرصت ہوتی، میں اچھی طرح بناتا، ہاں، میرے خیال میں اگلی باری بہتر ہوگا کہ۔ “

پیٔٹ اچھا باروچی تھا۔ ”میں نے اپنے چھوکرے کو ہر چیز پکانی سکھا دی ہے۔ اُدھر فرانسس ٹاؤن میں وہ نوجوان ہمیشہ لوگوں کو یہ سناتا رہتا۔ “ وہ تو کوئک سوسٹر تک بنا لیتا ہے۔ ”اس نے لڑکی کی ماں کی ان خاموشیوں میں سے ایک کے دوران میں بتایا جو اس کی نارضامندی کی دلیل تھیں اور جنھیں پُر کرنے میں اس قدر مشکل پیش آتی تھی۔ جس طرح کے رہن سہن کا وہ لڑکی کے بندوبست کرسکتا تھا اس کی طرف سے لڑکی کے والدین بدظن تھے، اور ان کی بدظنی رفع کرنے کی کوشش میں اسے بڑی جان مارنی پڑی تھی۔

اس نے جوں توں کرکے والدین کو اتنا قائل تو کرلیا تھا کہ لڑکی کے لیے گزر بسر ناممکنات میں سے نہیں تھی اور انھوں نے شادی کے لیے اپنی رضا مندی بھی ظاہر کردی تھی، لیکن محسوس وہ اب بھی یہی کرتے تھے کہ اس طرح گزر اوقات زیب نہیں دے گی۔ انھیں خوش کرنے اور اطمینان دلانے کی خواہش کے مارے وہ بے چین ہوکر صورتِ حال کا ان کی نظر سے جائزہ لیتا اور ان کے اعتراضات کا پہلے سے توڑ کرنے کے لیے تبدیلیاں عمل میں لاتا۔

لڑکی دیہاتی فارم کی رہنے والی تھی، اس لیے وہ شہری زندگی کے لیے تو نہ کلپتی لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ لڑکی کے والدین کے سامنے اس حقیقت سے انکار نہ کرسکا کہ کسی فارم پر رہنا، جہاں اس کا پورا کنبہ آس پاس ہو اور اڑوسی پڑوسی صرف تیس چالیس میل دور ہوں، اور بات تھی اور کسی گاؤں یا شہر سے دوسو بیس میل دور، کسی سرراہ ڈیرے پر میاں کے ساتھ اکیلے رہنا بالکل مختلف معاملہ تھا، جہاں بقول اس کی ماں کے ”کالے کافروں کا غول کا غول دن بھر اسے گھرے رہے گا۔

“ نوجوان نے خود تو اس بارے میں سرے سے کچھ سوچا ہی نہ تھا کہ جب وہ سڑک بنوانے نکل جایا کرے گا تو اس کی غیر موجودگی میں لڑکی کیا کرے گی۔ جہاں تک لڑکی کا تعلق تھا، شادی ہوچکنے تک، اسے شادی کے سوا کسی بات کا ہوش نہ تھا، کہ کس طرح اس کی دو چھوٹی بہنیں گلابی کپڑے زیب تن کیے اس کے پیچھے پیچھے چلیں گی اور وہ عرودی لباس جو درزن سی رہی تھی اور جسے پہن لینے کی صورت میں اسے لگتا تھا کہ وہ خود کو پہچان نہ پانے کی اور وہ کیک جس کے اوپر چینی کے بنے ہوئے ننھے منے دولھا دلھن شام کا لباس ڈاٹے کھڑے ہوں گے۔

اس نے لکیریں پڑی میز اور جام کے کھلے ہوئے ٹین کی کگر اور نمک دانی پر نظر ڈالی، جس کے ٹوٹے ہوئے مجھ پر بادامی کاغذ کا ٹکڑا صفائی سے بندھا ہوا تھا، اور پیٔٹ سے کہا، ۔ جب بیگم صاحبہ آئیں گی تو تمھیں ہر کام عمدگی سے کرنا ہوگا۔ ”

”باس؟ “

انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور حقیقت میں کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔

”تمھیں خاصہ قاعدے قرینے سے چننا ہوگا اور ہر کام صاف ستھرا ہونا چاہیے۔ “

”میں ہمیشہ ہر کام صاف ستھرا کرتا تو پھر اب آپ کیوں بولتا کہ میں ضرور ہر کام صاف ستھرا کروں؟ “

نوجوان سر جھکا کر کھانے کی طرف متوجہ ہوگیا جو اشارہ تھا کہ پیٔٹ اب جائے۔

کھانا کھاتے ہوئے اس کا ذہن خود بخود ان تبدیلیوں کا جائزہ لیتا رہا جو لڑکی کی خاطر عمل میں لانی پڑیں گی۔ وہ معاملات پر اس طرح غور کرنے کا عادی نہ تھا کہ ذہن میں ان کی تصویر کھینچ جائے بلکہ وہ صرف ان باتوں سے نمٹنا جانتا تھا جو سامنے موجود ہوں۔ یہ ایسا تھا جیسے اس نے کوئی سبق رٹ لیا ہو۔ اسے یہ تو علم تھا کہ جو کچھ درکار ہے اس کی کلی صورت کیا ہے۔ لیکن جب اجزائے ترکیبی میں سے کسی ایک کی تفصیل کا سامنا کرنا پڑتا تو اس کے چھکے چھوٹ جاتے۔

نہ تو وہ اس تفصیل کو پہچان پاتا اور نہ اس کی سمجھ میں آتا کہ اس سے کیوں کر نمٹے۔ مزدوروں کو لازمی طور پر ڈیرے سے دور رہنا ہوگا۔ سب سے اہم بات یہی تھی۔ پیٔٹ تو کھانا پکانے اور صفائی کرنے کی غرض سے ان کے ڈبے نما گھر میں بار بار آئے گا۔ مزدور بھی۔ خاص طور پر وہ مزدور جو لاریوں اور سڑک سازی کے آلات کی دیکھ بھال کے ذمے دار تھے۔ برابر کچھ نہ کچھ پوچھنے آتے جاتے رہتے تھے کہ فلا نے بارے میں کیا کیا جائے، ڈھمکانے کے بارے میں کیا کیا جائے۔

وہ ایسا نہ کرتے تو سارا کام ہی چوپٹ ہوجاتا۔ چبنی ہڈی کی ایک کرچ جو اس سے نگلی نہ گئی اس نے تھوک دی۔ اس کا ذہن کسی اور بات کی طرف منتقل ہوگیا۔ یہ عورتیں جو اُدھر پرے تھیں۔ یہ لڑکی کے لیے کپڑے دھودیا کریں گی۔ یہ کالے کافروں کی اس قدر ہوش ٹولی تھی، یہ لوگ کبھی کوئی کام سلیقے سے کر بھی پائیں گے؟ بیس مرد اور کوئی پانچ کے قریب ان کی عورتیں۔ یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ ان سب کو کسی کٹیلے جھنکاڑ کے پیچھے لگا دیا جائے۔

بات صرف اتنی تھی کہ وہ اس کے ڈیرے کے آس پاس نہ ٹکے رہا کریں۔ یہ بات اچھی طرح ان کے پلے پڑ جانی چاہیے کہ وہ ڈیرے کے اردگرد جمع نہ رہا کریں۔ اس الاؤ کی روشنی کی حد پر واقع نیم تاریکی میں پرچھائیاں پتلیوں کی طرح تھرک رہی تھیں اور اس نے نظر گاڑ کر ان پر چھائیوں سے پرے دیکھا۔ آوازیں، جو اب یار باشی کے انداز میں دھیمی پڑگئی تھیں، وقفے وقفے سے سنائی دیتی ہوئی کہ کھانا کھایا جارہا تھا، لکڑیاں چرنے کی ”چڑ! ۔ گونجتی ہوئی اور کسی بچے کے بلک کر رونے کی باریک جھلی تنی ہوئی جس میں سے چھن کر یہ ساری صدائیں اس تک پہنچ رہی تھی۔ وہ لوگ اُدھر اپنے احاطے میں تھے۔ اس کے باوجود اس نے ایک عجیب سا، کھٹکنے والا شک محسوس کیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5