دولھا


تحریر: ناڈین گورڈیمر (جنوبی افریقہ)

مترجم: محمد سلیم الرحمٰن

اُس سہہ پہر اس نے آخری بار اپنے سرِراہ ڈیرے میں قدم رکھا۔ صفائی ستھرائی کے لحاظ سے کوئی گھر کبھی اس ڈیرے کے پاسنگ کو نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اردگرد کی کھلی جگہ میں ریت ہموار کرکے بچھا ہوا، پانی کے ڈرم ترپال کے نیچے دھرے، گرمی سے بچاؤ کی خاطر خیمے کے پردے گرے ہوئے۔ تیس گز پرے ایک کالی عورت گھٹنوں کے بل جھکی مکئی کوٹتی ہوئی اور دو تین بچے، کالاہاری کی دھول میں اٹ کر بھوسلے، ایک چمرخ کتے کے ساتھ کھیلتے ہوئے۔ ان عظیم وسعتوں میں، جن کے درمیان یہ ڈیرا گم تھا، ان کی مہین آوازیں یوں لگتی تھیں جیسے کسی چڑیا کی چوں چوں۔

اس کے خیمے میں بیتی رات کی کچھ نہ کچھ ٹھر باقی رہتی تھی، باسی مگر ٹھنڈی، جیسے کسی گرجے کی فضا۔ وہاں اس کا لوہے کا پلنگ بچھا تھا جس پر صاف تکیہ غلاف تھا اور پوستین کا بنا بڑا سار کمبل۔ وہیں اس کی میز تھی، تہہ ہوجانے والی کرسی تھی جس کی سیٹ سرخ کرمچ کی تھی اور وہ صندوق تھا جس میں اس کے کپڑے تھے۔ صندوق پر اس کی الارم والی گھڑی رکھی تھی، جو روز صبح پانچ بجے اسے جگا دیتی تھی اور فرانسس ٹاؤن میں رہنے والی اس سترہ سالہ لڑکی کی فوٹو بھی تھی، جس سے وہ شادی کرنے والا تھا۔

لڑکی اور الارم گھڑی، وہ کافی دیر سے وہاں پہ تھیں۔ صبح سویرے بھی جب وہ آنکھیں کھولتا، سہہ پہر کو بھی جب وہ کام پر سے لوٹتا۔ لیکن آج یہ آخری بار تھی۔ صبح اسے روڈ ڈپارٹمنٹ کے دس ٹن والے ٹرک میں فرانسس ٹاؤن جانا تھا۔ اگلے ہفتے جب وہ واپس آئے گا تو شادی شدہ ہوگا اور لڑکی اس کے ساتھ ہوگی اور وہ ریل کے ڈبے جیسا خانہ رواں بھی جو محکمے کی طرف سے شادی شدہ مردوں کو ملتا تھا۔ پلنگ پر بیٹھتے اور بوٹ اتارتے وقت اس کی نظر لڑکی پر جمی ہوئی تھی۔

وہ مسکراتی لڑکی ان چہروں جیسا ایک چہرہ تھی۔ جنہیں کسی رسالے سے کاٹ لیا گیا ہو۔ اس نے وہ کپڑے اتارنے شروع کیے جو کام کرتے وقت پہنے ہوتے تھے، خاکی رنگ کی ایک چھال، دھول سے اکڑی اکڑی۔ جو اتارے جانے کے بعد بھی اس کی کاٹھی کا انداز اپنائے رہی اور اس نے رسان اور دھیمے پن سے آواز دی۔ ”پیٔٹ[Piet] بابا، اب آبھی چکو۔ “ لیکن وہ کالا ہڈیلا مرد، جس کی بھنویں، کسی مسخرے کی بھنوؤں کی طرح، زور لگانے کی وجہ سے چڑھی ہوئی تھیں اور ننگے پاؤں بوجھ تلے گھسٹ رہے تھے، ٹین کا ٹب اُٹھائے خیمے تک پہنچ بھی چکا تھا۔ تتے پانی کے کبھی ٹب کے اِس کنارے اور کبھی اُس کنارے سے ٹکرا کر چھلکنے سے جھنجھناتا ہوا سُر بلند ہورہا تھا۔

نہانے دھونے اور خاکی رنگ کی صاف قمیص اور گھسی ہوئی بھوری پتلون پہننے اور خوشبودار پومیڈ چپڑ کر بال جمانے کے بعد وہ ٹھیک اس وقت خیمے سے باہر آیا جب افق کا پپوٹا سورج کی لہولہان آنکھ کو ڈھانپ چکا تھا۔ جاڑوں کے دن تھے اور سورج پانچ بجنے کے ذرا بعد ہی ڈوب جاتا تھا۔ خاکستری ریت دھندلاتے پیازی رنگ میں بدل گیا۔ نیچی کٹیلی جھاڑیوں سے بنفشی سائے کے بڑے ہوتے دھبے پھوٹ پڑے جو سب کے سب تھوڑی دیر میں گھل مل گئے۔

اس کے بعد صحرا کی سطح، ایک دو منٹ کے لیے، ننھے ننھے گڑھوں سے بھری اور مسام دار نظر آئی، جیسے دوربین میں سے چاند کی سطح دکھائی دیتی ہے۔ اس دوران میں اندھیری ہوتی دنیا سے دور اوپر آسمان میں اجالا تھا اور شام کے تارے کی نرمل بلوری کنکری جگمگا رہی تھی۔ وہاں جو الاؤ روشن تھے۔ خود اس کے ڈیرے کا الاؤ، اوپر کی طرف کالوں کی جلائی ہوئی آگیں۔ وہ سیال رنگ کی تقریباً غیر مرئی ٹمٹماہٹ سے بدل کر نور کے اچھلتے زبانوں کی درخشاں آماج گاہیں بن گئے۔

اندھیرا چھا گیا۔ ہر شام وہ اسی طرح دن تمام ہونے کی مختصر رِیت پوری ہونے تک بیٹھا آہستہ آہستہ اپنا پائپ بھرتا رہتا، آہستہ آہستہ اپنی پیٔٹھ کو، ڈھیلا چھوڑ کر، آگ کی طرف پھیر دیتا اور دن بھر کی محنت مشقت سے پیدا ہونے والی اکڑاہٹ کو جمائیاں لے لے کر دور کرتا۔ یکایک اس نے، اشتیاق کے مارے، آپ ہی آپ دبا دبا سا قہقہہ لگایا۔ لڑکی کا وجود اس کے لیے حقیقی بن گیا۔ اسے فوٹو والا چہرہ یوں دکھائی دیا جیسے وہ کسی خانۂ رواں کے دروازے کے سامنے کھڑی ہو۔

وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور چُستی کے ساتھ، جو امید نے اس کے اندر پیدا کردی تھی۔ ڈیرے کے آس پاس چہل قدمی کرنے لگا۔ اس نے لکڑی کے ایک کندے کو ٹھوکر مار کر آگ میں اور اندر دھکیلا، پکار کر پیٔٹ کو حکم دیا، چلتا ہوا خیمے کی طرف گیا، پھر اپنا ارادہ بدل لیا اور ٹہلتا ہوا واپس چلا آیا۔ اس کے ڈیرے کے کنارے پر اپنے پڑاؤ میں سڑک بنانے والے مزدور ایک دوسرے کے جواب میں قہقہے لگانے، باتیں کرنے چیخنے چلانے اور بحث کے اس معمول کا آغاز کرچکے تھے جو کام ختم ہونے کے بعد کبھی خطا نہ ہوتا تھا۔

سفید صابن کے گھنے جھاگ کے نیچے سے کالی کالی بانہیں ہل جل کر اشارے کرتیں۔ جب بالٹی بھر پانی کا ٹھنڈا زور کسی کے سر سے ٹکرا کر بکھرتا تو زور سے سانس کھینچنے اور ہوکا بھرنے کی آواز آتی۔ کھانا پکانے کی تیاری کے دوران میں، باتوں کے تانتے کے ساتھ ساتھ، لوہے کی ہنڈیوں کے چمکتے ہوئے ڈھینڈے ادھر اُدھر آتے جاتے نظر آتے۔ وہ گفتگو کررہے تھے اس کا بیشتر حصہ وہ سمجھ نہ سکتا تھا۔ تسوانا بولی اسے بس اتنی ہی آتی تھی کہ پیٔٹ اور ایک دو آدمیوں کی مدد سے، جو اس کی اپنی بولی، افریقان، سمجھ سکتے تھے، انھیں احکام دے سکے۔

لیکن ان کی آوازوں کا شور شام کے اس وقت سے مخصوص تھا۔ ان بچوں میں سے جو ہمیشہ روتے رہتے تھے، کسی باریک آواز میں ریں ریں مچا رکھی تھی، جس پر کوئی کان نہ دھر رہا تھا۔ ننگ دھڑنگ بچے ایک دوسرے کے پیچھے دوڑنے کا کھیل کھیلنے میں مصروف تھے، جس کی وجہ سے کتا بھونک پڑتا تھا۔ وہ واپس آیا اور پائپ ختم کرنے کے دوبارہ الاؤ کے پاس آبیٹھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5