بارش کی ایک رات اور بے خواب ممتا کے سترہ برس


 ”نہیں، نہ اس کا نام بتایا ہے اور نہ ہی بتانا چاہتی ہے۔ اس کے آگے ابھی اور کچھ بات نہیں ہو سکی ہے۔ “ مڈوائف نے جواب دیا۔

میں واپس لیبر روم گیا تو روز میری کی شکل سے ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ درد کی شدت بڑھ چکی ہے، بچہ دُنیا میں آنے کے لیے بے قرار ہے۔ میں نے سوچا شاید بچہ دانی کا منہ مکمل طور پر کھل چکا ہے۔ مڈوائف نے دونوں پیر لیبر ٹیبل سے لگے ہوئے ستونوں پر اسٹرپ سے باندھ دیے۔ میں نے معائنہ کیا اورپھر روز میری سے کہا کہ اب جب درد شروع ہو تو جتنی شدت سے زور لگا سکتی ہو زور لگانا، میں کوشش کروں گا کہ بغیر فورسب اور ویکیوم کے ہی بچہ پیدا ہوجائے۔ نہ ہی مجھے کوئی کٹ لگانا پڑے اور نہ ہی کسی قسم کا زخم تمہارے جسم پہ بنے۔ سب کچھ آرام سے نارمل طریقے سے ہو جائے۔

ہر تین منٹ پر اٹھنے والے درد کے ساتھ میری اپنی پوری قوت سے بچے کو دنیا میں دھکیلنے کی کوشش کر رہی تھی۔ بچے کا سر آہستہ آہستہ رک رک کر آدھا آدھا سینٹی میٹر نیچے آرہا تھا۔ زندگی کا پہلا سفر جو نارمل طریقے سے پیدا ہونے والے ہر بچے کو طے کرنا پڑتا ہے۔ چند انچوں کا کٹھن راستہ جو دنیا میں آنے کی خواہش سے شروع ہوتا ہے اور ماؤں کو شدید درد دیتا ہوا اس دنیا میں آمد پہ ختم ہوتا ہے۔ یہی رشتہ ہے ماں اور بچے کا جو بچے کے لیے ماں کو ہمیشہ بے کل رکھتا ہے۔ ہر درد کے ساتھ مڈوائف بچے کے دل کی دھڑکن سن رہی تھی جو کبھی ایک سو پچاس تو کبھی ایک سو بیس، ہر منٹ پہ ہوجاتی تھی۔

میں کوشش کررہا تھا کہ میں بغیر جسم کو کاٹے ہوئے بچے کو ڈیلیور کردوں اور ادھر روز میری کے چہرے پہ خوف و ہراس کے ساتھ تھکن بھی آہستہ آہستہ طلوع ہو رہی تھی۔

چالیس منٹ کی مستقل جدوجہد کے بعد جب بچے کا سر بالکل ہی نیچے آگیا تو میں نے ویکیوم کا کپ بچے کے سر پہ لگا کر روزمیری سے کہا تھا کہ اب زور لگائے ایک دو تین چار پانچ گنتے ہوئے جب دس تک پہنچے تو بچی پیدا ہوچکی تھی۔

بچی کے پیدا ہوتے ہی سوزن نے بچے کی سانس کی نالی کو فوراً ہی صاف کیا۔ یہ بہت ہی اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ یہی مرحلہ ہوتا ہے کہ ذرا سی بے احتیاطی سے بچے کی سانس کی نالی میں پانی چلا جاتا ہے اور اگر اس وجہ سے پھیپھڑوں تک ہوا نہ پہنچے تو دماغ میں آکسیجن بھی نہیں پہنچ پاتا ہے کیوں کہ انول نال کٹ چکی ہوتی ہے اور ماں سے آکسیجن پہنچنے کا عمل ختم ہوچکا ہوتا ہے۔

ہمارے ملکوں میں ہزاروں لاکھوں بچے دائیوں، غیر ذمہ دار مڈوائف اور ڈاکٹروں کی سستی اور اس موقع پر احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے ہر سال دماغی طورپر ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے پاکستان میں ایک ڈاکٹر نے مجھ سے کہا تھا کہ شکر ہے کہ لوگ جاہل ہیں، اگر پڑھے لکھے ہوتے تو اس طرح سے ناکارہ پیدا ہونے والے بچوں پہ سخت جھگڑا ڈال دیتے، ابھی تو خدا کی مرضی کہہ کر ہسپتال والے بھی جان چھڑا لیتے ہیں اور ڈاکٹر بھی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔

 اس مرحلے پہ ہونے والی غلطی کی وجہ سے بچہ اگر مناسب طریقے سے چیختا نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے، اس بچے کے دماغ کے خلیوں کو آکسیجن نہیں پہنچ سکا ہے۔ ان خلیوں پہ ہی ذہانت کا دارومدار ہوتا ہے۔ اگر یہ خلیے صحیح ہوں گے تو بچہ بھی ذہین ہوگا۔ بڑا شاعر، ڈرامہ نگار، فن کار وکیل، اچھا استاد، ڈاکٹر، سائنس داں بنے گا۔ لیکن اگر یہ خلیے مرجائیں تو بچہ کیا بن سکتا ہے ذہنی بیمار، فقیر، سماج پہ ایک بوجھ۔ ہمارے چاروں طرف ایسے بے شمار لوگ ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اگر ہسپتال کی اس غلطی کی وجہ سے بچہ اگر مسائل کا شکار ہوجائے تو ہسپتال کو بڑا تاوان ادا کرنا پڑتا ہے۔

سوزن نے زور سے کہا کہ بچی بالکل نارمل ہے۔ اس عرصے میں صفائی کا کام مکمل ہوچکا تھا۔ بچہ دانی سکڑ کر ناف تک واپس پہنچ چکی تھی اورکسی بھی قسم کی غیر معمولی بلیڈنگ نہیں ہورہی تھی۔

میں اسٹول سے اٹھ کر بچی کے پاس گیا۔ سفید تولیے میں پھول کی طرح سمٹی ہوئی سرخ بچی کے ہونٹوں کے بائیں جانب تل تھا اورآنکھوں کے نیچے غیر معمولی طورپہ ابھری ہوئی ناک بہت نمایاں تھی۔ میں اسے اٹھا کر روز میری کے پاس لے گیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے بچی کو تھاما اور چہرے کو چومتی رہی۔ اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا جھرنا مسلسل بہہ رہا تھا۔

مڈوائف نے چاہا کہ روز میری اسے اپنا دودھ پلائے مگر روز میری نے سختی سے منع کردیا۔

میں نے مڈوائف سے کہا کہ روزمیری کو کمرے میں شفٹ کیا جائے۔ ڈیلیوری کے نوٹ لکھ کر جب فارغ ہوا تو رات کے تین بج چکے تھے۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ باقی ماندہ رات اپنے بستر پہ گزاروں کہ مڈوائف نے آکر کہا کہ روزمیری مجھ سے بات کرنا چاہتی ہے۔

وہ اپنے کمرے میں بستر پہ بیٹھی ہوئی تھی اور اس نے دوبارہ وہی کپڑے پہن لیے تھے جن میں وہ ہسپتال آئی تھی۔

میں نے اسے حیرت سے دیکھا۔ ”یہ کیا ہے روزمیری! تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔ “ میں نے سوال کیا اور ایک طرح سے حکم بھی دیا۔

 ”نہیں مجھے جانا ہے۔ “ اس نے بڑے اعتماد بھرے لہجے میں کہا۔ ”صبح ہونے سے پہلے اپنے گھر والوں کے جاگنے سے قبل۔ میں نے اپنی بچی کے اڈوپشن کے کاغذات پر دستخط کردیے ہیں۔ پانچ بجے میں ٹیکسی سے چلی جاؤں گی۔ مجھ سے وعدہ کرو ڈاکٹر کہ یہ بچی کسی ایسے جوڑے کو ملے گی جو پڑھے لکھے ہوں، جن کے بارے میں تمہیں بھی یقین ہو کہ اس کا خیال رکھیں گے، بالکل اپنے بچوں کی طرح۔ “ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے جھلملا رہی تھیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4