بارش کی ایک رات اور بے خواب ممتا کے سترہ برس


 اگر وہ راضی ہوجاتا تو ہم شادی کر لیتے۔ میں نے تو یہ بھی کہا کہ دونوں ہی انگلینڈد چلے جاتے ہیں۔ وہیں بچہ ہوگا، وہاں ہی اڈوپشن کے لیے دے دیں گے مگر کیون راضی نہیں ہوا اورایک روز وہ یکایک مجھے چھوڑ کر انگلینڈ چلا گیا۔ یہ بہت ساری لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ میرے ساتھ ہو گا، میں نے نہیں سوچا تھا۔ میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہی تھا کہ میں حمل کو چھپا کر رکھتی۔ اتنا بڑا رسک مجھے لینا پڑا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ ابارشن نہیں کراؤں گی۔ اپنے کیتھولک ماں باپ کے سکھائے ہوئے اصولوں کو پامال نہیں کروں گی۔ میں حمل کو چھپا کر بچے کو جنم دوں گی اگر رسک ہے تو رسک ہے۔ میں نے رسک لیا تھا۔

اس رات کے بعد میری زندگی میں بہت کچھ ہوا۔ میں نے یونی ورسٹی کی تعلیم مکمل کی اور وکیل بن گئی۔ یونی ورسٹی میں ہی میری ملاقات کولبی سے ہوئی۔ اس سے میری شادی ہوئی، میرے تین بچے ہوگئے، دو لڑکے ایک لڑکی۔ آج میری اور میرے شوہر کی بڑی قانون کی فرم ہے۔ آج سب کچھ ہے میرے پاس۔ میں جو چاہے خرید سکتی ہوں، جہاں چاہوں رہ سکتی ہوں مگر وہ رات ایک راز کی طرح میرے سینے میں دفن ہے۔ اس رات کی نیند کو جیسے کسی نے چرا لیا ہے۔

 مجھے مار دیا ہے اس رات کے خوابوں نے۔ کبھی کبھی جب میں اُس رات کو جاگ رہی ہوتی ہوں تو میرے شوہر میرے بچے پریشان ہوجاتے ہیں۔ میں انہیں کیسے بتاؤں کہ اس دل کے اندر ایک بہت بڑی کہانی ہے۔ ایک سیاہ اندھیری غار جس میں ایک چھوٹی سی بچی اپنے ننھے ننھے ہاتھ پیر پھینک رہی ہے۔ اس کا چہرہ ہے، تازہ تازہ نرم نرم۔ اس کی آنکھیں ہیں ادھ کھلی، آدھی بند۔ اس کے ہونٹ ہیں چھوٹے چھوٹے مجھے چومنے کو بے قرار۔ مجھے بلارہی ہے وہ جہاں میں جا نہیں سکتی، میں روتی ہوں مگر کسی کو بتا نہیں سکتی۔

 ایک راز ہے ایک بوجھ ہے وہ رات جس زندگی کی گزرنے والی تمام راتوں سے زیادہ طویل، زیادہ سیاہ اورزیادہ دردناک ہے۔ دور اس اندھیری رات میں شاید وہ بچی مجھے تلاش کررہی ہے، آوازیں دے رہی ہے۔ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے مجھے اشارے کر رہی ہے۔ میں اسے بتانا چاہتی ہوں، اس کی محبت شدید ہے۔ دل کے ہر خانے میں، ریشے ریشے میں رچی ہوئی ان تمام محبتوں سے زیادہ جو مجھے اپنے دوسرے تین بچوں سے ہے۔ ”

یہ کہہ کر وہ رکی پھر بڑے ملتجیانہ انداز میں بولی، ”ڈاکٹر! مجھے صرف یہ بتادو کہ میری بچی کیسی ہے، زندہ ہے، اچھی تو ہے نا؟ کیا کر رہی ہے؟ غریب تو نہیں ہے؟ اگر ہے تو میں اس کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ اس کی تعلیم کا خرچ، کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا مجھے بتانا بھی نہیں۔ یہ ایک راز ہوگا میرے اور تمہارے درمیان۔ “

میں اسے کچھ بھی نہیں کہہ سکا، کہنا بھی نہیں چاہتا تھا، کہہ بھی کیسے سکتا تھا۔ فیونا اب بڑی ہوگئی تھی۔ وہی کتابی چہرہ، وہی آنکھیں، وہی ہونٹ، وہی کالا سا تل اور آنکھوں کے نیچے ناک کا ابھار لیکن یہ ساری چیزیں میں روز میری کو نہیں بتا سکتا تھا۔

کافی پی کر وہ اٹھ گئی، ایک کارڈ چھوڑ گئی تھی میرے پاس۔ کبھی بھی میری بچی کومیری ضرورت ہو تو مجھے ضرور فون کرنا ڈاکٹر۔ مجھے پتا ہے کہ تمہیں سب کچھ پتا ہے۔ اس کا شبہ صحیح تھا۔

تین دن کے بعد میں نے روز میری کو فون کیا۔ فون اس نے ہی اٹھایا تھا۔ اس کی آواز سے ہی اندازہ ہوگیا کہ میری آواز سن کر اسے بھرپور خوشی ہوئی ہے۔ ”مجھے یقین تھا کہ تمہارا فون آئے گا ڈاکٹر۔ “

 ”روز میری تم صحیح کہہ رہی تھیں، مجھے پتا ہے۔ لیکن میں کچھ زیادہ نہیں بتا سکتا ہوں لیکن صرف یہ بتانے کے لیے تمہیں فون کیا ہے کہ تمہاری بیٹی بہت ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہے، بہت ہی پڑھے لکھے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ہے۔ بہت ہی خوش ہے اور تمہاری طرح ہی خود اعتماد بھی، باوقار بھی۔ نہ اسے مدد کی ضرورت ہے اور نہ ہی تمہیں ایسا سوچنا چاہیے کہ وہ تکلیف میں ہے اور میں ایک بار پھر وعدہ کرتا ہوں کہ اگر کبھی بھی اسے تمہاری ضرورت ہوئی تو میں تمہیں ضرور خبر کروں گا۔ تمہارا نمبر میرے پاس محفوظ رہے گا۔ “

دو دن بعد مجھے فرسٹ کلاس میل سے روز میری کا شکریے کا کارڈ آیا تھا۔ کارڈ کے نیچے چھوٹا چھوٹا صاف صاف لکھا ہوا تھا، ”ڈاکٹر! تمہارے فون کے بعد سترہ سال پرانی بارشوں سے بھری رات میں، میں پہلی دفعہ سوئی ہوں۔ گاڈ بلیس یو۔ “

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4