پھول کی کوئی قیمت نہیں


بالے نے بارہ روپے پچاس پیسے جمع کر کے باپ کو دے دیے۔ مراد نے ساڑھے سات روپے اپنی پونجی اس میں ڈالی

اور پتہ پوچھتا پاچھتا سلطان حبیب کی کوٹھی پر جا پہنچا جو بیگم کے میاں کا نام تھاجو ہوٹل کے ڈرائیوروں سے اسے معلوم ہوا تھا۔ ملازم کے ذریعہ اندر اطلاع کرائی کہ پھول بیچنے والا آیاہے۔

بیگم مسکراتی ہوئی برآمدے میں آئی اور بولی ”بابا جی آپ کس طرح آن پہنچے“۔

مراد مٹھی میں پکڑی ہوئی رقم مودبانہ انداز میں بڑھاتے ہوئے بولا ”بیگم صاحب اس روز پھولوں کی قیمت آپ نے بہت زیادہ دی تھی۔ واپس کرنے آیا ہوں“۔

وہ بولی ”پھول کی کوئی قیمت نہیں ہوتی بابا جی۔ واپس لے جاؤ“۔

گندے نالے پر پھٹے حالوں رہنے والے افراد آج پھر اس واقعہ پر حیران، خوش اور مسرور تھے کہ دنیا میں کیسے ہمدرد، خدا ترس، اور غم کو بانٹ لینے والے لوگ موجود ہیں۔ بیگم برآمدے میں آئی تو کیا بولی، بابا مراد کی بیوی پوچھتی اور پھر مراد بابار دہراتا۔ ہر بار مراد کی بیٹی بڑے دھیان سے سنتی۔ بابا مراد کہتا ”میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ بیگم جب چلتی ہے تو زندگی کی خوشیاں اس کے ساتھ چلتی ہیں،

جب بولتی ہے تو پھول جڑتے ہیں۔ وہ آپ ایک شگفتہ اور تروتازہ پھول ہے۔ اس کا چہرہ ہر وقت مسکراتا رہتا ہے ”۔

بابا مراد کی غمزدہ بیٹی کی آواز پھڑ پھڑائی ”ہائے میں کس طرح بے غم کو دیکھوں۔ میرا بڑا جی چاہتا ہے اسے دیکھنے کو“۔ اس کے خیال میں بیگم دکھ اور سکھ، درد اور راحت کا ایک ایسا رشتہ تھا جو پوری کائنات ہے اور وہ اس کائنات کو لمحہ بھر کے لیے دیکھنا چاہتی تھی بلکہ خود اس میں سما کر منہا ہو جانا چاہتی تھی۔

فیصلہ یہ ہوا کہ اگلے اتوار بابا مراد فیروز دین گل فروش سے موتیے کی کلیاں لے کر آئے گا اور اس کی بیوی اور بیٹی ہار گوند کی گیلی ململ میں لپیٹ کر بابا مراد کے ہاتھ بیگم تو تحفہ بھیجیں اور پھر کسی روز اسے سلام کرنے جائیں۔

اتوار سے دو روز پہلے جب بابا مراد جمعہ کی نماز پڑھنے گیا تو بیوی نے اسے فیروز دین کو پھولوں کی یاد دہائی کرانے کو کہا۔ بازار سے دھاگے کی نئی گولی منگائی۔ ہار گوندنے کے لیے بالا باریک سوئیاں خرید لایا۔ مراد نے بیوی کو بتایا کہ کس طرح ہر روز تڑکے تڑکے کیاریوں سے پھول توڑے جاتے ہیں اور گل فروشوں کے گھر چھوٹی چھوٹی ٹوکریاں پھولوں سے بھر جاتی ہیں، اور فیروز دین نے اتوار کو صبح صبح اپنے گھر آکر اسے پھول لے جانے کو کہا ہے۔

ہفتہ کی شام کو جب بیگم سلطان حبیب نے بابا مراد سے چار گجرے اور دس ہار خریدے تو وہ گھر جا کر بولا ”مجھے آج معلوم ہوا کہ بیگم جو اتنے گجرے اور ہار خریدتی ہے وہ جا کر اپنی ملنے والیوں کو تحفہ دیتی ہے۔ کتنا اچھا طریقہ ہے۔ آج بیگم کے میاں نے جو کہا کہ فلاں فلاں کے لیے بھی لے لو، تو جب مجھے معلوم ہوا“۔

مراد کی بیوی بولی ”اچھی بات ہے۔ بیگم کے طفیل ہمارے ہار کہاں کہاں پہنچ جاتے ہیں، کس وقت پھول لینے جاؤ گے؟ “

بابا مراد نے جواب دیا ”نماز پڑھ کر نکل جاؤں گا۔ صبح کے وقت ریڑھے بہت ہوتے ہیں کسی پر بیٹھ جاؤں گا“۔

بابا مراد اگلے روز اذان ملتے ہی نماز کے لیے مسجد کی طرف چل دیا اور اس کی بیوی تغارہ اٹھا کر گوبر ڈھونڈنے اور اکٹھا کرنے چل دی۔ بابا کی بیٹی نے چولہا جلاکر روٹیاں پکائیں۔ پچوے پر سے چائے کی پتیلی اتاری، اپنے بچوں کو پلائی۔ معذور تاجے کے آگے جو مونجھ کی پیڑی پر جڑا بیٹھا تھا روٹی اور چائے کا پیالہ رکھا۔ بالا صبح صبح سبزی منڈی جا چکا تھا۔ جہاں وہ کچھ اپنے معمول کے مطابق کھا پی لیتا تھا۔ وہ ابھی فارغ ہوئی تھی کہ اس کی ماں آن پہنچی۔ تغارہ رکھ کر بولی ”بیٹی میں آج زیادہ دور نہیں گئی۔ مجھے بھی چائے دے دو، پھرہم دونوں کو ہار گوندنے ہیں۔ تیرا ابا آتاہی ہوگا“۔

دیکھتے دیکھتے جب کافی دن نکل آیا تو مراد دروازے کا ٹاٹ اٹھا کر اندر داخل ہوا اور بولا ”فیروز دین نے مجھ سے پھولوں کا روپیہ تو لے لیا مگر کلیاں بھی وہ دیں کہ دیکھا کرو“۔ یہ کہتے ہوئے اس نے کلیوں کا لفافہ چنگیر میں الٹ دیا۔ اس کی بیوی کلیوں کا جائزہ لیتے ہوئے بولی ”میں بازاری ہاروں کی طرح چھوٹے چھوٹے نہیں، ان کے تو لمبے لمبے ہار پروؤں گی“۔

جون کا مہینہ، بیٹی نے ململ کی گیلی صافی میں ہار لپیٹ کر دیے، بیگم کی کوٹھی تک پہنچتے پہنچتے دس بج گئے۔ صافی کا کپڑا سوکھ گیا۔ وہ سوچنے لگا، ہار دیتے ہوئے یہی کہوں گا کہ یہ ہار بازاری نہیں ہیں آپ کے لیے خاص طور پر بنا کر لایا ہوں، کتنے لمبے ہیں۔ بازاری ہار کی طرح چھوٹے چھوٹے نہیں۔ پھر وہ سوچتا بیگم خود بخود دیکھ کر پہچان لے گی کہ یہ ہار گل فروشوں کے ہاتھوں کے نہیں۔ گھرہستنوں کے بنے ہوئے ہیں۔ گھر سے باہر جو موٹر گاڑیاں کھڑی تھیں ان کو دیکھ کر وہ کپڑے کی صافی کو خواہ مخواہ چھپانے لگا اور گاڑیوں کی اوٹ میں سے ہوتا ہوا صدر دروازے میں سے داخل ہو گیا۔ اندر خاموشی کاعالم تھا۔ لوگ باگ ادھر ادھر چپ چاپ کھڑے تھے۔ نوکر پیشہ دیوار کے ساتھ لگے سہمے کھڑے تھے ایک سے پوچھا ”کیاہوا؟ “

بولا ”بیگم فوت ہو گئیں“۔

کب؟

 ”رات“ دماغ کی رگ پھٹ گئی ”۔

اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا آگیا۔ وہ وہیں کا وہیں دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔ کوئی کہہ رہا تھا۔ ماں باپ پہنچ گئے ہیں۔ خسر اور ساس کا انتظارہے۔ اس نے دیکھا برآمدے کے ایک کونے میں بیگم کا میاں اپنے سر کو ہاتھوں میں پکڑے گم صم بیٹھا ہے۔ نعش کو برف کی سلوں کے درمیان رکھا ہوا ہے۔ باغیچہ میں دھوپ آگئی ہے۔ وہاں بیٹھی ہوئی عورتیں پیڑوں کے سائے میں کھسک گئی ہیں۔ گھر کا کوئی پرانا نوکر مرنے والی کے بیٹے کو کندھے سے لگائے کوٹھی سے باہر لے گیا۔ دو سال کے بیٹے کے چہرے پر عجب طرح کا خوف ڈر دکھائی دے رہا ہے۔ یہ اس کا بیٹا ہے جس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹوں کی کھلاوٹ رہتی تھی۔ وہ ذرا اور آگے کو کھسک گیا۔ اس کی بیگم برف کی بلوریں سلوں میں ساکت لیٹی پڑی تھی۔ رنگ دار دوپٹہ اور پھول دار قمیص پہنے ہوئے ایک بے جان اور بے حس جسم تھا، جس کے سر کے باریک بالوں کی لٹوں کو اس کی ماں ہاتھوں میں لے لے کر اس کا لمس محسوس کررہی تھی او ر چپ چاپ زار زار رو رہی تھی۔ نعش کے پاس سٹول پر بجلی کا پنکھا تیز تیز چل رہا تھا۔ ساتھ والی کوٹھیوں کی بیگمیں برآمدے کے پاس پہنچتیں تو ان کے منہ سے نکلتا ”اللہ اتنی جوان موت کسی کو نہ آئے“۔ یہ کہنے کے ساتھ ہی ان کی آنکھیں ڈبڈبا آتیں جنہیں وہ دوپٹے کے پلو سے پوچھنے لگتیں۔ نعش کی طرف دیکھتیں اور بے ساختہ ان کے منہ سے ہائے ہائے نکلتا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7