پھول کی کوئی قیمت نہیں


لوگ بابا مراد کو اٹھا کر ادھر لے گئے جدھر بھیڑ کم تھی۔ منہ میں پانی ٹپکایا تو آنکھیں کھل گئیں۔ وہ پھول بیچنے والوں کی دکانوں کے قریب سڑک پر چت پڑا تھا۔

ایک پھول فروش نے کہا ”پانی کا گلاس پی لے۔ لو لگ گئی ہے“۔

مراد پانی کے چند گھونٹ حلق میں اتار کر کمر پر ہاتھ رکھ کر ہمدردی جتانے والے سے بولا ”میں ہسپتال میں اپنا خون دے کر آرہا تھا کہ چکر آیا۔ “

 ”کوئی بات نہیں اٹھ بیٹھ“۔

لوگوں نے اسے سہارا دے کر فیروز دین پھول فروش کے کھوکھے پر بٹھا دیا۔ فیروز دین کی ڈاڑھی اور چہرے کا رنگ بالکل موتیے کے ان پھولوں کا ساتھا، جن کی ڈھیریاں اس کے سامنے کیلے کے سبز پتوں پر دھری تھیں۔ فیروز دین کی آنکھوں میں ایک ایسی گھلاوٹ فہم اور دلداری تھی جو زندگی کا لیل و نہار دیکھنے سمجھنے اور پرکھنے سے میسر آتی ہے۔

کلیاں اور پھول رات بھر ستاروں کے گیت سنتے ہیں۔ ظلمت اور اجالے کی آنکھ مچولی دیکھتے ہیں اور خاموش فطرت کے بھیدوں کی کنوئیاں لے لے کر کھلنے لگتے ہیں تو کھلتے ہی چلے جاتے ہیں، جیسے پھول کا فرض منصبی یہی ہے۔ ابھی کوئی فیروز دین سے شادی کے ہار اور ابھی کوئی جنازے کے ہار لے جاتا ہے مگر پھول اپنی چشم حیران کو متکلم نہیں ہونے دیتا۔ فیروز دین جس کی آنکھوں

میں زندگی کی دھوپ چھاؤں دیکھ دیکھ کر فہم اور پھولوں کی معصوم صحبت سے چہر ے پر تقدس کا ایک نورانی پرتو جھلک رہا تھا، ہار گوندتے ہوئے بولا ددتو ہسپتال میں خون کسے دے کر آیا ہے؟ کوئی بیمار ہے؟ ”

مراد بولا ”میں بیروز گار ہوں۔ گھر میں فاقہ آرہا تھا۔ خون کا ٹھیکیدار مجھے ہسپتال لے گیا۔ ہسپتال والوں نے میرا خون لیا جس کے بدلے میں ٹھیکیدار نے مجھے یہ دس روپے دیے“۔

اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور دس روپے کا نوٹ نہ پاکر اس کا چہرہ پیلا پڑگیا۔ خدا تجھے کہیں کا نہ رکھے۔ نوٹ کوئی نکال کر لے گیا۔

اس کا چہر ہ پتھر کی طرح جامد ہوگیا۔ اس کی ساری اداسی پتلیوں کے نقطوں میں سمٹ آئی۔ ماتھے پر پسینہ آگیا۔

فیروز دین نے اسے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دلاسا دیا۔ ”بابا جی کوئی بات نہیں۔ حوصلہ کرو۔ لو یہ پھول سونگھو۔ پھول فروش نے گلاب کی ڈھیری میں سے ایک سرخ پھول اٹھا کر مراد بابا کے ہاتھ میں دے دیا جو اس نے بنا سونگھے فیروز دین کے آگے پھینک دیا اور خلا میں ٹکر ٹکر دیکھنے لگا۔

لوگ باگ اپنے اپنے کاموں سے چلے جارہے تھے۔ خوانچہ فروش اپنی اپنی صدا لگا رہے تھے۔ تانگے اور موٹر کاروں کے شور سے بازار کی فضا بھری ہوئی تھی۔ فیروز دین کے ہاتھ ایک ساختہ پرداختہ طریقے سے موتیے کی کلیوں میں گلاب کا ایک ایک پھول مقررہ فاصلوں پر گوند رہے تھے پھر اس نے ہار کو گرہ لگائی اور مراد کے پیلے چہرے کی طرف دیکھا۔ دھاگہ توڑ کر بولا:

 ”اوگام سولے۔ پوا گرم دودھ کا لا ملائی ڈلوا کر“۔

اسی کھوکھے سے گام سولا اٹھا او ر پاؤ بھر دودھ پیالے میں ڈلوا کر لے آیا۔ فیروزدین پھول فروش نے اپنی واسکٹ کی جیب سے پیسے نکال کر گام سولے کو دیے، پھر ایک گاہک کو پھولوں کے ہار دینے لگا۔

مراد نے گرم گرم دودھ ایک ایک گھونٹ کر کے پیا اور اس دوران دیکھتا رہا کوئی گاہک ایک پھل فروش سے ہار کے دام پوچھتا تو دوسرا پھول فروش بالکل چپ رہتا۔ دخل نہ دیتا۔ نہ سستے دام بنا کر اسے اپنی طرف متوجہ کرتا۔ پھول فروش فقط اسی گاہک سے براہ راست بات کرتا جو اس کی دکان پر آکر سودا لیتا۔ یہ دیکھ کر اسے سری اوجھری والا بازار یاد آگیا۔ جہاں ایک ایک دکان دار گاہک کو آوازیں دے دے کر اس کا برا حال کر دیتا تھا۔

 ”کیا سوچ رہے ہو؟ “ ہسپتال تو ادھر ہے مگر تم ادھر سے آرہے تھے؟ ”

مراد نے کہا ”میں سری اوجھری والے بازار سے آیا تھا“۔

 ”سودا لینے گئے تھے؟ “ فیروز دین نے پوچھا۔

 ”نہیں اپنی بپتا پوری کرنے۔ میرا ایک جوان لڑکا ہے۔ پہلوانی کرتا تھا، اس نے ایک دن اکھاڑے سے نکل کر ٹھنڈے پانی سے نہا لیا، ٹانگیں جڑ گئیں۔ لاکھ علاج کیے کچھ نہیں ہوا، گھر میں بیکار بیٹھا رہتا تھا۔ کسی مہربان نے سری اوجھری والے بازار میں اوجھریاں دھونے پر نو کر رکھوا دیا۔ میرا دوسرا بیٹا جو سبزی کی ریڑی لگاتا ہے بائسیکل پر اسے دکان پر چھوڑ آتا، جہاں وہ بیٹھا اوجھریاں دھوتا رہتا۔ بیس روپے مہینہ ملتا۔ دو مہینے نوکری کی پھر اسے ابکائیاں آنے لگیں۔ اب پھر گھر میں بیکار بیٹھا ہے۔ ایک مہینے کی تنخواہ ابھی تک دکان دار کے ذمہ رہتی ہے، وہ لینے گیا تھا، اس نے پھر ٹال دیا۔ سوچتا ہوں اگر وہ بیس روپے بھی جیب میں ہوتے تو وہ بھی ان کے ساتھ ہی چلے جاتے ”۔

 ”چلو سر صدقہ سمجھو“۔

مراد ٹھنڈی سانس بھر کر بولا۔ سر صدقہ کس کا میاں جی! ہم تو لوگوں کی زکوٰۃ پر پلتے ہیں۔ میری بیوی روز تغارہ اٹھا کر گوبر چگنے چلی جاتی ہے۔ ادھر ادھر سے گوبر اٹھاکر لاتی ہے۔ اوپلے تھاپ کر بیچتی ہے۔ کیا کیا مصیبتیں بتاؤں۔ بیٹی کا میاں الگ ناراض ہو کر اسے چھوڑ گیا ہے، کس کس کا رونا روؤں۔ زندگی مصیبتوں کی پوٹ ہے میاں جی ”۔

فیروز دین نے ٹین کی چھوٹی بالٹی میں ایک ہاتھ ڈبو کر چلومیں پانی نکالا اور بڑے ہی نفیس طریقے سے ہاروں گجروں اور پھولوں کی ڈھیری پر پچکارا دے ڈالا۔ پھر اسی گیلے ہاتھ کو اپنے نورانی چہرے پر پھیرا اور دلداری کے لہجے میں بولا:

 ”میں ایک مشورہ دوں۔ تمہارا نام کیا ہے بابا جی؟ “

 ”بابا مراد“۔

 ”شام کو مجھ سے دوچار درجن ہار اور گجرے لے جایا کرو۔ مال روڈ پر کوئی ٹھکانہ بنالو، جہاں تمہاری بکری ہو جائے۔ درجن ہار بیچو، چونی لے لو۔ درجن گجرے بکیں تو اٹھنی دوں گا۔ تم دن بھر جو بھی کام کرو اپنا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ جی بسے سے کہہ کر

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7