پھول کی کوئی قیمت نہیں


اتنے میں کوٹھی میں کہرام مچ گیا۔ سلطان حبیب کا باپ اور ماں صدر دروازے سے داخل ہوئے۔ مرنے والی کے باپ کے منہ سے ایک کربناک فریاد نکلی ”میری بیٹی کو تو نے امانت کہا تھا۔ کہاں ہے میری امانت، میری امانت مجھے واپس دے دو“۔ پھر لڑکی او رلڑکے کا باپ بغل گیر ہو کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ سلطان حبیب اپنی ماں کے گلے لگ کر زار زار رونے لگا۔ پھر وہ بہو کے سرہانے کھڑی ہو کر بین کرنے لگی اور اپنے بال نوچنے لگی۔ بابا مراد کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ یہ وہی پرشباب لڑکی بے جان و بے حس مردہ پڑی تھی جس کے انتظار میں وہ بے چین اور مضطرب رہتا تھا۔ جو اس کے شعور میں دھیمے دھیمے جذب ہوتی چلی گئی تھی۔ جس کے ہاتھوں گجرے بیچ کر اسے اصلی خوشی حاصل ہوتی تھی۔ جس کا ذکر وہ گھر جا کر گھنٹوں کیا کرتا تھا۔ جس کے لیے آج وہ ہار لے کر آیا تھا۔

وہ دور کونے میں جا کر تنہا بیٹھ گیا اور چاروں طرف بتربتر دیکھنے لگا۔ اتنے میں مردہ نہلانے والی آن پہنچی۔ کفن دفن کا انتظام ہونے لگا۔ مراد اور زیادہ اداس ہوگیا۔ وہ وہاں سے اٹھ کر صدر دروازے کے قریب باہر آن بیٹھا اور سوچنے لگا بیٹھوں کہ چلا جاؤں۔ میرا اس گھر میں کوئی واقف نہیں۔ شوق سے پھول خریدنے والی آج خود مرجھا چکی۔ اس کا میاں مجھے نہیں پہچان سکتا۔ مجھے کوئی نہیں جانتا۔ جو جانتی تھی اگلے دیس سدھاری، میں کس کے لیے رکوں۔ مگر وہ بیٹھارہا جیسے کسی انجانی طاقت نے اسے جکڑ ے رکھا۔

اندر سے ایک دم چیخ و پکار اٹھی۔ عورتوں کی آہ و بکا سنائی دی۔ کسی نے کہا کلمہ شہادت۔ اس نے دیکھا عزیز واقارب کندھوں پر جنازہ اٹھائے کوٹھی سے باہر نکل رہے ہیں۔ وہ بھی کندھا دینے کو اٹھا اور پھر ہجوم کے ساتھ ساتھ ایک اجنبی بنا قبرستان کی طرف روانہ ہوا۔ جہاں وہ صرف قبر کو مٹی دینے کے لیے اٹھا اور پھر آکر وہیں ایک ٹوٹی ہوئی قبر کے پاس بیری کے درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔

جب سب جا چکے اور چھڑکاؤ کی ہوئی تازہ قبر کے پاس دو حافظوں نے قرآن خوانی شروع کردی تو بابا مراد اٹھا۔ قبر کے قریب آیا قبر پر پھولوں کی چادر پڑی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے۔ اس نے اپنی ململ کی صافی کھولی۔ پھولوں کے ہار نکالے۔ منہ سے اللہ اکبر نکلا اور اس نے وہ تمام ہار قبر پر ڈال دیے۔ یہ دیکھ کر اس کا دل لرز گیا کہ یہ ہار اتنے ہی لمبے تھے جتنی قبر۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر مغفرت کے لیے دعا مانگی اور جتنی آیتیں اسے یاد تھیں، پڑھ ڈالیں۔

تھکا ہارا بھوکا پیاسا ٹاٹ اٹھا کر اندر داخل ہوا تو دوپہر ڈھل چکی تھی۔ کوٹھڑی کی دہلیز پر اپاہج تاجا بیٹھا تھا۔ ”بڑی دیر کر دی باباجی“۔

تاجے کی آواز سن کر گھر کے باقی افراد بھی آگئے۔ مراد نے کوٹھی پر پہنچنے سے لے کر قبرستان اور قبرستان سے گھر تک سب کچھ کہہ سنایا۔ کبھی اس کی آنکھیں ڈبڈبا آتیں کبھی آواز رندھ جاتی۔ سب افراد غمگین اور اداس ہو کر خاموش بیٹھ گئے۔ جس کا چہرہ دیوار کی طرف تھا، وہ خالی خالی نظروں سے دیوار کی طرف ہی دیکھتا چلا گیا، جوزمین کی طرف دیکھ رہا تھا، وہ زمین کی طرف ہی دیکھنے لگا۔

ان کے جذبات حزیں ایسے تھے جیسے کوئی گھر کا فرد مرگیاہو۔ اسے پھٹے پرانے مفلس گھر میں بیگم کا ذکر بیگم کی بات ہوتی تو ہر فرد باربار پوچھتا اور بابامراد خوشی سے باربار دہراتا۔ آج کوئی بات نہیں کررہا تھا۔ جیسے سب باتیں ختم ہو گئیں۔ سب ذکر جاتے رہے، سب کی زبانیں گنگ ہو گئیں۔

مرنے والی کے میکے یا سسرال کے رشتے دار جب بھی قبرستان کی اس سڑک پر سے گزرتے رک جاتے اور قبر پر جا کر فاتحہ ضرور پڑھتے۔ یہ دیکھ کر ان کو ہمیشہ حیرت ہوتی کہ پختہ قبر کے اردگرد ہمیشہ کسی نے جھاڑو دیا ہوتا۔ طاقچہ میں بھجی ہوئی موم بتی پڑی ہوتی۔ کبھی تازہ کبھی مرجھایا ہوا ہار پڑا ہوتا۔ پھول قبروں پر ہوتے ہیں ہیں مگر پھولوں کے گجرے کون ڈال جاتا۔

بابا مراد نے اپنا معمول بنا لیا کہ ہفتے میں کم از کم دو بار تو ضرور قبر پر ہار اور گجرے چڑھا آتا۔ فاتحہ پڑھتا۔ جھاڑو دیتا۔

وہ ایک دن اپنی بیوی بیٹی اور معذور تاجے کو قبرستان لے گیا۔ اس کی بیوی اور بیٹی جب تک تسبیح پڑھتی رہیں وہ اور معذور تاجے تکیے میں گورکنوں سے قبروں اور قبروں میں مدفون افراد کی باتیں سنتے رہے۔ اس کے بعد قبرستان والوں سے مراد کی واقفیت روز بروز بڑھتی گئی۔

بڑی سڑک کے ناکے پر جہاں سے قبرستان کے تین راستے تین سمتوں میں نکلتے تھے۔ ایک چھوٹی سی کوٹھری اور رنگنائی تھی جس میں ایک ریڑھے والا اپنی بیوی او ر بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ یہ بیوی کا اپنا جدی مکان تھا۔ ایک دن وہ ریڑھے والے کے گھر جا نکلا۔ اپنے متعلق تعارف کرایا کہ پھول بیچتا ہوں۔ میری ایک درخواست ہے میں چاہتا ہوں تمہاری انگنائی میں باہر جو درخت ہے اس کے نیچے پھولوں کی ایک ٹوکری رکھ لیا کرو ں۔ ناکے سے قبرستان کی تین پگڈنڈیاں نکلتی ہیں۔ قبروں پر آنے والوں کو پھولوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ میرا ایک معذور بیٹا ہے جس کی ٹانگیں جڑ گئی ہیں۔ اس کو صبح یہاں لا کر بٹھا دیا کروں گا شام کو لے جایا کروں گا۔ درخت کے نیچے سایہ ہے بیٹھا رہا کرے گا۔ پھولوں کی جو بکری ہوگی، آدھی تمہاری آدھی اس کی۔

وہ بولا ”بابا جی پھولوں سے کیا بکری ہوگی۔ تم چھابا لگا نا چاہتے ہو لگا لو“۔

اگلے روز مراد نے ایک روپیہ کی گلاب کی پتیاں چھابے میں ڈال کر تاجے کو وہاں بٹھا دیا۔ جس نے شام کو دو روپے بنا لیے۔ بابامراد اگلے روز پھول اور پتیاں زیادہ لے آیا۔ سب بک گئیں۔ جمعرات کو اور بھی زیادہ بکری ہوئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7