پھول کی کوئی قیمت نہیں


اپنے گاہکوں سے آگاہی ہوتی چلی گئی۔

شہر بھر کی غلاظت بہا لے جانے والی سڑاند سے بھری بدرو پر بسنے والا یہ کنبہ ابھی کنجڑے بساطی اور آٹے دال والے کا پورا قرض چکا پایا تھا کہ مراد کی بیٹی کے بچے کو سوکھے کی بیماری لگ گئی۔ اس کی ٹانگیں سوکھنے لگیں اور بچے کے چہرے پر مردنی سی چھانے لگی۔ تاجا جو خود اپاہج اور معذور تھا، بہن کی بیٹی کی طرف دیکھتا تو اس کی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں۔ مراد کی روزانہ بہت آمدن ہوتی تو ڈھائی تین روپے ہوتی۔ اس سے مہنگی دوا خریدنا محال تھی۔ قرض لینا یوں محال تھا کہ جن سے قرض لیا جا سکتا تھا۔ وہ پہلے والے قرض کی ادائیگی کا تقاضا کررہے تھے۔ جمعہ کے جمعہ اس کی بیٹی بچے کو دم کرانے لے جاتی اور پیر صاحب کو پانچ روپے نذرانہ دینا پڑتا۔ رات کو سارا کنبہ چائے کے ساتھ سوکھی روٹی کھا کر پڑرہتا۔ بازار میں ڈیوٹی پر لگا ہوا نیا سپاہی بالے کو الگ پریشان کر رہا تھا۔ بلا اجازت ریڑھی لگانے پر روزجرمانے کراتا۔ گھر کا ہر فرد ایک نہ ایک پریشانی میں متلا ہوگیا تھا۔

ایک جمعہ کو سویرے سویرے بابا مراد اپنی بیٹی اور نواسے کو دم کرانے کے لیے اٹھا تو اس کا سینہ جل رہا تھا۔ پانی پیٹے کے لیے گھڑے کی طرف بڑھا تو دیکھا جو تین ہار رات کو بچ رہے تھے وہ گھڑے کی گردن میں لپٹے پڑے تھے۔ اس نے وہ تین ہار اٹھا لیے اور بیمار نواسے کو لے کر چل دیا۔

راستے میں اس نے بیٹی سے کہا آج اس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں۔ بیٹی بولی۔ بابا آپ کو تو کچھ نہ ہو۔ سارا گھر تو آپ کے دم سے چل رہا ہے۔

نذرانہ کے ساتھ بابا مراد نے تین ہار بھی پیر صاحب کے سامنے رکھ دیے۔ پیر صاحب ے دو ہار اپنے سامنے پڑے رہنے دیے۔ ایک اٹھا کر اس عورت کے گلے میں ڈال دیا جس کو آسیب کا سایہ بیان کیا جاتا تھا۔ اسے کے گلے میں ہار ڈال چکنے کے بعد پیر صاحب نے عورت کا ماتھا دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کچھ پڑھا، پھر ان کے دونوں ہاتھ عورت کے رخساروں پر خاصی دیر رکے رہے جیسے وہ گالوں کی گرمی محسوس کررہے ہوں، پھر سینے پر سے ہوتے ہوئے ناف تک اور پھر گھٹنوں تک پہنچ کر ہوا میں اٹھ گئے اور انہوں نے منہ سے چھو کی آواز نکالی۔

بابا مراد نے عورت کی طرف دیکھا۔ اس کی مستانی آنکھوں میں ایک کرن سی پھوٹی اور منہ سے ٹھنڈی سی آہ نکلی۔ بابا مراد نے محسوس کیا اس عورت کے گلے میں پڑتے ہی اس کا ہار کس طرح اپنی شخصیت بدل گیا۔ کیا پھول کوئی پراسرار شے ہے۔ کیا پھولوں میں کوئی بھید ہوتے ہیں، وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ پیر صاحب نے اپنے سامنے سے ایک ہار اٹھا کر اسے دیتے ہوئے کہا:

 ”کتاب اللہ پر چھوڑنا“۔

یہ ہار بھی ایک دم اپنی شخصیت بدل گیا۔ جو ہار پیر صاحب کے سامنے پڑا تھا، اس کی تیسری شخصیت تھی جو دونوں سے الگ تھی۔ کیا پھول کوئی حروف ہیں جن سے کوئی ایسی زبان بنتی ہے جس کی بلاغت صرف نگہت گل کی وساطت سے سمجھ میں آتی ہے۔ کیا پھول کے پردے میں کوئی بھید چھپے ہوتے ہیں۔ کھوکھوں پر بیٹھنے والے تمام گل فروش اس کی نگاہوں کے سامنے پھر گئے اور اسے

یوں محسوس ہوا جیسے وہ پھولوں کے ہار نہیں گوند رہے بلکہ ایک ایک راز اور ایک ایک بھید کو چھید چھید کر دھاگوں میں پروئے جارہے ہیں۔ یہ ہار ایسی عبارتیں ہیں جو پردہ گل سے بنتی ہیں، جسے صرف پڑھنے والے پڑھ سکتے ہیں۔ ایسے معنی ہیں جو سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں۔ ہر پھول کی ایک شخصیت ہے جو قائم بھی ہے، نہیں بھی۔

اگلی سہ پہر کو جب وہ سرکنڈے پر ہار اور گجرے لٹکائے ہوٹل کے سامنے پہنچا تو اس نے جھجکتے جھجکتے ایک بیگم سے کچھ روپے قرض مانگنے چاہے مگر زبان گنگ ہو گئی۔ اتنے میں اس خاص بیگم کی کار آ کر رکی۔ خاوند بیوی اترنے ہی والے تھے کہ بابا مراد ہار لے کر آگے بڑھا۔ بیگم بولی:

 ”بابا کیا حال ہے؟ آج تمہارا چہر اترا ہوا کیوں ہے؟ “

مراد ہاروں والا سرکنڈا آگے کرتے ہوئے بولا:

 ”بیگم ساب میرا نواسہ سخت بیمار ہے۔ میری لڑکی بے آباد بیٹھی ہے۔ داماد بساتا نہیں۔ آپ آج سارے ہار لے لیں۔ مجھے کچھ پیسے کی ضرورت ہے۔ بیگم نے بابا کر طرف ہمدردی سے دیکھا اور بولی“ کتنے پیسوں کی ضرورت ہے؟ ”

اس نے سرکنڈے سے دو ہار اور گجرے اتار لیے۔ پرس میں سے دو دس دس روپے کے نوٹ نکال کر بولی:

 ”بیس روپوں سے کام ہو جائے گا“۔

 ”خدا زیادہ دے۔ خدا خوش رکھے۔ خدا آپ کے بیٹے کو سلامت رکھے“۔

بابا مراد کو اعتبارنہیں آرہا تھا کہ کوئی اسے یوں جانے بوجھے بغیر بیس روپے کی رقم دے سکتا ہے۔ وہ باقی ہار بیچنے بھول گیا۔ چند منٹ منڈیر پر بیٹھ کر اٹھ بیٹھا اور موٹر گاڑی والے ڈرائیوروں سے اس بیگم کا پتہ پوچھنے لگا جو چند روپوں سے اس کے شعور میں دھیرے دھیرے داخل ہوتی چلی جارہی تھی۔

آج رات پھرگندی بدرو پر واقع گنجان گلی کے تنگ مکان میں گھر کے تمام افراد بابا مراد کے حالیہ واقعہ کو بار بار سننا چاہتے تھے اور وہ بار بار سنانا چاہتا تھا کہ بیگم کی آنکھوں میں کس طرح ہمدردی تھی کہ اس نے پوچھے بنا بیس روپے نکال کر اس طرح دے دیے جیسے وہ اسے عرصہ سے جانتی ہو۔ مراد کی بیوی بولی:

 ”دنیا میں خدا ترس لوگ ابھی موجود ہیں“۔

بے آباد بیٹی فرشتہ سیرت بیگم کے لیے جھولی پھیلا پھیلا کر دعائیں مانگنے لگی اور معذور تاجے کے چہر ے پر شکرانے کے جذبات اس طرح آشکارا ہونے لگے جیسے وہ بیگم کی ذات کی اہمیت اور اثر انگیزی کے حلقہ میں اپنے آپ کو مبتلا کر دینے میں خوشی اور آسائش محسوس کررہے تھے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ ان بیس روپوں سے بچے کے لیے ٹیکے خریدلیے جائیں۔ پھر چند دنوں میں بیگم کی کوٹھی پر جا کر مراد بابا کو بیس روپے واپس کر دینے چاہییں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7