لنگی: یونیورسٹیوں میں جنسی ہراسانی پر شمویل احمد کا شاہکار افسانہ


خطرے کی گھنٹی۔۔۔

ابو پٹّی نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ زر بہار کو کوئی بھی لے جائے۔۔۔ وہ خود کو الگ رکھے گا۔

زر بہار ٹیسٹ پاس کر گئی۔ سبھی پاس کر گئے۔  ان کا بٹوارہ ہوا۔ پروفیسر راشد اعجاز کو زربہار پسند آ گئی۔ اس نے فوراً اس کو اچک لیا۔ اب اس کا میدان فکشن تھا۔ پروفیسر نے اس کے لیے موضوع کا انتخاب کیا۔

قرۃ ا لعین حیدر کی ناول نگاری ”

دن گزرتے رہے۔  ثاقب کی تھیسس اسی طرح شعبے میں پڑی رہی۔ ایک دن معلوم ہوا کہ پروفیسر اعجاز اس کی تھیسس چیئرمین سے مانگ کر لے گے ہیں۔  وہ پروفیسر سے ملا۔

 ”اس میں ترمیم کرنی ہوگی۔ “

 ” کیسی ترمیم سر؟ “

آپ نے قرۃالعین کو ورجینیا وؤلف سے متاثر بتایا ہے کہ شعور کی رو تکنیک قرۃا لعین نے ورجینیا سے مستعار لی ہے۔

 ” جی سر! “

 ” لیکن آپ نے دلائل نہیں دیے ہیں۔  وؤلف کے ناولوں کا نام لیجیے اور وہ عبارت کوٹ کیجیے جس میں اس تکنیک کا استعمال ہوا ہے، ساتھ ہی قرۃ العین حیدر کے ناول کا بھی اقتباس پیش کیجیے جس سے شعور کی رو کا پتا چلے۔  ریسرچ اسی کو کہتے ہیں ورنہ سوئپنگ ریمارک سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے یہ بات کسی سے سن لی اور لکھ دیا۔

 ” لیکن سر یہ بات آپ نے پہلے نہیں بتائی۔ “

 ” اب بتا رہا ہوں۔  اس وقت یہ بات ذہن میں نہیں آئی تھی۔ “

 ’اس کا ایک ایک باب آپ پڑھ چکے ہیں‘ او کے کر دی تھی لیکن سر تھیسس توآپ نے ’۔  ”

 ”آپ میں یہی خرابی ہے۔  اپنے استاد کی بات نہیں سنتے ہیں۔  یہ تھیسس اگر ایکسپرٹ کے پاس بھیجی گئی اور اس نے خامیاں نکال دیں تو۔۔۔ ؟

ثاقب نے حسب خواہ ترمیم کر دی لیکن راشد اعجاز گھاس نہیں ڈال رہے تھے۔  وہ جب بھی ملنے جاتا کمرہ اندر سے بند ملتا۔ ایک بار اس نے تہیہ کر لیا کہ مل کر ہی جائے گا۔ باہر ٹول پر بیٹھا رہا۔ دروازہ کھلا تو زر بہار دوپٹّہ درست کرتی ہوئی باہر نکلی تھی۔ ثاقب نے محسوس کیا کہ اس کی چال میں ہلکی سی لنگڑاہٹ ہے۔  پروفیسر بھی پینٹ کا بیلٹ کَس رہے تھے۔  ثاقب کی نظر فرش پر رکھے ہوئے بیگ پر پڑی جس کا زپ پوری طرح بند نہیں ہوا تھا۔ زپ کے کونے پر بیگ آدھا کھلا ہوا تھا جس سے گلابی رنگ کی لنگی جھانک رہی تھی۔

 ’‘ کیا ہے سر۔۔۔  ’ری رائٹ‘ میں نے اس باب کو ’

 ” ابھی مصروف ہوں۔  کل دکھائیے گا۔ “

 ” سر۔۔۔ ایک نظر دیکھ لیتے۔ “

 ” آپ میں یہی خرابی ہے۔  استاد کی بات نہیں مانتے۔ “

ثاقب سر جھکائے کمرے سے نکل گیا۔

استاد اعظم جامعہ سے تشریف لائے۔  شعبہ میں چہل پہل تھی۔ تیس آدمیوں کے لنچ کے لیے الکریم بک ہوگیا۔ مہمانوں کے آنے جانے کے لیے سکینہ کو کار کا انتظام بھی کرنا پڑا۔

دن کے گیارہ بجے سے وائیوا شروع ہو گیا۔ شعبہ کے سیمینار ہال میں کرسیاں لگا دی گئی تھیں۔  ایک صف اساتذہ کی تھی۔ درمیان میں استاد اعظم جلوہ فگن تھے۔  سامنے کی کرسی پر سکینہ بھیگی بلّی کی طرح بیٹھی تھی جیسے مقتل پہنچ گئی ہو اور اب فرماں روا حکم صادر کریں گے۔  سکینہ کے پیچھے بھی کرسیوں کی قطار تھی جن پر طلبا براجمان تھے۔  ان سے الگ طالبات کی قطار تھی۔

استاد اعظم کے ہاتھ میں اسپائرل بائنڈنگ سے مزیں تھیسس کا نسخہ تھا جسے الٹ پلٹ کر وہ اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے قربانی سے پہلے بکرے کے دانت دیکھے جاتے ہیں۔

 ”آپ نے ایسے موضوع کا انتخاب کیوں کیا؟ نفسیاتی کہانیاں۔۔۔ ؟ ہر کہانی نفسیاتی ہوتی ہے۔ “

 ”سر کچھ انسانی رویّے اتنے پر اسرار ہوتے ہیں کہ انہیں سمجھنے کے لیے ان نظریات اور افکار سے مدد لینی ہوگی جو ماہر نفسیات نے وضع کیے ہیں۔ “

 ”اچھا۔۔۔ ؟ کس کس کو پڑھا آپ نے۔۔۔ ؟ ماہرین کا نام تو لیجیے۔ “

سکینہ نے گھبراہٹ سی محسوس کی۔

 ” بتائیے۔۔۔ فرائڈ کا کارنامہ کیا ہے؟ “

 ” لا شعور کی بازیافت۔ “

یونگ۔۔۔ ؟ ”

 ” اجتماعی شعور۔۔۔ آرکی ٹائپ کی دریافت اسی نے کی۔ “

استاد اعظم نے پہلو بدلا۔ پھر اچانک تھیسس کا ایک ورق پلٹتے ہوئے بولے۔

 ” املا کی بہت غلطیاں ہیں آپ کے یہاں۔ “

 ” ٹائپنگ مسٹیک ہے سر۔ “

 ” یہ کیا جواب ہوا؟ سدھارنے کے لیے میرے پاس لائی ہیں؟ “

سکینہ چپ رہی۔

استاد اعظم نے کچھ اور ورق پلٹے۔

 ” یہ کیا۔۔۔ ؟ اسی طرح فہرست سازی کی جاتی ہے؟ صرف کتابوں کا نام لکھا ہے۔  سن اشاعت بھی نہیں لکھا۔ پبلشر کا نام بھی نہیں ہے۔  یہ بہت غلط بات ہے۔۔۔ بہت غلط بات

 ” لیکن بچی نے محنت تو کی ہے۔ “ پروفیسر ہاشمی نے مداخلت کی۔

استاد اعظم مسکرائے۔  ”محنت تو سبھی کرتے ہیں۔ “

لیکن ایک بات ہے۔  تحریر اوریجنل لگتی ہے۔ ا ستاد اعظم اسی طرح مسکراتے ہوئے بولے۔  ”

ابو پٹّی نے جھک کر آہستہ سے کہا، ”لنچ کا بندوبست الکریم میں ہے۔ “

الکریم میں تیس آدمیوں کی جگہ مخصوص تھی۔ زربہار پروفیسر اعجاز سے چپکی نظر آ رہی تھی۔ وہ جدھر جاتے ادھر جاتی۔ وہ بیٹھے تو بغل میں بیٹھی۔ وہ اٹھے اور استاد اعظم کی پاس والی کرسی پر بیٹھیے تو وہاں بھی چپک گئی لیکن سکینہ وہاب کھڑی رہی۔ کوئی اسے بیٹھنے کے لیے نہیں کہہ رہا تھا۔ ثاقب نے کہا۔

 ” آؤ بیٹھو۔ “

 ”میں کیسے بیٹھ سکتی ہوں؟ میں میزبان ہوں۔ “

 ” تم احمق ہو۔ “ ثاقب کو غصہ آ گیا۔

موذن کی لڑکی۔۔۔  غریب۔۔۔  بدصورت۔۔۔ تم ملازمہ کی طرح کونے میں کھڑی رہوگی۔ ا ساتذہ برآت لے کر آئے ہیں۔  تم جہیز کی رقم ادا کروگی۔۔۔ پچاس ہزار۔۔۔ !

ثاقب بھنّاتا ہوا ہوٹل سے باہر چلا گیا۔

لیکن موذن کی لڑکی کو ڈگری مل گئی۔ وہ اب ڈاکٹر سکینہ وہاب تھی۔

ثا قب نے اپنے مقالہ میں دوبارہ ترمیم کی۔ ورجینیا وؤلف کے ناول لائٹ ہاؤس کا اقتباس پیش کیا۔ پروفیسر اعجاز مطمئن نہیں تھے۔  انہوں نے عینی کے ناول ’میرے بھی صنم خانے‘ کی عبارت بھی کوٹ کی لیکن

چند اور مثالیں پیش کرنے کی ہدایت دی۔ ثاقب کو احساس ہوا کہ اس کا مقالہ مکمل نہیں ہوگا۔۔۔ ؟ اس کے ارد گرد کانٹے سے اُگ آئے ہیں۔۔۔  وہ انہیں صاف نہیں کر سکتا۔

لیکن ثاقب کو ایک نشتر اور لگا۔ یہ کم گہرا نہیں تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5