ایک مثالی لیڈر کیسا ہونا چاہیے؟


ایک شخص نے اندھا دھند ڈرائیونگ کرتے ہوئے گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھا دی، نتیجے میں چار بندے مر گئے، عدالت میں مقدمہ چلا تو اس سے جرح کے دوران پوچھا گیا کہ کیا چاروں افراد کی موت موقع پر ہی ہو گئی تھی تو اس نے جواب دیا کہ ’نہیں جناب والا، میں نے گاڑی سے اتر کر دیکھا تھا، دو لوگ تو موقع پر دم توڑ گئے تھے جبکہ باقی دو کا کہنا تھا کہ ان کی سانسیں چل رہی ہیں‘ ۔ ’پھر تم نے کیا کیا؟‘ وکیل استغاثہ نے پوچھا۔ ’جناب، میں نے ان دونوں پر دوبارہ گاڑی چڑھا کر انہیں مار دیا۔‘ اس شخص نے جواب دیا۔ ’کیوں؟‘ وکیل استغاثہ نے چلا کر پوچھا۔ ’اس لیے جناب کہ وہ دونوں سیاست دان تھے اور سیاست دان کی بات کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا، کیا پتا جھوٹ بول رہا ہو!‘ اس شخص نے اطمینان سے جواب دیا۔

سیاسی لیڈران کے بارے میں ایسے لطیفے پوری دنیا میں مشہور ہیں کیونکہ ان کے بارے میں یہ عام تاثر ہے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور اس کے بغیر ان کا کام نہیں چل نہیں سکتا۔ خیر، اس بات میں کچھ مبالغہ بھی ہے، زیادہ دور کیوں جائیں، بر صغیر کی مثال لے لیتے ہیں، یہاں کم ازکم دو ایسے ماڈل سیاستدان ہیں جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے تھے، محمد علی جناح اور موہن داس گاندھی۔ ممکن ہے کچھ دوستوں کو گاندھی جی کے نام پر اعتراض ہو کہ میں نے جناح صاحب کے ساتھ ان کا نام کیسے لکھ دیا تو ان کی تسلی کے لیے فقرہ تبدیل کر کے یوں لکھ دیتے ہیں کہ جناح صاحب سچے تھے اور گاندھی جی بھی کوئی ایسے جھوٹے نہیں تھے۔ اب شاید کام چل جائے گا!

آج کا مقدمہ یہ ہے کہ ایک مثالی لیڈر کو کیسا ہونا چاہیے؟ اس سوال کا فوری جواب جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک مثالی لیڈر کو سچا، کھرا، دیانت دار، غیرت مند اور سادگی پسند وغیرہ ہونا چاہیے مگر پھر سوال پیدا ہو گا کہ کیا یہ اوصاف کافی ہیں؟ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کیا یہ اوصاف ضروری بھی ہیں؟ کیا ایران کے احمدی نژاد میں یہ تمام خوبیاں نہیں تھیں؟ موصوف سادہ لباس پہنتے تھے، غیرت مند اور بہادر بھی تھے لیکن ان کے دور میں ایران کا جو حال ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ اور اس سے بھی بڑی مثال تو اپنے ملا عمر کی ہے، ایسی کون سی شخصی خوبی تھی جو ان میں نہیں تھی، نیک، پارسا، سچا اور ایماندار لیڈر تھا، اور غیرت مند تو ایسا تھا کہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجوا دی مگر اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہ کیا۔ کیا ہمیں ایسے لیڈر چاہئیں؟ اگر ایسے لیڈر چاہئیں تو یہ بحث یہیں سمیٹ دینی چاہیے۔

سوال یہ نہیں ہے کہ لیڈر میں کون سی شخصی خوبیاں ہونی چاہئیں، سوال یہ ہے کہ ایک مثالی لیڈر کو کس قسم کی سیاسی اور اخلاقی اقدار کا علمبردار ہونا چاہیے؟ پہلے ہم یہ طے کرلیتے ہیں کہ کسی لیڈر میں ممکنہ سیاسی اور اخلاقی اقدار کیا ہو سکتی ہیں۔ مثلاً کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کا آئیڈیل لیڈر جمہوریت پسند ہو، آزادی اظہار کا علمبردار ہو، عورتوں کی آزادی کا حامی ہو، فیمینسٹ ہو، باہمی رواداری اور انسانی مساوات کا قائل ہو، شخصی آزادیوں کی حمایت کرتا ہو، آزاد خیال ہو، اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہو وغیرہ۔ دوسری طرف کسی شخص کی یہ رائے بھی ہو سکتی ہے کہ ایک مثالی لیڈر کو سخت گیر ہونا چاہیے، وہ معاشرے میں بے جا آزادی دینے کا حامی نہ ہو، عورتوں کو آزادی کے خلاف ہو، اقلیتوں کو مخصوص قانون کے مطابق ڈیل کرنے کا فلسفہ رکھتا ہو، رجعت پسند ہو وغیرہ۔

 یہ دو متضاد خیالات کے لوگ اپنی اپنی رائے رکھنے میں آزاد ہیں اور ظاہر ہے کہ ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ جب انہیں ووٹ ڈالنے کا موقع دیا جائے گا تو یہ دونوں اشخاص اس لیڈر کے حق میں ووٹ ڈالیں گے جس کے نظریات اور اعمال ویسے ہوں گے جیسے ان کے آئیڈیل لیڈر میں ہونے چاہئیں، یہ ممکن نہیں کہ وہ شخص جو جمہوریت اور شخصی آزادیوں اور فیمینزم کا حامی ہو کسی ایسے شخص کو ووٹ ڈال دے جو عورتوں کو گھروں میں قید کرنے کا حکم دے یا دوسری طرف وہ شخص جو رجعت پسندانہ خیالات رکھتا ہو کسی ایسے شخص کو ووٹ ڈال دے جو عورتوں کی اس آزادی کا قائل جو صرف ماڈرن یورپی ممالک میں ہی نظر آتی ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اکثر لوگ ہمیں ان لیڈران کی حمایت بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو ان کے نظریات اور افکار کی کسوٹی پر بظاہر پورا نہیں اتر رہے ہوتے، یہ تضاد عام ہے، آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ لوگوں نے اپنے دل و دماغ میں ایک آئیڈیل لیڈر کا مبہم سا خاکہ بنایا ہوتا ہے، یہ خاکہ اتنا واضح نہیں ہوتا کہ اسے ان سیاسی یا اخلاقی اقدار کے پیمانے پر پرکھا جا سکے، یہ خاکہ اس لیڈر کی شخصی خوبیوں اور ان اقدار کا ایک ملغوبہ سا ہوتا ہے جن کا وہ پرچار کرتا رہتا ہے، لوگ عموماً اس مبہم سے خاکے کو ذہن میں رکھ کر اپنے لیڈر کو ووٹ ڈال دیتے ہیں چاہے اس میں آئیڈیل لیڈر کی تمام خوبیاں موجود نہ بھی ہوں۔

دوسری وجہ اس تضاد کی یہ ہے کہ سیاست رومانس کا نام ہے، اور رومانس یعنی عشق میں دماغ سے ایک حد تک کام لیا جاتا ہے اس کے بعد دل ہے جو حتمی فیصلہ کرتا ہے، لہذا ووٹ ڈالتے وقت یا کسی لیڈر کی حمایت کرتے وقت لوگ زیادہ گہرائی میں جا کر پڑتال نہیں کرتے کیونکہ اس سے ان کے رومانس کا بت چکنا چور ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور یہ کوئی نہیں چاہتا۔ کسی عاشق کو اگر کوئی غیر آ کر خبر دے کہ اس کی محبوبہ کا کردار ٹھیک نہیں اور کل وہ محلے کے کسی لڑکے کے ساتھ دیکھی گئی تھی تو زیادہ امکان اس بات کا ہو گا کہ عاشق خبر لانے والے سے قطع تعلق کر لے گا۔ ’رات کے وقت مے پیے ساتھ رقیب کو لیے، آئے وہ یاں خدا کرے پر نہ کرے خدا کہ یوں۔ ‘

یہ دونوں وجوہات اپنی جگہ ٹھوس ہیں مگر ان کی آڑ میں دانشور خواتین و حضرات پناہ نہیں لے سکتے، انہیں یہ رعایتیں نہیں دی جا سکتیں جو عام ووٹر کو میسر ہیں کیونکہ ان کا کام لیڈر کے نظریات اور اس کی اعلان کردہ اقدار کی پڑتال کرنا ہے، اس ضمن میں انہیں رومانس کی اجازت بھی نہیں، ہاں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ عملی سیاست اور مثالیت پسندی میں فرق ہوتا ہے لہذا اس فرق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دانشوروں کو آخری تجزیے میں اس بات کی چھوٹ ہونی چاہیے کہ وہ اپنا وزن اس ’مثالی‘ لیڈر کے پلڑے میں ڈال دیں جو ان کے نظریات سے زیادہ مطابقت رکھتا ہو۔ تاہم ہمارے ہاں یہ عجیب رجحان ہو گیا ہے کہ دانشور بھی پروپیگنڈے سے نہ صرف متاثر نظر آتے ہیں بلکہ اس کی تعریف بھی کرتے ہیں کہ فلاں شخص نے ایسا پروپیگنڈا کیا، جھوٹا یا سچا فرق نہیں پڑتا، کہ مخالفین کے چھکے چھڑا دیے، یہ بات عام ووٹر کہے تو کہے مگر کسی دانشور کے قلم سے یہ بات مناسب نہیں لگتی۔ اس کا کام حقائق کو پرکھنا اور درست بات کی حمایت کرنا ہے۔

 بے شک ہر شخص اپنے نظریات اور خیالات رکھنے میں آزاد ہے، یہ افکار لبرل بھی ہوسکتے ہیں اور قدامت پسند بھی، لیکن کوئی شخص اگر لبرل نظریات رکھتے ہوئے قدامت پسند لیڈر کا حامی ہو یا قدامت پسندانہ خیالات رکھتے ہوئے ایک لبرل لیڈر کی حمایت کرے تو پھر ایسے شخص کا تجزیہ درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ تمام باتیں نقار خانے میں طوطی کی آواز ہیں، ہم جس دور میں جی رہے ہیں اسے پاپولزم کا دور کہا جا سکتا ہے، اس دور میں پاپولسٹ لیڈر کو ہی مثالی سمجھ لیا گیا ہے جبکہ پاپولسٹ لیڈر کی نشانیاں ایسی ہوتی ہیں کہ دور سے ہی پہچان لیا جاتا ہے۔ یہ نشانیاں کیا ہیں، ان کا ذکر پھر کبھی!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments