وادئ کُمراٹ میں سیاحت: ’یہاں تو پانی کا شور بھی سکون دیتا ہے‘


ٹراؤٹ کا مزہ

ممکن ہے کہ شہروں میں آپ کئی بار ٹراؤٹ مچھلی کے نام پر بےوقوف بن چکے ہوں لیکن یہاں آپ وہ بھی کھا سکتے ہیں اور اس میں بھی آپ کے پاس چوائس ہے کہ وہ ’فش پونڈ‘ کی ہو یا دریا کی۔

ٹراؤٹ کے شکار پر تو پاکستان بھر میں پابندی ہے لیکن یہاں ان مچھلیوں کی فارمنگ ہوتی ہے۔ سفر کی تھکان دور کرنے سے قبل ہم نے بھی ٹراؤٹ کا مزہ اٹھایا اور اگلی صبح وادی کی سیر کا منصوبہ بنا کر سو گئے۔

Kumrat

کیمپنگ کے دوران کسی جانور سے سامنا ہونے کے واقعات کم ہیں لیکن اِس کا امکان ضرور ہے لہٰذا احتیاطاً لوگ کلہاڑی ساتھ رکھتے ہیں

’جیپ نہیں تو جینا نہیں‘

وادی کمراٹ میں اگر آپ کے پاس فور بائی فور جیپ نہیں ہے تو آپ آگے کا سفر کسی بھی قیمت پر طے نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اگر آپ کو ایسی صورتحال درپیش ہے آپ کو مقامی افراد کی مدد لینی ہو گی جو کہ جیب ہلکی کرنے میں آپ کی مدد کو ہر دم تیار دکھائی دیتے ہیں۔

جیپیں کرائے پر مل جاتی ہیں۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ چشمہ تک کرایہ ہے سات ہزار جبکہ دوجنگا جانا ہے تو دس ہزار دینے ہوں گے۔ کرائے سے واضح ہے کہ دوجنگا سب سے زیادہ طوالت پر واقع مقام ہے۔

جی ہاں یہ آخری مقام ہے جہاں تک جیپ رو دھو کر چلی جاتی ہے لیکن یہاں سے آگے اُس کی بھی حد ختم ہوجاتی ہے اور آپ کو پیدل سفر (ہائیکنگ) کرنا پڑتا ہے۔ ہوٹل سے دوجنگا کا فاصلہ صرف 24 کلومیٹر ہے لیکن یہ طے ہوتا ہے کم از کم ساڑھے تین گھنٹے میں اور وجہ وہی کہ اس راستے میں پتھر ہی پتھر ہیں کوئی کہکشاں نہیں۔

راؤشی ڈب

وادی کمراٹ کا سفر شروع کرنے کے بعد سب سے پہلا مقام راؤشی ڈب آتا ہے۔ مقامی افراد اسے ایسا میدان کہتے ہیں جو کبھی پھولوں سے بھرا ہوا تھا لیکن اب یہاں آلو کاشت ہوتا ہے جس کی دو وجوہات ہیں ایک معیشت اور دوسرا خوف۔

Kumrat

کمراٹ میں لوگ پینے کے لیے چشموں کے پانی اور دیگر کاموں کے لیے دریا کے پانی پر انحصار کرتے ہیں

یہاں کے رہائشی شوکت علی کے مطابق ’یہاں نواز شریف آئے تھے جب وزیرِاعظم تھے، اُنھوں نے یہ جگہ حکومت کو دینے کو کہا جسے مقامی کوہستانیوں نے منع کر دیا کیونکہ وہ یہاں کی زمین کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔ اِس کے بعد عمران خان بھی ہیلی کاپٹر پر آئے اور اُنھوں نے اِسے نیشنل پارک بنانے کی خواہش ظاہر کی جسے دوبارہ قوم کے لوگوں نے مسترد کر دیا۔’

ان کے مطابق اِس کے بعد پھولوں کی جگہ گلابی آلو کاشت ہونے لگے تاکہ حکومت زرعی زمین حاصل کرنے کے بارے میں نہ سوچے۔

کُمراٹ آبشار

راؤشی ڈب سے آگے چلیں تو کُمراٹ آبشار آتا ہے۔ آبشار تک پہنچنے کے لیے جیپ سے اُتر کر 20 منٹ تک پیدل چلنا پڑتا ہے۔

بلند پہاڑ سے گرنے والا یہ آبشار سارا سال جاری رہتا ہے سوائے موسمِ سرما میں ان چند دنوں کے جب یہاں شدید سردی اور برفباری اِسے بھی جما دیتی ہے۔

سردی کی بات تو چھوڑیں گرمی کے موسم میں بھی اِس کا پانی انتہائی ٹھنڈا تھا اور جولائی کی گرمی میں بھی اِس سے نہایا نہیں جا سکتا۔

Kumrat

گلابی رنگ کا آلو ہلکا سا نمکین ہوتا ہے اور اِس پر لگا چھلکا پانی سے دھونے پر ااتر جاتا ہے

توبوٹ ڈب

کچھ آگے بڑھیں تو ایک اور پیالہ نما میدان آپ کا استقبال کرتا ہے اس کا نام توبوٹ ڈب ہے۔

یہاں بھی کاشت کاری ہوتی ہے تاہم آلو کے علاوہ مٹر، شلجم، گوبھی اور سلاد وغیرہ بھی اُگائے جاتے ہیں لیکن اس کاشت کاری کا مقصد مقامی افراد کا اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ بھرنا ہے۔

یہیں ایک کاشت کار نے ہمیں آلو دیے جن کے پکوڑے آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد کالا چشمہ کے مقام پر ہم نے ایک دکاندار سے بنوا کر کھائے اور تمام شریکِ سفر متفق نظر آئے کہ اِس سے زیادہ لذیذ آلو کے پکوڑے انھوں نے کبھی نہیں کھائے۔

کالا چشمہ

جہاں ہم پکوڑے کھانے کے لیے رکے اسے کالا چشمہ کہا جاتا ہے۔ اس چشمے کا پانی انتہائی صاف شفاف تھا مگر نجانے کیوں کسی نے اِس کا نام کالا چشمہ رکھ دیا ہے۔

غالباً جہاں سے یہ نکلتا ہے وہاں کائی جمع ہوجانے کے باعث لوگ اِسے کالا چشمہ کہنے لگے۔

اِس چشمے کا پانی اتنا یخ ہے کہ ایک منٹ بھی ہاتھ اندر رکھنا محال ہے۔ مقامی افراد اِس پانی کو بطور دوا بھی پیتے ہیں۔ اُن کے بقول اِس سے فرحت اور تازگی ملتی ہے اور جسم میں تراوٹ آتی ہے جو بیماریوں کا راستہ روکتی ہے۔

Kumrat

کالا چشمہ کے مقام پر دریا کا پاٹ چوڑا ہو جاتا ہے۔ یہاں سے آگے دریا سے گزر کر ہی جانا پڑتا ہے

ہم نے کالا چشمہ پر پکوڑے کھا لیے تاہم آپ یہ کوشش ضرور کریں کہ جب یہاں سے آگے کا سفر شروع کریں تو پیٹ خالی ہو کیونکہ راستے میں موجود پتھروں کا حُجم بڑا ہونا شروع ہو جاتا ہے جن پر جب جیپ چلتی ہے تو آپ اُس کے اندر بیٹھے کچھ گھڑیال کے پینڈولم کی سی حرکت کرنے لگتے ہیں۔

اس تکلیف سے نکلنے کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ توجہ برائے نام سڑک کے اطراف کے خوبصورت مناظر پر مرکوز کر لیں جو آپ کو بڑی سے بڑی تکلیف بھلانے کے لیے کافی تھے۔

یہیں ہمیں ماہم ملیں جو عمان سے اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان کی سیر پر آئی تھیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ ‘راستہ بہت پتھریلا ہے اور راستے میں میرے پیٹ میں بہت درد ہوا۔ لیکن جب میں یہاں آئی تو میں نے اتنے پیارے پیارے پہاڑ اور سبزہ دیکھا تو میری طبیعت فریش ہو گئی۔’

بچاڑتن

کالا چشمہ سے آگے چلیں تو آپ کا سفری امتحان مزید سخت ہو جاتا ہے۔

پہاڑی پتھروں کی تعداد اور اُن کا حُجم مزید بڑھ جاتا ہے اور آپ تھک کر واپسی کے بارے میں سوچنا بھی شروع کر دیتے ہیں لیکن مقامی لوگ آپ کو یہ کہہ کر آگے بڑھنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ ‘ابھی تو آپ نے کُمراٹ دیکھا ہی نہیں۔’

ابھی تک تو ہم دریا کے ایک جانب سفر کر رہے تھے لیکن اب باری تھی دریا کے دوسری جانب جانے کی۔

Kumrat

کمراٹ میں کسی بھی حادثے کی صورت میں صرف مقامی افراد پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یہاں ہنگامی امداد کا پہنچنا ناممکن ہے

یہاں ایک چھوٹا گاؤں بچاڑتن اور ایک خوبصورت چراہ گاہ یا بانڈہ بھی ہے جہاں اب بھی پھول ہیں۔

شاید وجہ یہ ہے کہ اس مقام تک جانے راستہ صرف پیدل طے کیا جا سکتا ہے اور اس سفر کے لیے بھی بہت کم سیاح ہمت کر پاتے ہیں۔

دراصل دریا عبور کرنے کے لیے مقامی افراد نے ایک بڑا درخت کاٹ کر دریا کے اوپر رکھ دیا ہے۔ مقامی لوگ تو بےدھڑک اس ’پل‘ پر سے گزر جاتے ہیں لیکن ہم شہریوں کے لیے یہ پُل صراط ثابت ہوا۔

دوجنگا

بچاڑتن سے آگے دوجنگا تک صرف آٹھ کلومیٹر کا سفر باقی تھا لیکن یہ تکلیف دہ حد تک دشوار ہے۔ کئی دشوار اور تنگ راستے ہیں۔ ہماری جیپ بھی کئی مقامات پر پتھروں سے ٹکراتے ٹکراتے بچی اور انھی پتھروں پر چل کر بالاخر ہم دوجنگا پہنچ گئے۔

دوجنگا دراصل تین مختلف وادیوں کا سنگم ہے اور یہاں سے آگے گاڑیاں نہیں جا سکتیں۔ مشرق کی جانب کونڈل شیئی بانڈہ، مغرب کی جانب کاشکُن بانڈہ اور شازور بانڈہ موجود ہیں جہاں پیدل جایا جا سکتا ہے۔

Kumrat

دشوار راستوں پر اکثر مقامات ایسے ہیں جہاں سے دو گاڑیاں ایک ساتھ نہیں گزر سکیں

دوجنگا میں بوندا باندی کے ساتھ تیز ہوا نے استقبال کیا۔ پھولوں کی خوشبو اور آلودگی سے پاک آب و ہوا نے راستے کی تھکن اُتار دی۔ یہ مناظر دیکھ کر ہمارے ساتھی موسی یاوری اپنا ڈرون کاپٹر اڑا کر علاقے کی عکس بندی کرنے لگے اور ڈرائیور اور میں کچھ سستانے لگے۔

دوجنگا ایسا علاقہ ہے جہاں رہائش کا کوئی انتظام نہیں اور آپ یہاں رات بسر نہیں کر سکتے مگر یہاں کے مناظر ایسے تھے کہ پوری ٹیم میں کسی کا بھی دل واپس جانے کو نہیں چاہ رہا تھا۔

ساتھ ہی ساتھ یہ خیال بھی آ رہا تھا کہ ہم پتھروں پر چل کر آ تو گئے ہیں لیکن واپسی کے راستے کے لیے کہیں سے کوئی کہکشاں مل جائے کیونکہ اُنھی پتھروں پر چل کر واپس جانے کے خیال سے روح فنا ہو رہی تھی۔

یہ خیالات جب ذہن میں گردش کر رہے تھے تو ہمارے مقامی گائیڈ نے پوچھا ‘آپ آگے شازور بانڈہ نہیں جائیں گے؟’ جواب آیا ‘اب ہماری بس ہو گئی ہے۔ واپس جائیں گے۔’

ہمارے جواب پر ان کا جواب در جواب وہی تھا ‘ابھی تو آپ نے کُمراٹ دیکھا ہی نہیں، اصل حسن تو وہاں ہے’۔

مزید حسین نظاروں کے خیال اور پانچ گھنٹے پیدل سفر کی تھکن کے مقابلے میں تھکن غالب رہی اور بادل نخواستہ واپسی کا سفر شروع ہوا۔

رباب

جتنی دیر میں درخت کٹ رہا تھا ہم دریا کے کنارے بیٹھے چند نوجوانوں کے رباب سے لطف اندوز ہونے لگے

واپسی پر ابھی کچھ دور ہی چلے تھے کہ راستے میں چند جیپیں کھڑی اور کچھ لوگ چلتے پھرتے دکھائی دیے۔ معلوم کیا تو پتا چلا کہ پتھریلی گزرگاہ جسے وہاں کے مقامی لوگ سڑک کہتے ہیں اور جس سے ہم گزر کر آئے تھے، ایک درخت گرنے سے بند ہو گئی ہے۔

یہاں کوئی انتظامیہ تو ہے نہیں لہٰذا ہم سے پہلے پہنچنے والی گاڑیوں کے مسافروں نے مقامی افراد سے وہ درخت کاٹ کر راستہ بنانے کی بات کی تھی اور اب ہمیں بھی اُس چار ہزار روپے کے معاوضے میں حصہ ڈالنا تھا جو اس محنت کے عوض طے ہوا تھا۔

جتنی دیر میں درخت کٹ رہا تھا ہم دریا کنارے بیٹھے چند نوجوانوں کے رباب سے لطف اندوز ہونے لگے اور یہاں دیکھتے ہی دیکھتے سماں بندھ گیا۔ درخت کٹا تو راستہ ملا اور سفر دوبارہ شروع ہوا۔

واپس ہوٹل پہنچنے تک رات کے دس بج چکے تھے۔ کھانے کے بعد نیند نے صبح دس بجے پیچھا چھوڑا۔ جب ہوٹل کے مینیجر سے دیگر مقامات کے بارے میں معلوم کیا تو اُنھوں نے باڈگوئی ٹاپ اور جہاز بانڈہ کا نام تجویز کیا۔

یہ مقامات وادی کمراٹ کا حصہ نہیں لیکن اگر آپ یہاں آئیں تو اِنھیں دیکھنا ایسا ہی ہے جیسے مری جانے والے ایوبیہ ضرور جاتے ہیں۔ بس مسئلہ یہ ہے اِن دونوں مقامات کا سفر بھی دشوار گزار ہے۔

اُس ایڈونچر کے لیے مزید وقت درکار تھا جو پمارے پاس ختم ہو رہا تھا اِس لیے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ واپسی کے اس سفر میں موبائل سروس، انٹرنیٹ، ہموار سڑکیں سب کچھ ملتا گیا لیکن وہ قدرتی ماحول نہیں جو ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔

Kumrat

درخت گرنے کے باعث گاڑیوں کا راستہ بند ہو گیا تو سیاحوں نے مقامی افراد کو پیسے دے کر راستہ صاف کروایا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp