وادئ کُمراٹ میں سیاحت: ’یہاں تو پانی کا شور بھی سکون دیتا ہے‘
لاہور کو پیرس یا ملک کو سوئٹزرلینڈ بنانے کے دعوے تو آپ نے سیاستدانوں کے منہ سے سنے ہوں گے لیکن جب سوئس سیاح خود پاکستان کے کسی مقام کا تقابل اپنے ملک کے حسین نظاروں سے کرتے دکھائی دیں تو وہاں کا دورہ تو بنتا ہی ہے۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے تقریباً 384 کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع دیر بالا کی وادی کُمراٹ کو یہاں کے مقامی افراد ’پاکستان کا سوئٹزرلینڈ‘ کہتے ہیں اور شاید سچ کہتے ہیں کیونکہ اس کی گواہی دیتے ہمیں کیستوف دھو بھی ملے جو اپنی ساتھی فرینی کوپلو کے ہمراہ وہاں موجود تھے۔
فرینی 30 برس بعد سوئٹزرلینڈ سے پاکستان آئی تھیں اور اب ان کی منزل کمراٹ تھی جہاں کے نظارے انھیں ہزاروں میل دور سے کھینچ لائے تھے۔
دنیا کے جھمیلوں سے دور قدرتی ماحول میں چند دن گزارنے کا ارادہ ہو اور آپ کی نگاہِ انتخاب وادی کُمراٹ پر جا رکے تو ذہن میں رکھیں کہ آپ کو چند مشکلات کا سامنا تو رہے گا لیکن ان سے گزر کر جب آپ منزل پر پہنچیں گے تو یہ وادی قدرتی نظاروں کے بارے میں آپ کے ذہن میں موجود تصور سے بھی زیادہ حسین نکل سکتی ہے۔
بادلوں سے گھرے برف پوش پہاڑوں کے درمیان واقع اس وادی میں کئی سرسبز بانڈے (چراہ گاہیں) ہیں۔
جہاں سے بھی گزریں پتھروں سے ٹکراتا دریائے پنجکوڑہ کا پانی آپ کو ہلکی پھلکی موسیقی کی مانند محظوظ کرتا ہے اور دیودار کے جنگلات سے اٹھنے والی مہک آپ کو اسی قدرتی حسن کی یاد دلاتی ہے جس کا تصور کر کے آپ نے یہاں آنے کا ارادہ کیا تھا۔
یہاں ہمیں گورنمنٹ ڈگری کالج نوشہرہ کی استاد پروفیسر آمنہ ملیں جو ہماری طرح پہلی بار کُمراٹ آئی تھیں۔
اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘یہاں کی سب سے مزے کی بات اونچے اونچے پہاڑ اور ساتھ میں پانی کا شور ہے جو عجیب سا سکون دیتا ہے۔ ہے تو یہ شور لیکن آپ کو بہت زیادہ ذہنی سکون دیتا ہے۔’
ذہنی سکون تو ملتا ہے لیکن یہاں پہنچنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وادی کُمراٹ بھی ملک کے دیگر مشہور سیاحتی مقامات میں شامل ہوتی لیکن ایسا نہیں ہے۔
دشوار گزار سفر
اور اُس کی وجوہات وہی مشکلات ہیں جن کا ذکر ہم آغاز میں کر چکے ہیں۔ اِن میں انتہائی پتھریلے راستوں پر سفر سرِفہرست ہے۔ اُس کے بعد باری آتی ہے انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی عدم دستیابی کی اور پھر یہاں تک رسائی کے لیے درکار پیدل سفر بھی آسان نہیں۔
اسلام آباد سے وادی کُمراٹ کا فاصلہ تو 384 کلومیٹر ہے یعنی اسلام سے لاہور کے فاصلے سے کچھ کم لیکن یہ طے ہوتا ہے کم از کم 11 گھنٹے میں۔
دیر بالا تک کا سفر آسان اور پکی سڑک پر تھا سو خاصا جلدی طے ہو گیا لیکن اصل امتحان تو یہیں سے شروع ہوا۔ اُس کے بعد آنے والے علاقے شیرینگل میں موبائل سروس ساتھ چھوڑ گئی اور مزید آگے چل کر آنے والے گاؤں تھل میں سڑک بھی جاتی رہی۔
اس مقام سے کُمراٹ تک کا فاصلہ کہنے کو تو صرف 12 کلومیٹر ہے لیکن اسے طے کرنے میں مزید ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔
وادی کُمراٹ میں داخل ہوں تو پہاڑوں کے دامن میں دریائے پنجکوڑہ کی شاخ دریائے کمراٹ بہتی دکھائی دیتی ہے اور دوسری جانب چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں اور پھر وہ قدرتی نظاروں سے مالامال مقامات جہاں صرف وہی سیاح آتے ہیں جنھیں قدرتی حُسن دیکھنا ہو۔
رہائش کا خرچ
یہاں آپ کو حال ہی میں تعمیر ہونے والے چند ہوٹل بھی دکھائی دیتے ہیں جن کے مقامی مالکان سیاحوں کو بنیادی ضروریاتِ زندگی مہیا کرنے کی کوشش کرتے دکھائی تو دیتے ہیں لیکن اس کوشش میں کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
ہمارا قیام یہاں ایک ایسے ہوٹل میں رہا جہاں آپ کے کمرے سے واش روم متصل ہونا ہی اُسے ’سپر ڈیلکس روم’ بنا دیتا اور کرائے کو بڑھا دیتا ہے۔
وادی کُمراٹ کے آغاز میں واقع اس ہوٹل میں ایک خاص بات تھی اور وہ یہ کہ شرینگل کے بعد صرف یہاں ہی موبائل سگنلز آ رہے تھے اور وہ بھی صرف موبی لنک کے۔ یہ کہنے کو تو بڑی بات نہیں لیکن اگر آپ جانتے ہوں کہ اس سے آگے ان کا بھی امکان نہیں تو یہاں سے اپنے رشتہ داروں کو خیر خیریت کی اطلاع دینے میں کوئی حرج نہیں۔
یہاں عموماً ہوٹل کے کمرے سہولتوں کے حساب سے دو سے چھ ہزار روپے فی رات پر دستیاب ہیں۔ تاہم یہ اس علاقے میں قیام کا واحد انتظام نہیں۔ ایک سے دو ہزار روپے کی ادائیگی پر کیمپنگ کی سہولت مل جاتی ہے جبکہ لکڑی اور ٹین سے بنی جھونپڑیاں پندرہ سو سے دو ہزار روپے کے عوض مل جاتی ہیں۔
اگر آپ پوری طرح قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں اور آپ کے پاس کیمپنگ کے لیے اپنا انتظام ہے تو درختوں کے درمیان جہاں جگہ ملے کیمپ لگا لیں اِس کا کوئی معاوضہ نہیں لیکن خیال رہے کہ اس صورت میں رفع حاجت کھلی جگہ پر کرنی ہوگی۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).