وادئ کُمراٹ میں سیاحت: ’یہاں تو پانی کا شور بھی سکون دیتا ہے‘
مشکلات اور آسانیاں
وادی کمراٹ کے علاقے میں آسانی کے نام پر صرف دو چیزیں آپ کو ملیں گی۔ ایک خالص اور صحت مند خوراک اور دوسرا قدرتی ماحول۔ اِس کے علاوہ مشکلات کے نام پر بازار بھرا پڑا ہوگا۔ لیکن وادی کُمراٹ کے قدرتی حُسن کے آگے یہ مشکلات سہی جا سکتی ہیں۔
یہاں سڑک نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ یہاں کا رُخ نہیں کرتے۔ پاکستان میں زیادہ تر لوگوں کے پاس جو گاڑیاں ہیں وہ یہاں چل نہیں پاتیں۔ یہاں جیپ لازمی ہے اِس لیے یہاں آنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہو پاتی۔ راستہ تکلیف دہ ہے اور پھر پیدل سفر بھی کرنا پڑتا ہے۔
یہاں کوئی انتظامیہ نہیں ہے۔ لہٰذا جو کچرا سیاح پھینکتے ہیں اُسے اٹھانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ سیاحوں کو اِس بات کی تلقین کرنے والا کوئی نہیں کہ وہ اپنا کچرا ادھر اُدھر نہ پھینکیں۔
بارشوں میں یا کسی قدرتی آفت کے نتیجے میں کوئی راستے میں کہیں پھنس جائے تو اُسے صرف مقامی افراد کی مدد ملتی ہے جو یقیناً بہت تعاون کرتے ہیں لیکن اُنھیں وہاں سے نکالنے کے لیے سرکاری سطح پر کوئی انتظام نہیں۔
اگر آپ کسی مشکل میں پھنس جائیں تو اُس کی اطلاع کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ یہاں موبائل سروس یا انٹرنیٹ نام کی کوئی چیز نہیں۔ سیٹیلائٹ فون بھی گھنے جنگل کی وجہ سے صرف بالائی مقام پر کام کرتا ہے۔
سارے راستے میں بیت الخلا کا انتظام نہیں ہے جس کی اکثر ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ راستے میں روشنی کا بھی کوئی انتظام نہیں لہٰذا آپ کو سفر دن میں ختم کرنا ہوگا یا پھر روشنی کا بندوبست خود کرنا ہوگا۔
راستے میں کھانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ تو آپ کو راستے میں کھانے پینے کے لیے کچھ انتظام کرکے چلنا پڑے گا یا پھر کھانا واپسی پر آکر کھانا ہوگا۔
یہاں مقامی افراد سیاحوں سے کم بات کرتے ہیں اور وہ اردو کم ہی سمجھ پاتے ہیں۔ یہاں زیادہ تر لوگ پشتو یا کوہستانی بولتے ہیں، انگریزی کا تو سوال ہی نہیں۔
مقامی عورتیں نظر ہی نہیں آتیں اور اگر کوئی نظر آ بھی جائے تو سر سے گھٹنوں کالی چادر سے ڈھکی ہوتی ہیں، یہاں تک کہ آنکھیں بھی نظر نہیں آتیں۔ شاید یہی وجہ ہے خواتین سیاح یہاں آنے سے ہچکچاتی ہیں۔
یہاں لوگ کیمرے کو پسند نہیں کرتے اور اگر کسی آبادی کو پس منظر میں رکھ کر آپ کوئی تصویر لیں تو لوگ آپ کو منع کرتے ہیں کہ وہاں آبادی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں عکس بندی کے لیے اپنا ڈرون کاپٹر اُڑانے میں خاصی احتیاط کرنی پڑی۔
تاہم یہ علاقہ انتہائی پُرامن ہے اور مقامی افراد سیاحوں بالخصوص خواتین کی عزت اور حفاظت کرتے ہیں۔ جو خطرات عام طور پر شہری زندگی میں خواتین کو لاحق ہوتے ہیں وہ یہاں پر بہت کم ہیں۔
ہم نے سفر کے دوران کئی خواتین کو اکیلے سفر کرتے اور محظوظ ہوتے دیکھا۔ حفصہ جوہر اسلامیہ کالج پشاور سے کُمراٹ آئی تھیں اور اُن کے ساتھ ڈرائیور کے علاوہ کوئی مرد نہیں تھا۔
اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا ‘مجھے یہاں کے بارے میں سوشل میڈیا اور دوستوں سے معلوم ہوا۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ جگہ اتنی حسین ہوگی۔ یہاں قدرت کے جو حسین نظارے آپ دیکھیں گے وہ آپ کو کہیں نظر نہیں آئیں گے۔ آپ کو سمجھ نہیں آ رہی ہوتی آپ ایک وقت میں کہاں کہاں اور کیا کیا دیکھیں۔’
۔
- کیا آئی پی ایل میں ’بے رحمانہ‘ بلے بازی کرکٹ کو ہمیشہ کے لیے بدل رہی ہے؟ - 25/04/2024
- مریم نواز اور پنجاب پولیس کی وردی:’کیا وزیراعلیٰ بہاولنگر کے تھانے کا دورہ بھی کریں گی؟‘ - 25/04/2024
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں لاپتہ اہلخانہ کی تلاش: ’ہم اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ یہ چھوٹا سا معاملہ بن کر دب جائے‘ - 25/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).