ٹیٹوال کا کتا: کشمیری منٹو نے کشمیر کا دکھ کیسے لکھا؟


”ٹھہر۔ کہیں پاکستانی تو نہیں! “

سب ہنسنے لگے۔ سردار بنتا سنگھ نے آگے بڑھ کر کتے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور جمعدار ہرنام سنگھ سے کہا۔

”نہیں جمعدار صاحب، چپڑ جُھن جُھن ہندوستانی ہے۔ “

جمعدارہرنام سنگھ ہنسا اور کتے سے مخاطب ہوا۔

”نشانی دکھا اوئے؟ “

کتا دم ہلانے لگا۔ ہرنام سنگھ ذرا کھل کے ہنسا۔

”یہ کوئی نشانی نہیں۔ دم تو سارے کتے ہلاتے ہیں۔ “

بنتا سنگھ نے کتے کی لرزاں دم پکڑلی۔

”شرنارتھی ہے بے چارہ! “

جمعدار ہرنام سنگھ نے بسکٹ پھینکا جو کتے نے فوراً دبوچ لیا۔ ایک جوان نے اپنے بوٹ کی ایڑھی سے زمین کھودتے ہوئے کہا۔

”اب کتوں کو بھی یا تو ہندوستانی ہونا پڑے گا یا پاکستانی! “

جمعدار نے اپنے تھیلے سے ایک بسکٹ نکالا اور پھینکا۔

”پاکستانیوں کی طرح پاکستانی کتے بھی گولی سے اڑا دیے جائیں گے! “

ایک نے زور سے نعرہ بلند کیا۔

”ہندوستان زندہ باد! “

کتا جو بسکٹ اٹھانے کے لیے آگے بڑھا تھا ڈر کے پیچھے ہٹ گیا۔ اس کی دم ٹانگوں کے اندر گھس گئی۔ جمعدار ہرنام سنگھ ہنسا۔

”اپنے نعرے سے کیوں ڈرتا ہے چپڑجُھن جُھن۔ کھا۔ لے ایک اور لے۔ “

اس نے تھیلے سے ایک اور بسکٹ نکال کر اسے دیا۔ باتوں باتوں میں صبح ہو گئی۔ سورج ابھی نکلنے کا ارادہ ہی کررہا تھا کہ چار سو اجالا ہو گیا۔ جس طرح بٹن دبانے سے ایک دم بجلی کی روشنی ہوتی ہے۔ اسی طرح سورج کی شعاعیں دیکھتے ہی دیکھتے ہی اس پہاڑی علاقے میں پھیل گئی جس کا نام ٹیٹوال تھا۔ اس علاقے میں کافی دیر سے لڑائی جاری تھی۔ ایک ایک پہاڑی کے لیے درجنوں جوانوں کی جان جاتی تھی، پھر بھی قبضہ غیریقینی ہوتا تھا۔

آج یہ پہاڑی ان کے پاس ہے، کل دشمن کے پاس، پرسوں پھر ان کے قبضے میں اس سے دوسرے روز وہ پھر دوسروں کے پاس چلی جاتی تھی۔ صوبیدار ہرنام سنگھ نے دوربین لگا کر آس پاس کا جائزہ لیا۔ سامنے پہاڑی سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ چائے وغیرہ تیار ہورہی ہے ادھر بھی ناشتے کی فکر ہورہی تھی۔ آگ سلگائی جارہی تھی۔ ادھر والوں کو بھی یقیناً اِدھر سے دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا تھا۔ ناشتے پر سب جوانوں نے تھوڑا تھوڑا کتے کو دیا جس کو اس نے خوب پیٹ بھر کے کھایا۔ سب اس سے دلچسپی لے رہے تھے جیسے وہ اس کو اپنا دوست بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے آنے سے کافی چہل پہل ہو گئی تھی۔ ہر ایک اس کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد پچکار کر

”چپڑ جُھن جُھن“

کے نام سے پکارتا اور اسے پیار کرتا۔ شام کے قریب دوسری طرف پاکستانی مورچے میں صوبیدار ہمت خان اپنی بڑی بڑی مونچھوں کو جن سے بے شمار کہانیاں وابستہ تھیں، مروڑے دے کر ٹیٹوال کے نقشے کا بغور مطالعہ کررہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی وائرلیس آپریٹر بیٹھا تھا اور صوبیدار ہمت خاں کے لیے پلاٹون کمانڈر سے ہدایات وصول کررہا تھا۔ کچھ دور ایک پتھر سے ٹیک لگائے اور اپنی بندوق لیے بشیر ہولے ہولے گنگنا رہا تھا۔ ؂ چن کِتھے گوائی آئی رات وے۔ چن کتھے گوائی آئی بشیر نے مزے میں آکر ذرا اونچی آواز کی تو صوبیدار ہمت خان کی کڑک بلند ہوئی۔

”اوئے کہاں رہا ہے تو رات بھر؟ “

بشیر نے سوالیہ نظروں سے ہمت خان کو دیکھنا شروع کیا۔ جو بشیر کے بجائے کسی اور سے مخاطب تھا۔

”بتا اوئے۔ “

بشیر نے دیکھا۔ کچھ فاصلے پر وہ آوارہ کتا بیٹھا تھا جو کچھ دن ہوئے ان کے مورچے میں بن بلائے مہمان کی طرح آیا تھا اور وہیں ٹک گیا تھا۔ بشیر مسکرایا اور کتے سے مخاطب ہو کر بولا۔

”چن کتھے گوائی آئی رات وے۔ چن کتھے گوائی آئی؟ کتنے نے زور سے دم ہلانا شروع کردی جس سے پتھریلی زمین پر جھاڑوسی پھرنے لگی۔ صوبیدار ہمت خاں نے ایک کنکر اٹھا کر کتے کی طرف پھینکا۔

”سالے کو دم ہلانے کے سوا اور کچھ نہیں آتا! “

بشیر نے ایک دم کتے کی طرف غور سے دیکھا۔

”اس کی گردن میں کیا ہے؟ “

یہ کہہ کروہ اٹھا، مگر اس سے پہلے ایک اور جوان نے کتے کو پکڑ کر اس کی گردن میں بندھی ہوئی رسی اتاری۔ اس میں گتے کا ایک ٹکڑا پرویا ہوا تھا۔ جس پر کچھ لکھا تھا۔ صوبیدار ہمت خاں نے یہ ٹکڑا لیا اور اپنے جوانوں سے پوچھا۔

”لنڈے ہیں۔ جانتا ہے تم میں سے کوئی پڑھنا۔ “

بشیر نے آگے بڑھ کر گتے کا ٹکڑا لیا۔

”ہاں۔ کچھ کچھ پڑھ لیتا ہوں۔ “

اور اس نے بڑی مشکل سے حرف جوڑ جوڑ کر یہ پڑھا۔

”چپ۔ چپڑ۔ جُھن جُھن۔ چپڑ جُھن جُھن۔ یہ کیاہوا؟ “

صوبیدار ہمت خاں نے اپنی بڑی بڑی تاریخی مونچھوں کو زبردست مروڑا دیا۔

”کوڈورڈ ہو گا کوئی۔ “

پھر اس نے بشیر سے پوچھا۔

”کچھ اور لکھاہے بشیرے۔ “

بشیر نے جو حروف شناسی میں مشغول تھا۔ جواب دیا۔

”جی ہاں۔ یہ۔ ہند۔ ہند۔ ہندوستانی۔ یہ ہندوستانی کتا ہے! “

صوبیدار ہمت خاں نے سوچنا شروع کیا۔

”مطلب کیا ہوا اس کا؟ کیا پڑھا تھا تم نے۔ چپڑ؟ ؟ “

بشیر نے جواب دیا۔

”چپڑ جُھن جُھن! “

ایک جوان نے بڑے عاقلانہ انداز میں کہا۔

”جو بات ہے اسی میں ہے۔ “

صوبیدار ہمت خان کو یہ بات معقول معلوم ہوئی۔

”ہاں کچھ ایسا لگتا ہے۔ “

بشیر نے گتے پر لکھی ہوئی عبارت پڑھی۔

”چپڑ جھن جھن۔ یہ ہندوستانی کتا ہے! “

صوبیدار ہمت خان نے وائرلیس سیٹ لیا اور کانوں پر ہیڈ فون جما کر پلاٹوں کمانڈر سے خود اس کتے کے بارے میں بات چیت کی۔ وہ کیسے آیاتھا۔ کس طرح ان کے پاس کئی دن پڑا۔ پھر ایکا ایکی غائب ہو گیا اور رات بھر غائب رہا۔ اب آیا ہے تو اس کے گلے میں رسی نظر آئی جس میں گتے کا ایک ٹکرا تھا۔ اس پر جو عبارت لکھی تھی وہ اس نے تین چار مرتبہ دہرا کرپلاٹون کمانڈر کو سنائی مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ بشیر الگ کتے کے پاس بیٹھ کر اسے کبھی پچکار کر، کبھی ڈرا دھمکا کر پوچھتا رہا کہ وہ رات کہاں غائب رہا تھا اور اس کے گلے میں وہ رسی اور گتے کا ٹکڑا کس نے باندھا تھا مگر کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔

وہ جو سوال کرتا، اس کے جواب میں کتا اپنی دم ہلا دیتا۔ آخرغصے میں آکر بشیر نے اسے پکڑ لیا اور زور سے جھٹکا دیا۔ کتا تکلیف کے باعث چاؤں چاؤں کرنے لگا۔ وائرلیس سے فارغ ہو کر صوبیدار ہمت خان نے کچھ دیر نقشے کا بغور مطالعہ کیا پھر فیصلہ کن انداز میں اٹھا اور سگریٹ کی ڈبیا کا ڈھکنا کھول کر بشیر کودیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3