میری قانونی بیوی میری شرعی بیوی کا راز کھل جانے پر ناراض ہے


میں بھی رہ لیتا مگر دو ستمبر کو بچوں کو تعطیلات تمام ہونے کے بعد سکول جانا ہے۔ انہیں گلدستے خرید کے دینے ہوں گے اور ان کی تقریب میں بھی جانا ہوگا۔ اخراجات پنشن سے تین گنا زیادہ ہیں مگراللہ کوئی سبیل کیے ہوئے ہے۔ نینا کہتی ہے، مہمان آئے ہو، رہو استراحت کرو مگر میری روح کو مت چھیڑو۔ یار یہ روح کا معاملہ سمجھ نہیں آتا۔ کل مجھے کہہ رہی تھی کہ میرے ساتھ نکاح فسخ کر دو۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ نہیں کرتا یہ میرا استحقاق ہے۔

بات یوں ہوئی تھی کہ کسی بات پراس نے کہا کہ محبوبہ رکھنا تو تیرے نزدیک جائزہے۔ میں نے کہا تھا کہ میری محبوبہ نہیں رہی۔ پوچھا تو پھر کیا تھا، میں نے بتایا نکاح جس پہ اس نے یہ مطالبہ کیا۔ نینا بھی جانتی ہے کہ میں اس سے پیارکرتا ہوں مگر ڈٹی ہوئی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میری جانب سے زیادتی بلکہ بہت زیادتی ہوئی ہے مگرقسمت کے فیصلوں کے آگے کسی کا بس چلا کیا؟

میرے بیک پیک میں کمپیوٹر اور کتابیں دیکھ کرکے کل اس نے کہا تھا کہ کیا ہفتے بھرکے لیے براجے ہو۔ اور تو کیا؟ میرا جواب تھا، ظاہرہے مذاق میں کہا میں نے۔ کہنے لگی، ہرگزنہیں۔ جلد ہی آلا ( بیٹی ) آنے والی ہے۔ اصل میں یہاں سونے کے لیے جگہ کم ہے۔ یعنی چھیڑخوباں سے چلی جائے اسد والامعاملہ ہے مگرمیں بہت خوش ہوں کہ کم ازکم تعلق اس طرح سے نہیں ٹوٹا جس طرح کچھ بدخواہوں کی خواہش تھی۔ معاملہ غلط فہمیوں کا زیادہ ہے۔ اس کا اردو زبان سے نابلد ہونے کا بھی مسئلہ ہے جوفیس بک پہ دوستوں کے کمنٹس کواس پیرائے میں لیتی ہے جیسے میرے ارد گرد کے لوگ، خاص طورپرمیرے رشتہ دار، بھائی بند معمربیوی سے میری جان چھوٹ جانے اور جوان بیوی اور بچوں کا کنبہ بن جانے سے خوش ہیں۔ پہلا حصہ غلط ہے اور دوسرا حصہ درست۔ ہے نا بوالعجبی؟

ابھی تک نہیں لوٹی۔ بھوک لگی ہے۔ کھانا پینا موجود ہے مگراس کے ساتھ اس کے ہاتھ کا بنایا اور پروسا کھانے کی عادت ستائیس برس کی ہے۔ فون کیا تواس نے بتایا کہ وہ راستے میں ہے۔ اس اثناٗ میں میں نے نمازپڑھ لی۔ لان میں بیٹھا رہا۔ تصاویر کھینچتا رہا۔ نیند نے تنگ کیے رکھا مگر میں سویا نہیں۔ فون پر بچوں اور بچوں کی ماں سے بات کرلی۔ اس کے وہی گلے شکوے جو عام بیویاں کیا کرتی ہیں۔ نینا تو خاص نوع کی بیوی ہے جو ہاتھ کی جنبش اور آنکھ کے اشاروں سے شوہر کا ہی کیا سبھوں کا مدعا بھانپ لیتی ہے۔

مجھے یہ دیکھ کے افسوس ہوا کہ سالہا سال چھوڑے رہنے کے بعد وہ پھرسے سگریٹ پینے لگی ہے۔ رات سمجھایا تو ہے کہ تمہارے لیے زیادہ مضرہے کیونکہ سرطان اور اس کے سبب آپریشن سے گزرچکی ہو۔ دوسری پریشانی مجھے آلا کی سفید اور سیاہ، پیاری اور موٹی سی، لمبی گتھی ہوئی دم والی بلی موسیا سے متعلق ہے جومجھ سے کسی ڈرے ہوئے بچے کی طرح بھاگتی ہے۔ رات بھی نینا بڑی مشکل سے پکڑکراسے اندرلائی تھی۔ مجھے کھیرے کھانے کی خواہش ہوئی تو میں آدھ گھنٹہ پیشترگرین ہاؤس میں دوتازہ کھیرے توڑنے گیا تھا۔ دن میں موسیا وہیں بیٹھتی ہے، بیچاری میرے داخل ہوتے ہی نکل کے بھاگی۔ جب میں کھیرے لیے نکلا تو وہ راستے کی نکڑپربیٹھی تھی۔ مجھے دیکھا اور پھرسے خرگوش کی طرح تیز تیز بھاگتی ادھر ادھر ہو گئی۔ بیچاری اپنی غذا لینے بھی نہیں آ رہی ابھی تک۔

نینا نے مسڈ کال دی، میں نے جا کرکے گیٹ کھولا کیونکہ اس نے کہا تھا، بند کرلینا، ہوا کے زور سے بھی کھل سکتا ہے۔ اس کے داخل ہوتے ہی میں نے کہا مجھے بھوک لگی ہے۔ بولی ابھی دیتی ہوں ویسے میں اپنی سہیلی کے گھر تھوڑی سی بیئر پی کے تھوڑا سا بوتیربرود ( روٹی کے ٹکڑوں کے درمیان کچھ رکھے ہوئے کو کہتے ہیں ) کھا کے آئی ہوں۔ اس نے صبح پکا کے رکھا ہوا کدو کا سالن اور جارجیائی روٹی گرم کرکے دی۔ کھا کے مزہ آ گیا۔

پھرچائے پی۔ میں نے ایک بار پھرکوشش کی کہ اس کے فون سے نیٹ ٹیدرکرلوں مگرمجھ سے نہ ہوپایا تومیں نے یوٹیوب پرکشمیر سے متعلق سنجے دت کی کوئی فلم دیکھنا شروع کردی۔ فلم کا نام نظر سے نہیں گزرا بس یہی پڑھا راہول ڈھولکیا کی فلم۔ یہ مسنگ پرسنز کشمیر اور بلوچستان میں ہی کیوں ہوتے ہیں۔ ہندوستانی فلم میں پاکستانیوں کودکھاتے ہیں مگران کے لفظ درست نہیں کرتے خ کو کھ بولتے ہیں اور کہ کو کی۔ اٹھارہ کو اٹھرہ کہنا بھی عام ہے۔

البتہ فلم میں اے کے 47 کا نام ”آزاد کشمیر 1947“ سن کربیچارے الیکساندر کلیشنیکوو کی روح کی تڑپ ضرورمحسوس کی۔ نینا نے میرے لیے خاص طورپرحلال مرغ کا گوشت محفوظ کیا ہوا تھا۔ اسے بنانے کے ساتھ اس نے اوون میں بھی کوئی پکوان تیار ہونے کے لیے رکھا تھا۔ جوکدو کے قتلوں پر پنیر اور ڈبل روٹی کے سوکھے ٹکڑوں سے بنے رول تھے جنہیں کٹھی میٹھی ساور کریم، کیچپ اور مائیونیزملا کے تیارکی چٹنی کے ساتھ کھانا اتنا اچھا لگا کہ مرغ کھانے کا جی نہ کیا۔ کھانے سے فارغ ہو کے میں نے فلم کے آخری سترہ منٹ دیکھے اور چائے پی۔

نینا کمرے میں صوفہ پرلیٹ کرنوبجے والی خبریں سننے لگی جومیرے فلم دیکھنے تک تمام ہو گئیں اور موسیقی کا پروگرام ژارا یعنی گرمی شروع ہو گیا۔ پروگرام دیکھنے کے دوران پھرسے میرے بچوں اور ان کی ماں بقول نینا کے میری محبوبہ سے متعلق پتہ نہیں کیسے باتیں شروع ہو گئیں۔ اس نے پتہ نہیں کون سی تصویریں دیکھی ہوئی ہیں کہ مجھے کہا تم ہرجگہ اس کے ساتھ جاتے رہے، حالانکہ میں اس کے ساتھ توشاید ہی کہیں گیا ہوں مگرتصویر وہاں بھی نہیں بنائی۔

پھرخود ہی کہنے لگی تم اپنی بیوی بچوں کی باتیں کرتے ہو، مجھے ان کوسن کے کیا لینا اور یہ کہتی ہوئی گلوگیر انداز کے ساتھ باہرنکل گئی۔ میں نے زورسے کہا تاکہ سن لے کہ میں ان سے متعلق باتیں نہیں کرتا بلکہ تم شروع کرتی ہو۔ کچھ دیرکے بعد میں باہر گیا تووہ برتن دھورہی تھی، میں نے اس کے ساتھ چپک کے کہا کہ ناراض مت ہوا کرو۔ بولی ناراض کیوں نہ ہوں 30 برس خاک ہوئے۔ کیوں خاک ہوئے، میں نے کہا۔ میں تمہارے ساتھ تھا، ساتھ ہوں اور ساتھ رہوں گا۔ کوئی ضرورت نہیں، وہ پھرچمک کے بولی۔ میں اگرتم سے پیارنہ کرتا تو کیا میں احمق ہوں جومارچ سے لے کراب تک مسلسل تم سے تعلق بحال کرنے کی سعی میں لگا ہوں، کیا میں دیوانہ ہوں۔ دیوانے تو تم ہوجو عقل سے سوچنے کی بجائے جذبات پرعمل کربیٹھے، اس نے کہا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4