بیداری کا خواب اور تعبیر کے دھبے


وکیل نے ماں جی کو بڑے آرام سے کٹہرے سے باہر لایا۔

اب ایک سفید بالوں والا شخص کٹہرے میں کھڑا ہے۔ جس کی ہلکی ہلکی سفید و سیاہ مونچھ بھی ہے۔ ناک پہ عینک بھی براجمان ہے جو محنت ِ شاقہ پر دال ہے۔

”اچھا! تو آپ محترم کے استاد ہیں۔ آپ اپنے شاگرد کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ جس نے آپ کو ایک عظیم عہدے سے گرا کر دربدر پھرنے والے سیلز مین ٹھہرا دیا ہے۔ جو دردر اپنا علم بیچتے پھر تے ہیں۔ “

وکیل نے پوچھا تو استادِ محترم گویا ہوئے :

”اس بے وقوف اور کم ظرف کی بات سننے کے بعد میں ایک دم بام ِ ثریّا سے تحت الثریٰ کی گہرائیوں میں جا گرا ہوں، جہاں پاتال بھی پناہ مانگیں۔ “ ذرا منھ بسور تے ہوئے ”کم علم ہے۔ ہمارا علم ذرا زیادہ تھا اور اسی زیا دہ علم نے اسے اپنی اوقات بھلا دی ہے۔ شکر ہے، ابھی میں نے اسے صرف فرسٹ ائیر میں ہی پڑھایا تھا اگر سیکنڈ ایئر میں بھی پڑھا دیتا تو شاید۔ ، خیر! اس کی یہ گستاخانہ حرکت اکثر کالج میں بھی دیکھنے کو آتی تھی اور میں، ایچ۔ او۔ ڈی، ہونے کے ناتے اسے سمجھایا کرتا تھا۔ مگر یہ باز نہیں آیا، اب یہ عادی مجرم بن چکا ہے اور اسے اس کی سزا ملنی چاہیے تا کہ آیند ہ کوئی ایسی حرکت نہ کرسکے۔ “

اب ایک عالمِ دین کٹہرے میں کھڑا گواہی دے رہا ہے :

”یہ نا عاقبت اندیش شخص گناہوں کا پلندہ اور سئیات کا بندہ ہے۔ پتا نہیں کہ اس نے ز ندگی میں کبھی نماز بھی پڑھی ہو گی؟ بلکہ میں تو کہتا ہو ں کہ اس نے تو کبھی جمعہ اور عید بھی نہیں پڑھی ہو گی۔ گنہگار ہے، جاہل ہے، بد کردار اور زبان دراز ہے۔ اس کی زبان درازی کی وجہ سے پیدا ہونے والی خرافات میں نے خود اس کے منھ سے سنیں ہیں اور یہ اس سے مکر نہیں سکتا۔ میں نے اسے سمجھایا تو کہنے لگا؛“ اندھی تقلید دل میں بت پیدا کر دیتی ہے جو عقل کا رستہ روک کر اصل راستے سے بھٹکا دیتی ہے چاہے پھر کوئی جتنے بھی توحید کے سجدے کر لے ثوابِ بے جا کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو گا۔ ”زہد و تقویٰ اور پاکیزگی جیسی نفیس و بر تر صفات کے حامل انسانوں پر انگلی اٹھانے کے جرم میں اسے کڑی سے کڑی سزا دینی چاہیے کیونکہ کثافت کا لطافت سے ہٹ جانا ہی سود مند ہوتا ہے۔ “

وکیل نے کسی پیر کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ جس کے ہاتھ میں تسبیح، سر پہ عمامہ جس کے ساتھ شانوں تک چادر، بڑی سی ریش اور زلفیں، سفید لباس۔ یعنی شکل سے واقعی پیر تھا۔

وکیل کے سوال پوچھنے کے بعد فرمانے لگے :

”چونکہ میرے ذکرو اذکار کا وقت ہوا چاہتا ہے، اس لیے میں اجازت چاہوں گا اور میں اس غیر اخلاقی آدمی کے بارے میں بات کرنا اپنی توہین سمجھتا ہوں۔ جس نے میرے منھ پہ کہا تھاکہ حضرت صاحب! لوگوں کو دین کی تعلیم سے ہی دین سے دور کیا جا رہا ہے۔ نظر کریں کہیں کوئی سقم تو نہیں رہ گیا، یا حکمتِ عملی کا فقدان تو نہیں۔ گستاخ، بد تہذیب اوربدتمیز قسم کا لونڈا ہے یہ۔ ایسے منھ زور گھوڑے کو لگام پڑے تو ہی اچھا ہے۔ ویسے بھی ایسی فضول اور دنیا داری کی جگہیں ہمیں اچھی نہیں لگتیں۔ “

پیر صاحب تسبیح پھیرتے ہوئے کٹہرے سے باہر آ گئے۔

وکیل کو جیسے دوبارہ زندگی ملی ہو۔

”می لارڈ! ساری حقیقت کھل کے آپ کے سامنے آچکی ہے۔ اس کے آگے آپ کے قلم کو اختیار حاصل ہے۔ شکریہ! “

جج نے قلم ہاتھ میں تھاما اور کچھ لکھنے سے پہلے کٹہرے میں کھڑے شخص سے متوجہ ہوا:

”کیا تمھیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے؟ “

کٹہرے میں کھڑے شخص نے ہلکی سی مسکراہٹ کے بعد لب کھولے :

” صفائی تو وہ دیتے ہیں، عالی جاہ! جو دامن پہ ندامت کے داغ رکھتے ہیں۔ “

وکیل نے حیرانی سے دیکھا اور پانی پینے لگا۔

”میں وکیل صاحب کا شکر گزار ہوں۔ جنہوں نے بڑے اچھے اندازاور لب و لہجے میں میری آواز کو عام کر دیا۔ خیر! خواص کی بات ہے عوام کہاں سمجھے گی۔ اور عوام کو ضرورت بھی نہیں۔ وکیل صاحب نے بجا کہا ہے کہ کسی بھی وکیل نے میرا مقدمہ لینے سے انکار کر دیا ہے، مگر کیوں؟ اس کی وجہ وکیل صاحب نے نہیں بتائی۔ جو میں بتاتا ہوں کہ میں نے کہا تھا۔ “

”اوبجیکشن، می لارڈ! یہ شخص لفظوں کے جادو سے سحر پھونکنا چاہتا ہے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اس سے صرف مقدمے کے بارے میں بات کرنے کو کہا جائے۔ “

”آپ اپنے بات جاری رکھیں۔ “ جج نے کٹہرے میں کھڑے شخص سے کہا۔

تما م عدالت ہمہ تن گوش ہے بلکہ سراپا متجسس ہے۔

کٹہرے میں کھڑا شخص پھر بولنے لگا:

”میں نے بس اتنا کہا تھا کہ وکیل وہ ذہین لوگ ہیں جو قانون پڑھنے کے بعد تمام لوگوں کو جاہل، ان پڑھ اور گنوار جانتے ہیں حالانکہ انہیں قانون کی روشنی سے لوگوں کو منور کرنا چاہیے تھا۔ قانون سے ناواقف لوگوں کا سہارا بننا تھا۔ جو یہ سہارا بننے کے بجائے اسی قانون کو استعمال کر کے ان کے بچے کھچے سہارے بھی کمزور کرتے ہیں۔ یہ قانون کے علم سے ہی غریبوں کی سچائی کو امیروں کے جھوٹ میں بدل دیتے ہیں ا ور جھوٹ کا یہ دھبّہ، سچائی کی پوری سپیدی کو داغدارکر کے ہمیشہ کے لیے شرمندہ کر دیتا ہے۔ “

عدالت میں کھڑے، بیٹھے تمام لوگ انگشت بدنداں رہ گئے اور وکیل صاحب دانت پیسنے لگے۔

” میں نے کوئی انوکھی یا بڑی بات نہیں کی۔ یہ وہی معمولی اور سیدھی سی بات ہے جو معاشرے کا تقریباً ہر فرد سوچتا ہے مگر کسی انجانے خوف کے تحت کرتا نہیں۔ وہ عام سی بات یہ ہے کہ معاشرے کا ہر ڈاڑھی والا شخص بغیر ڈاڑھی والے کو حقارت سے دیکھتا ہے اور بغیر ڈاڑھی والا، ڈاڑھی والے کو رجڈ، محدود علمی شخص اور جدید علوم سے بے بہرہ سمجھتے ہوئے در خورِ اعتنا نہیں جانتا اور بڑی نفرت سے اسے صرف مولوی کہہ کر ٹر خادیتا ہے۔

شاگر د، اساتذہ سے اکتا گئے ہیں اور استاد، شاگردوں کوبہلاتے ہوئے اپنی نوکری بچانے کے در پے ہیں۔ دونوں ہی نظریں چراتے ہیں۔ دونوں ہی اک دوسرے سے خائف ہیں۔ پتا نہیں استاد کو آقا سمجھنے والے شاگرد اور شاگردوں کوپیغمبری تعلیمات دینے والے استاد کہاں چلے گئے ہیں۔ واحد ایک استاد ہی ایسا شخص ہے جو ایک ایسی قوم پیدا کر سکتا ہے جو رشوت، بد دیانتی اور جھوٹ جیسی لعنتوں سے پاک و منزہ ہو۔ مگر افسوس! فی زمانہ استاد کا دامن خود ان کانٹوں سے تار تار ہو چکا ہے۔ جس کے اڑتے ذرے نئی نسلوں کی آنکھوں میں پڑ کے انہیں اندھے کیے جا رہے ہیں۔ ”

”اوبجیکشن، می لارڈ! “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عثمان غنی رعد
Latest posts by عثمان غنی رعد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3