بیداری کا خواب اور تعبیر کے دھبے


”اوبجیکشن از رجیکٹڈ۔ “

وکیل نے کٹہرے میں کھڑے شخص کی بات کو روکنا چاہا مگر جج نے اجازت نہ دی۔ تو وہ شخص پھر بولنے لگا۔

” صوفیا، علما اور نیک لوگوں کا کام لوگوں کو جوڑنا اور ان کا باہمی اتحاد و اتفاق کرانا ہے۔ اس لیے چھوٹی چھوٹی باتوں پہ فتوے دینے کے بجائے مل کر محبت سے اس کا حل ڈھونڈنا چاہیے چونکہ بدنامی ایک بھائی کی ہو یادوسرے کی، دراصل بدنامی ہمیشہ باپ کی ہوتی ہے۔ جہاں تک پیروں کی بات ہے تو ہماری زندگی میں پیروں کا فقط اتنا کردار ہے کہ لوگ جب بھی ان کی بات کریں یا ان سے بات کریں تو ان کا کتھارسس ہو، ان کے دل ہلکے ہو جائیں، وہ پھر سے جینے پہ آمادہ ہو جائیں۔

مگر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ پیر کا کام لوگوں کی فلاح اور بہتری ہی ہے نا۔ تو یہ سب سے بڑا بہتری کا کام کریں کہ اپنی تمام جائیدادیں غریبوں، مسکینوں اور فقیروں میں بانٹ دیں۔ اپنے تمام اکاؤنٹس نیشنل اور انٹر نیشنل چاہے وہ کسی بھی کرنسی میں ہو ں، وہ مملکتِ خداداد کے قرضے اتارنے کے لیے حکومت کے حضو ر پیش کر دیں اور خود خدا اور رسول کی بارگاہ میں سرخرو ٹھہریں۔ مگر یہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ دس فقیر ایک چادر میں سو سکتے ہیں مگر دو بادشاہ ایک سلطنت میں نہیں رہ سکتے۔ جبکہ فقر ہے ہی فاقہ، قناعت، اور ریاضت کا حاصل۔ یہ عیش و عشرت میں پلنے والے لوگ فقیر اور پیر ہیں تو نہ جانے جہانگیر اور امیر کیا ہوں گے۔ ”

عدالت میں کھڑے کسی شخص نے زور دار گالی دی تو کٹہرے میں کھڑا شخص مسکراتے ہوئے بولا:

”بھائی بڑی اچھی بات ہے کہ مرید ہوتے ہوئے بھی تم میں عقیدت کے اندھے پن کے ساتھ ساتھ کچھ کر گزرنے کا حوصلہ بھی ہے۔ مگر تھوڑا سا سوچو ؛اگر جنت والدین کے قدموں کے نیچے ہے تو پھر پیر، فقیر بھلا کیا مقام رکھتے ہیں۔ بے شک ان کے سرکی قیمت والدین کے فرمان سے تہی ہے۔ والدین کی خدمت کرو، خود پیر بن جاؤ گے اور اچھی بات یہ کہ فقیر نہیں بلکہ جہانگیر بن جاؤ گے اور ایسے کئی پیر، فقیر تمھارے در پہ کھڑے تمھارے حق میں فیصلے دے رہے ہوں گے۔ اس طرح تم پیروں، فقیروں کے پیر کہلاؤگے۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں صوفیا کے نیک اعمال کا منکر ہوں بلکہ میں تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ روپ اور بہروپ میں فرق کرنا ہر ذی شعور کا بنیادی حق ہے اور اسے ضرور حاصل کریں۔ “

وکیل نے پھر اجازت مانگی، مگر دوبارہ اجازت نہ ملنے کی وجہ سے ہاتھ ملتے ہوئے نہ چاہتے ہوئے بھی بیٹھ گیا۔

”معصوم لوگوں کو اللہ سے ڈرا ڈرا کر اپنی دکانیں چمکا لیں ہیں۔ جنت کا لالچ دے دے کر دنیا کو دوزخ بنا کے رکھ دیا ہے ۔ امن کا یوں فقدان ہوا ہے کہ لوگ اپنے سائے سے بھی خوفزدہ ہیں کہ کہیں یہ بھی جنت کا طلبگار نہ ہواور ہمیں دوزخ پہنچانے کے لیے جان سے ہی نہ گزر جائے۔ وہ جان جس کے لیے حکم ہے کہ ناخن بھی نہا کر کاٹو، کہیں انگلیوں کے پوروں کے اگلے حصوں کو تکلیف نہ ہو۔ تمام طالبِ جنت ذہن میں بٹھا لیں کہ جنت حاصل نہیں کی جا سکتی بلکہ یہ تو عطا ہے وہ جسے چاہے تفویض کرے۔ ہم بھلا کون ہوتے ہیں جنتی اور دوزخی کا فیصلہ کرنے والے۔ “

کٹہرے میں کھڑا شخص بالکل چپ کر گیا۔ تمام عدالت پہ سناٹا ہنسنے لگا۔ پھر اسی شخص نے سکوت توڑا:

”کسی بھی آدمی کے اختلافِ رائے سے چاہے اتفاق نہ کریں مگر اس سے اختلافِ رائے کا حق مت چھینیں۔ اگر کسی بھی شخص کے خیالات سے اختلاف کریں تو اسے جھٹلانے کی کوشش نہ کریں بلکہ دلیل، تمیز اور حکمت سے قائل کرنے کی کوشش کریں اور اپنے موقف کو تھوپنے سے پر ہیز کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر پھول کی ایک اپنی خوشبو رکھی ہے تا کہ اس کا مقام اپنی جگہ پہ قائم رہے۔ مگر ہم اپنی مرضی کی ایک ہی خوشبو تمام پھولوں میں ڈھونڈتے ہیں جس سے نفرت اور تعصب کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری آنکھ میں کجی ہے، آئینہ ٹیڑھا نہیں ہے۔ “

” کہیں تم یہ تو نہیں کہنا چاہتے کہ ہر طاقتور شخص، کمزور شخص کو اپنا لقمہ بنانے کے در پے ہے اور یہی کام وردی والے بھی کرتے ہیں جو وردی کے بغیر لوگوں کو کوئی عزت دینے پہ تیار نہیں۔ “

جج نے کہا تو کٹہرے میں کھڑا شخص ہنس پڑا:

” نہیں، جج صاحب! عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ مگر یہ سٹوڈنٹ بچارے جو وردی پہنے پھرتے ہیں ان کے کسی کو چھوٹا یا جاہل سمجھنے سے فرق نہیں پڑتاکیونکہ زیادہ کے بڑے بوڑھے بغیر وردی کے عمریں گزار گئے ہیں۔ یعنی انہوں نے ساری عمر سکول کا دروازہ تک نہیں دیکھا۔ اگر کوئی باپ کو باپ نہ سمجھے تو یہ اس کے کردار کے لیے شر منا ک بات ہے۔ ہاں! میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ ایک جج کی آنکھوں پر گواہی کی ایسی پٹی بندھی ہے جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے میں قطعی کارگر ہے۔ “

یہ جملہ سنتے ہی جج کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور چہرہ غصے سے لال پیلا ہونے لگا۔

”تمام گواہوں کے بیانات اورثبوتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عدالت ملزم کو معاشرے کے شریف النفس لوگوں کی ہتکِ عزت کرنے اور الزام تراشی کے جرم میں عمر قید با مشقت کا حکم سناتی ہے۔ “

جج کے اس فرمان کے بعد کٹہرے میں کھڑا شخص ذرا تاسف سے بولا :

”جج صاحب! یہ شعور کی پہلی آواز ہے اور صدائیں کبھی سماعتوں کی محتاج نہیں ہوتیں۔ “

اتنے میں کٹہرے میں کھڑے شخص کو کوتوال زنجیروں میں جکڑ کر لے گئے۔

جب میں نے یہ سارا خواب پیر صاحب کو سنا لیا تو پیر صاحب کہنے لگے :

”بیٹا بہت برا خواب ہے، بہت برا۔ ! تم ایسا کرو کہ اس ماہ کی تنخواہ نیکی کی راہ میں خرچ کرو۔ یوں کرو بڑے پیرصاحب کا عرس آ رہا ہے اسی میں حصہ ڈال دو۔ تمھارے والدین، اساتذہ اور کافی سارے علما ہمارے مرید ہیں جو عرس پہ لنگر کھائیں گے توسارے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ “

میں نے اثبات میں سر ہلایا اور ہاتھوں کا بوسہ لے کر سیدھا ہوا چاہتا تھا کہ میرے کان میں پیر صاحب آہستہ سے بولے :

” بیٹا! اس خواب کا ذکر کسی اور سے نہ کرنا۔ “

عثمان غنی رعد
Latest posts by عثمان غنی رعد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3