بیداری کا خواب اور تعبیر کے دھبے


جج کرسیِ انصاف پہ بیٹھا تو وہ تمام لوگ بھی اپنی اپنی سیٹوں پہ بیٹھ گئے جو جج کے احترام میں کھڑے ہوئے تھے۔

عدالت کھچا کھچ لوگوں سے بھری ہو ئی تھی۔ ایک ایک کرسی پہ دودو لوگ بیٹھے تھے اور کھڑوں کا شمار مشکل ہو رہا تھا۔

”کارروائی شروع کی جائے۔ “

جج گرج دار لہجے میں بولا۔

ایک آبنوس کا کندہ وکیل کھڑا ہوا۔ سامنے سے اپنے گاؤن کو دونوں ہاتھوں سے ملاتے ہوئے عرض گزار ہوا:

”می لارڈ! خدا آپ کا اقبال بلند کرے اور آج کے اس فیصلے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں ہمارا حامی و ناصرہوجو با لکل آئینے کی طرح شفاف ہے۔ “

کٹہرے میں کھڑے ایک نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وکیل بولا:

”عالی جاہ! یہ وہ شخصِ نا معتبراور بد بخت آدمی ہے جس نے الزام تراشی میں حد سے بڑھ کر زیادتی کی ہے۔ اس نے معا شرے کے معتبر اور شریف النفس لوگوں کی عزت سے کھیلنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی زبان درازی کی بدولت معاشرے کا سب سے انصاف پسند شخص جس کاکام ہی انصاف کے حصول کی جد و جہد کرنا ہے۔ وہ بھی اس کی طرف داری سے دستبردار ہوتے ہوئے اس بے وقوف، نادان اور کج فہم کی خاطر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ اسی لیے تو اس کا کیس لڑنے کے لیے آج عدالت میں ایک بھی وکیل نہیں اور یہی اس کی غلط فہمی اور الزام تراشی کا بین ثبوت ہے۔ “

”الزامات بیان کیے جائیں۔ “

جج نے انتہائی تفکرانہ انداز میں کہا۔ جیسے اسے تجسس ہو رہا ہو۔

” حضور! اس نامراد نے زمانے کے صفِ اول کے معتبر اور لائقِ صد وقا رشخص یعنی معلم پر یہ الزام تراشی کی ہے کہ آج کل کے استاد اپنے علم کا گھمنڈ رکھتے ہیں اور اسی انا کی بدولت طالبِ علم اور اپنے درمیان ایک خلیج حائل رکھتے ہیں۔ مزید اس نے الزام لگایا ہے کہ آج کے استاد شوق سے نہیں بلکہ مجبوری سے پڑھاتے ہیں۔ ہر استاد کو فیس سے غرض ہے۔ سکول، کالج، یونیورسٹیز حتٰی کہ اکیڈمی تک روپے پیسے کی منڈیاں ہیں۔ جہاں امیروں اور غریبوں کا یکساں خون نچوڑا جاتا ہے جبکہ علم سے بچے پھر بھی محروم رہتے ہیں کیونکہ ترجیحِ اول علم و تعلیم نہیں بلکہ روپیہ پیسہ ہے۔ ان منڈیوں میں استاد فقط سیلز مین کی حیثیت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ “

عدالت میں لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے اور ہلکی ہلکی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔

”استاد کو سیلز مین کہتا ہے۔ تعلیمی ادارے منڈیاں ہیں۔ استاد پیسوں کے لیے پڑھاتے ہیں۔ “

”آرڈر! آرڈر! “

جج نے اپنا چھوٹا سا لکڑی کا ہتھوڑا ٹیبل پر بجاتے ہوئے کہا۔

” کٹہرے میں کھڑے اس محصور شخص نے امن و امان کے پیکر، پارسائی کے چلتے پھرتے نمونے، زہد و تقویٰ کے علمبرداروں، متقی و پرہیز گار لوگوں پر الزام تراشی کی ہے۔ جن کا ہر لفظ ہمارے لیے حرفِ آخر اور جن کا ذکر بھی ہماری عبادت میں شمار ہوتا ہے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو ہمیں سیدھی راہ دکھاتے ہیں اور دین کی راہ سمجھاتے ہیں۔ یعنی علمائے وقت اور امامِ عصر کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ لوگ اپنے زہد و تقویٰ کی بدولت دوسرے تمام لوگوں کو جو ذرا کم نمازی یا بے نمازی ہوتے ہیں، گنہگار، سیاہ کا ر اور اکثر تو جہنمی بھی سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ غرور و استکبار فقط نیکی کے عمل کی بدولت ہے۔ “

عدالت میں پھر اک بار سرگوشیاں ہونے لگیں۔

ایک طرف سے تو جوتا بھی کٹہرے کی جانب پھینکا گیا اور ساتھ یہ قضیہ بھی ”واجب القتل ہے یہ تو، اسے زندہ درگور کیا جائے۔ “

کھڑے لوگ آپے سے باہر ہونے لگے تو جج نے پھر ہتھوڑا بجاتے ہوئے آرڈر، آرڈر کہا۔

وکیل پھر کمر باندھ کھڑا ہوا: ”اس کاذب نے صدق و صفا، زبدۃالمعر فت و حقیقت اور خدا شناس لوگوں کو بھی نہیں بخشا۔ یعنی صوفیوں، پیروں اور عارفوں کے بارے میں الزام لگاتا ہے کہ یہ لوگ، عقیدت کی آگ میں ہر ایک کو جلاتے ہیں۔ جس کا ایندھن اکثر غریب لوگ بنتے ہیں، جن میں زیادہ تر کم علم۔ غریب اپنے گھر میں چولھا جلائے یا نہ جلائے اس بھٹی میں نذرانہ ضرور جھونکے گا۔ ان لوگوں نے اصل لوگوں کا روپ دھار کر معصوم لوگوں کو دین کی دیواروں میں چننا شروع کر دیا ہے۔

ان نام نہاد پیروں کے پاس اتنا روپیہ ہے، اتنا روپیہ ہے کہ اگر تین چار بڑے بڑے پیر اپنا مال پاکستان کے نام کر دیں تو اس ملک کا قرض اتر سکتا ہے۔ مزید یہ کہتا ہے کہ پیری، فقیری ایک ایسا کاروبار ہے جس میں صرف آمدنی ہی آمدنی ہے اور انویسٹ منٹ بھی نہیں۔ ساتھ میں مفت کی عزت اور عقیدت ہے۔ اگر پیر صاحب نے حج، عمرہ بھی کرنا ہے تو مریدوں کے خرچ پہ، اور یہ دنیا کا واحد کاروبار ہے جس پہ نہ کوئی آڈٹ ہے اور نہ ہی کوئی ٹیکس۔ ”

کچھ کھڑے اور بیٹھے لوگ مشتعل ہو گئے، جنہیں چند لوگوں نے زبر دستی پکڑ کر بٹھایا۔

جج نے پھر ٹیبل کو پیٹتے ہوئے کہا: ”آپ آرام سے بیٹھے رہیں۔ سزا دینا یا نہ دینا عدالت کا کام ہے۔ “

”اس نے اپنی دنیا تو گنوائی ہی۔ “ وکیل ذرا تاسف سے بولا ”مگر آخرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس گستاخ نے کہا کہ ہمارے والدین ہمیں پڑھا لکھا تو لیتے ہیں مگر ہمیں پڑھا لکھا نہیں سمجھتے اور اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ ہماری زندگیوں کے فیصلے بھی ہماری مرضی کے خلاف اور ہم سے پوچھے بغیر کرتے ہیں۔ “

ساری عدالت میں پھر کھسر پھسر ہو نے لگی۔ وکیل آگ اگل اگل کے چپ کر گیا، کٹہرے میں محصور آدمی بے خوف و خطر کھڑا ہے اور یوں خوش نظر آ رہا ہے جیسے کوئی جابر حکمران کے سامنے کلمہء حق کہنے کے بعد مطمئن ہوتا ہے۔

جج بولا : ”گواہ پیش کیے جائیں۔ “

”چونکہ ہر کیس کا فیصلہ ثبوتوں کے تحت کیا جاتا ہے اس لیے میں پہلے ہی سے ثبوت لے کر آیا تھا۔ میری گزارش ہے کہ پہلے مجھے ملزم کے والدین کو کٹہرے میں لانے کی اجازت دی جائے، تا کہ بات گھر سے شروع ہو۔ “

وکیل نے کہا۔

اجازت ملنے کے بعد دونوں والدین کٹہرے میں کھڑے یہ بیا ن قلم بند کرواتے ہیں :

”جنابِ والا! ہمیں تو کچھ بھی علم نہیں کہ یہ کیا اول فول بکتا رہتا ہے۔ “

والد کے بعد اب والدہ بولنے لگی:

”میں صئی کؤں صاب! جب سے اس نے بڑی بڑی کتابیں پڑھنا شروع کی ہیں، تب سے یہ پاگل ہو گیا ہے۔ ان کتابوں نے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے۔ راتوں کو دیر تک پڑھتا رہتا ہے۔ کھانے پینے کا بھی اسے ہوش نہیں رہتا۔ کئی کئی دن تو کپڑے بھی نہیں بدلتا۔ “ بولتے بولتے ماں رونے لگی اور ہاتھ جوڑ کر پھربولی:

”حضور! ہمارے بیٹے کو کچھ نہ کہیے گا، یہ۔ یہ بس! تھوڑا پاگل ہو گیا ہے۔ مگر اس نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچا یا۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عثمان غنی رعد
Latest posts by عثمان غنی رعد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3