تیل سے آسودہ مقدس زمین پر ایک اور طرح کی بھوک


”جاوید بھائی ہیں؟ “ میں نے پوچھا۔

”جی اندر ہیں، آجائیے۔ آپ مسعود صاحب ہیں نا، آپ کا ہی انتظار کررہے تھے۔ انہوں نے آپ کو میرے سلسلے میں ہی بلایا ہے۔ “

میری سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔

اندر جاوید بھائی اوربھابی کو سلام کرکے چاکلیٹ کا پیکٹ میں نے نادیہ کے حوالے کیا تھا۔ بھابی نے آواز دے کر ذکیہ سے کہا کہ دہی بڑے اور چھولے لے کر آجائے۔

”اچھا ہوا تم آگئے، تم سے ضروری بات کرنی ہے۔ بات یہ ہے کہ دو ہفتے پہلے میں شاپنگ کرکے گھر آرہی تھی کہ میری نظر ذکیہ پہ پڑی جو ٹیوب اسٹیشن کے دروازے کے ساتھ ہی بہت ہی ہراساں کھڑی ہوئی تھی۔ میں ٹیوب اسٹیشن میں گھس جاتی مگر مجھے کچھ خیال سا آیا کہ اس لڑکی کے ساتھ کچھ ہوجائے گا۔ نجانے کہاں کی لڑکی ہے، کسی کے ہتھے لگ جائے گی، کم از کم پوچھ تو لینا چاہیے۔ میں مڑ کر واپس اس کے پاس چلی گئی اور اردو میں ہی پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے، وہ کون ہے، کہاں جانا ہے اور کیا میں کچھ مدد کرسکتی ہوں؟

اس نے فوراً ہی سختی سے میرا ہاتھ پکڑلیا تھا، اپنے نرم اور ٹھنڈے ہاتھوں سے۔ ’میں بڑی مشکل میں ہوں، مجھے پناہ چاہیے۔ آپ میری مدد کریں، کسی طرح سے مجھے ہندوستان واپس بھجوادیں۔ میرے پاس کرائے کے پیسے بھی ہیں، پانچ ہزار پونڈ سے زیادہ ہے میرے پاس۔ میرا اپنا ہے، چوری نہیں کی ہے میں نے۔ میں بھاگ کر آئی ہوں، ایک عربی شیخ کے چنگل سے نکل کر آئی ہوں۔ ‘

مجھے فوراً ہی اس کی باتوں کا یقین ہوگیا اور میں اسے اپنے ساتھ ہی گھر لے آئی تھی۔ گھر آکر اس نے پانچ ہزار چار سو تیس پونڈ مجھے دیے اور بتایا تھا کہ ہندوستان سے عربی شیخ اسے اپنے گھر پہ کام کرانے کے لیے لے کر آئے تھے مگر سعودی عرب میں اسے باضابطہ طورپہ کسی جنسی مشین کی طرح استعمال کیا گیا۔ اب تقریباً تین سال کے بعد اسے وہ لوگ اپنے خاندان کے ساتھ لندن لے کر آئے ہیں تو یہ ان کی چھوٹی بیٹی کی مدد سے ان کے لندن کے گھر سے بھاگ گئی ہے۔ شروع شروع میں تو بہت ڈری ہوئی تھی مگراب اس نے ہم لوگوں پہ اعتماد کرلیا ہے۔ ہم نے سوچا کہ تم کو ساری دنیا کا پتا ہے، اب تم ہی بتاؤ کہ کس طرح سے ذکیہ کو واپس ہندوستان بھیجا جائے؟ ”

میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے دوستوں کو فون کیا تھا۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل میں میرے کچھ یار کام کرتے تھے، ان سے پوچھا، ایک وکیل جو میرے ساتھ بی بی سی میں کام کرنے والی ساتھ لڑکی کا شوہر تھا اور سیاسی پناہ لینے والوں کے کیس نمٹاتا تھا، اس سے بھی بات ہوئی۔ سب کا یہی مشورہ تھا کہ کوئی ایسا طریقہ ہونا چاہیے کہ ذکیہ کوانسانی ہمدردی کی بنیاد پہ سیاسی پناہ مل جائے تو پھر وہ ہندوستان جانے کے باوجود بھی دوبارہ آسکے گی جو اس کے اوراس کے خاندان کے لیے اچھا ہوگا۔ ذکیہ پہلے ہی سخت ترین مشکلات سے گزر کر یہاں پہنچی ہے۔

یہی بات میں نے ذکیہ کو سمجھائی تھی۔ ایک ہفتے کے بعد ذکیہ نے اپنی کہانی لکھ کر دی تھی۔

وہ سعودی شیخ اپنے خاندان کے ساتھ بنگلور آیا تھا اور بنگلور کے ایک خوب صورت مہنگے علاقے میں ایک بنگلے میں آکر رُکا تھا۔ اس کے چھوٹے بیٹے کے گردے خراب ہوگئے تھے اور وہ لوگ بنگلور میں گردے بدلنے آئے تھے۔ بنگلور کے ایک مشہور ہسپتال میں ڈاکٹروں نے آپریشن کیا۔ کسی ہندوستانی بچے کا گردہ چالیس پچاس ہزار میں خرید کر اس سعودی بچے کے جسم میں لگادیا گیا تھا۔ پورے آپریشن کے ہسپتال نے پانچ لاکھ روپے لیے تھے۔ وہ سعودی خاندان بنگلور میں ہی تھا اور اخبار میں اشتہار دیا گیا تھا کہ سعودی عرب میں کام کرنے کے لیے انہیں ایک مسلمان لڑکی کی ضرورت تھی جو ان کے محل میں گھر کا کام کرے۔

ذکیہ کے والد ٹی بی کا شکار ہوکر مرگئے تھے، سات بھائی بہنوں کے گھر میں وہ سب سے بڑی تھی اور ابھی دسویں جماعت پاس کرکے نوکری تلاش کررہی تھی۔ گھر میں ماں بھی تھی، دادی بھی تھیں۔ باپ کے علاج میں بچے کھچے پیسے ویسے ہی ختم ہوچکے تھے۔ اس عام بدحالی کے عالم میں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ اس نے کئی بار سوچا کہ جسم فروشی کا ہی کام شروع کردے، کم از کم گھر میں چراغ تو جلتا رہے گا۔ پیٹ کاجہنم بڑا مسئلہ تھا، اوپر والے جہنم سے زیادہ خوفناک۔ اس نے یہ اشتہار دیکھا اور بتائی ہوئی جگہ پہ پہنچ گئی۔ اسے فوراً ہی منتخب کرلیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی دو اورلڑکیاں بھی منتخب کی گئی تھیں۔

پہلے ہفتے میں ہی ایک ماہ کی تنخواہ بارہ ہزار روپے ایڈوانس میں دے دی گئی تھی اورجلد ہی پاسپورٹ بن کر آگیا تھا۔

فاقہ زدہ گھر میں پہلی دفعہ بچوں نے سالوں کے بعد گوشت کھایا۔ اس نے سوچا تھا کہ کیا فرق پڑتا ہے، میٹرک کے بعد ہندوستان میں گیارہ بارہ سو کی نوکری ملے گی، سعودی عرب میں اگر گھر کی آیا بن کر دس بارہ ہزار مل جاتے ہیں اور گھر میں روشنی ہوجاتی ہے تو کیا برا ہے۔ ماں کچھ اچھے دن دیکھ لے گی، دادی کا چشمہ آجائے گا، بھائی پڑھ لیں گے اور چھوٹی چھوٹی پریوں جیسی بہنیں بھی آگے بڑھ سکیں گی۔ کسی نہ کسی کو تو قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس کے دل میں خیال آیا تھا، کاش ابا مرنے سے پہلے اپنے گردے ہی بیچ دیتے تو ماں کو گر گھر رشتے داروں میں جا کر زندہ رہنے کے لیے زندگی کی بھیک تو نہیں مانگنی پڑتی۔ اپنے اس طرح کے خیال پہ اسے دکھ بھی ہوا مگر پھر اس نے سوچا کہ اگر مرنا ہی ہے تو غریب مرنے سے پہلے گردہ، دل، جگر، دماغ، ہڈیاں بیچ کر اگر گھر والوں کے لیے کچھ کرلیں تو اس میں کیا برائی ہے۔ شیخ کے بیٹے کے لیے تو ایک بچے کا گردہ دیا گیا، غریب بچہ جس کی پوری زندگی پڑی تھی، اس کے گھر والوں نے چالیس پچاس ہزار میں ایک گردہ دیا، چار پانچ لاکھ میں پورا بچہ دے دیتے۔

میں نے سوچا کہ رام، بدھا، اشوکا اوربابر کے دیس میں نئے قسم کے چکلے کھل گئے ہیں۔ پہلے صرف عورت کا جسم بیچا جاتا تھا، اب عورت اور مرد کی تخصیص ختم ہوگئی ہے، عورت کا جسم بکتا ہے، امیر گھرانے اپنی لڑکیوں کے لیے جوان دُلہا خریدتے ہیں اور دور پار سے آنے والے شیخوں کے لیے بچے جوان، عورت مرد ہر ایک کے جسمانی اعضا فروخت کے لیے موجود ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نے پچاس سال میں عوام کو وہ سب کچھ بھی دے دیا جو مغل جنگ باز، مراٹھی جیالے، گورکھے سپاہی اور سکھ جنگ جو نہیں دے سکے تھے۔ محمود غزنوی نے مندر توڑا، سونا چاندی لوٹا، غلام اور کنیز بنائے مگرجسموں کو کاٹ کاٹ کر ٹکڑوں ٹکڑوں میں تو نہیں بیچا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4