تیل سے آسودہ مقدس زمین پر ایک اور طرح کی بھوک


جب میرے ساتھ یہ ہوا تو میں نے بھی سوچا کہ میں بھی چیخ پکار کروں، مگر ہوگا تو کچھ بھی نہیں۔ واپسی ہوجائے گی، غربت کے حال میں کوئی نہیں پوچھتا ہے۔ نہ بھائی، نہ بہن، نہ گاؤں والے۔ کیوں آگئی واپس ناکام ہوکر، بغیر ڈالر کے۔ یہاں کیا رکھا ہے۔ عزت۔ عزت کی کسے فکر ہے۔

پھر ہم نے سوچ لیا کہ یہ بھی کام کا حصہ ہے۔ باقی کاموں کی طرح ایک کام۔ بچے کودیکھنا، اسے بہلانا، اسے کھلانا، صفائی کرنا، بستر پہ لیٹ کر کسی کی ہوس مٹانا، بس کام ہی تو ہے اور کچھ بھی نہیں۔ یہ بھی کام ہے کپڑے دھونے کی طرح۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔ کیا اختیار تھا ہمیں۔ کوئی بھی تو نہیں۔ اگر چھوڑ کر چلی جاتیں تو پھر وہی سب کچھ ہوگا جو ایک مستقل عذاب ہے، اس وقتی گھناؤنے لمحوں سے بھی زیادہ گھناؤنا عذاب۔

ذکیہ نے بھی یہی کیا، حالات سے مفاہمت، اور چارہ ہی کیا تھا۔ کچھ سالوں کی بات ہے، وقت تو نکل جاتا ہے، وقت تو نکل جائے گا۔ سب بچے بڑے ہوجائیں گے۔ ایک رہنے کا ٹھکانا ہوجائے گا تو پھر چلی جاؤں گی۔

مالکن آگئی تو سب کچھ رُک گیا۔ ہماری کوشش ہی ہوتی تھی کہ مالکن کے آس پاس رہیں۔ ایک چوہے بلی کا کھیل تھا جو کچھ دن جاری رہا۔ پھر یکایک وہ پڑھنے کے لیے امریکا چلا گیا۔ ہم تینوں نے سکون کا سانس لیا تھا۔

مگر یہ سکون عارضی تھا۔ دوسرا مرد جس نے مجھے پامال کیا وہ خود شیخ تھا۔ جوان بیٹوں بیٹیوں کا باپ، تین بیویوں کا شوہر، پوتوں اور نواسوں والا۔ اس وقت صرف میں ہی نشانہ بنی، وہ دونوں محفوظ رہی تھیں۔ ذکیہ دوسروں کی زندگی کے لیے اپنی زندگی کو بھینٹ چڑھاتی رہی اور وقت گزرتا چلا گیا۔

شیخ کی چھوٹی بیٹی بہت تیز تھی، نجانے کیسے ذکیہ اسے اچھی لگنے لگی تھی۔ ذکیہ نے اپنا سارا پیار اس پہ لٹادیا تھا۔ ذکیہ کو پتا بھی نہیں لگا مگر ا نے دیکھ لیا کہ اس چہرے پہ جھیل جیسی آنکھوں میں صرف پانی ہی پانی ہے۔ ذکیہ اس کے بھائی اور اس کے باپ کی ہوس کا مسلسل نشانہ بنتی رہی ہے۔ وہ نہ جانتے ہوئے بھی سمجھ گئی۔ ایک عجیب قسم کی باغی لڑکی تھی وہ۔ ذکیہ نے سوچا، کاش سعودی عرب کی زمین اتنی بنجر نہ ہوتی جہاں کے شاہی گھرانوں میں ایسی شہزادیاں پیدا ہوتی ہیں جو پیدا ہوتے ہی اپنے جسم و جان کے ساتھ اپنا ذہن و دماغ بھی ان مردوں کے حوالے کردیتی ہیں جن کی بقا اسی میں ہے کہ فرسودہ روایات کے متولی بن کے رہیں۔ کتنی بنجر ہے یہ زمین۔ افریقا کے کسی صحرا کی طرح بوند بوند ترسی ہوئی جہاں جھاڑ جھنکاڑ بھی نہیں وہتا ہے، صرف بادشاہ، شہزادے اور شیخ پیدا ہوتے ہیں۔

اسے پتا لگا کہ وہ بھی اس دفعہ لندن جارہی ہے، پورے خاندان کے ساتھ۔ پھر لندن میں ہی شیخ کی چھوٹی بیٹی نے اسے سمجھایا کہ کیا کرنا ہے۔

وہ اسے اپنے ساتھ لے کر نکلی تھی، ٹیکسی سے بیکر اسٹریٹ کے ٹیوب اسٹیشن پہنچی، پھر ٹیکسی چھوڑ کر بیکر اسٹریٹ سے وکٹوریہ کا اسٹیشن اور پھر یہ کہہ کر چلی گئی کہ کسی بھی ہندوستانی عورت کو روک کر اپنی کہانی سنانا، وہ تمہیں کہیں پہنچادیں گے۔ پچاس پچاس پونڈ کے یہ سارے نوٹ اس نے تہہ کر ذکیہ کے پرس کے مختلف حصوں میں رکھ دیے تھے۔ ذکیہ کو آخری دفعہ گلے لگایا، چوما اور بولی، ”میرے باپ، بھائی کا گناہ معاف مت کرنا، کبھی بھی نہیں۔ “ پھر وہ تتلی کی طرح اُڑگئی تھی۔

وکٹوریہ اسٹیشن پر ہی ذکیہ کو بھابی ملی تھیں جس کے ساتھ وہ گھر آئی تھی۔

میں ذکیہ کو دیکھتا رہ گیا۔ میں نے اور جاوید بھائی نے سوچا کہ ہندوستان بھیجنا تو بہت آسان ہے، ایک دفعہ ذکیہ گھر سے نکل گئی ہے تو کم از کم اسے سیاسی پناہ تو چاہیے۔ برطانیہ کی شہریت اس کے لیے ملازمت کے دروازے تو کھول دے گی۔ کچھ تو خوش حالی نصیب ہوگی۔ میں نے ذکیہ کو سمجھایا کہ اب کیا کرنا ہے، تھوڑی مشکل ہوگی، بہت سارے سوال جواب ہوں گے مگر کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔ قانون پہ عمل ہوگا اور اس کے مطابق تمہیں اجازت مل جائے گی کہ برطانیہ میں رہ کر کام کرو۔ ایک دفعہ اجازت مل جائے تو پھر ہندوستان بھی جاسکتی ہو۔

اس کے چہرے پہ بے اعتباری تھی، میں نے پڑھا لیا، وہ کیا کہہ رہی ہے، وہاں خدا کا قانون نہیں چلتا ہے، یہاں کا قانون کیا چلے گا؟ دکھ سے لکھا ہوا تھا اس کے چہرے پہ۔

نجانے کیسے سب کچھ بہت جلدی جلدی ہوگیا۔ ذکیہ کے بیان کے مطابق شیخ سے پوچھ گچھ ہوئی اور شیخ کے وکیل نے یہی مناسب سمجھا تھا کہ ذکیہ کے فرار کی رپورٹ واپس لے لے اور جتنی جلدی ہوسکے فی الحال ملک چھوڑدے۔

ایک دوسرے نے مشورہ دیا کہ شیخ کو دھمکانا چاہیے کہ اس کہانی کو منظر عام پہ لے آئیں گے، اخباروں میں چھاپیں گے، مگر میں نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ اس میں ذکیہ کا ہی نام اور تصویریں زیادہ چھپیں گی۔ شیخوں کی کون سی کہانی منظر عام پہ نہیں ہے، اس ایک کہانی سے کیا بگڑجائے گا۔

ذکیہ نے گریجویشن کرلیا ہے، ہندوستان میں ماں اس کے خریدے ہوئے مکان میں رہتی ہے۔ دادی اس کے بیاہ کا خواب لیے مرچکی ہے، بہت سارے اور ادھورے خوابوں کے ساتھ۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4