ہمیشہ روئیو بے کس حسین کو زعفر


سوشل میڈیا پر جدید امویوں اور ہاشمیوں کی خشک قبائلی جنگیں دیکھ کر رہا نہیں گیا اوراس خشک موسم کو ذرا تر کرنے کی خاطر شوق پیدا ہوا کہ دوستوں کو زعفر جن کے قصے سے آگاہ کیا جائے جو واقعہ کربلا کی روایت کا ایک اہم اور نہایت دلچسپ قصہ ہے۔مختلف ذاکرین یہ قصہ مختلف طریقوں سے روایت کرتے ہیں، یہاں تک کہا جاتا ہے کہ زعفر جن کے خاندان سے ایک بچہ میر انیس کی مجلس میں ان سے تعلیم لیتا تھا جس نے انہیں زعفر جن کے کئی حالات سے آگاہ کیا جو ان کے علم میں نہیں تھے۔ بہرحال تمام روایتوں میں یہ قدرِ مشترک ہے کہ زعفر جن، راحیل نامی ایک جن کا بیٹا تھا جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنوں کی فوج کو شکست دینے کے بعد ان کا بادشاہ نامزد کر دیا تھا۔

اس کے بعد اس کا بیٹا زعفر بادشاہ بنا اور واقعہ کربلا اسی کے زمانے میں پیش آیا۔ وہ دربار میں تھا جب اسے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے حالات کی خبر ملی۔ وہ دربار چھوڑ کر اپنے لشکر کے ساتھ فوراً کربلا پہنچا لیکن امام حسین نے اسے مدد کی اجازت نہ دی اور واپس لوٹاتے ہوئے دعا دی کہ ہمارا ماتم کیا کرنا۔ وہ روتا پیٹتا واپس آیا تو اس کی ماں نے دوبارہ اسے حسینی قافلے کی مدد کے لئے کربلا بھیجا لیکن جب تک وہ واپس پہنچا، واقعہ شہادت پیش آ چکا تھا اور وہ کپڑے پھاڑتا، بال نوچتا ماتم کرتا رہا۔

جناب نیر مسعود صاحب نے اپنے طویل مضمون ’زعفر جن‘ (بحوالہ ’منتخب مضامین‘ از نیر مسعود، آج کی کتابیں، کراچی ، 2009) میں یہ واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور مثالوں کے ذریعے اس کے ساتھ جڑی نہایت دلچسپ روایتِ مرثیہ کے خدوخال بیان کئے ہیں۔ انہوں نے میرانیس، مرزا دبیر اور میر مونس کے مرثیوں کا سرسری تذکرہ کرتے ہوئے میر حسین میرزا عشق کے مرثیے ’عروج اے مرے پروردگار دے مجھ کو‘ کو زعفر جن کے موضوع پر بہترین شاہکار قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق میرزا عشق کے مرثیے کی منفرد ترین خاصیت اس کے راویوں کا پیچیدہ نظام ہے۔مرثیے کی استخواں بندی کل آٹھ راویوں کی مدد سے ہوئی ہے، جن میں میرزا عشق پہلے راوی ہیں جو روایتی مناجات اور کربلا کے منظر سے آغاز کرتے ہیں۔

نقشہ بندی اور باادب مناجات کے بعد ایک دوسرے راوی جو کوئی عالم ہیں ایک کتب خانے میں اس کتاب کے ملنے کا ذکر کرتے ہیں جس میں زعفر جن کا قصہ نقل ہوا ہے۔ اس کتاب کا مصنف تیسرا راوی ہے جس کی کشتی سمندر کے سفر کے دوران تباہ ہو جاتی ہے اور وہ بے ہوش، ایک تختے کے سہارے موجوں کے رحم و کرم پر رہ جاتا ہے۔ آنکھ کھلتی ہے تو خود کو ایک جزیرے پر پاتا ہے جہاں اسے ایک عجیب و غریب شخص نظر آتا ہے جو روتے روتے زمین پر انگلی سے ’’حسین‘ لکھ رہا ہوتاہے۔

کوئی درخت نہ آدم نہ جانور دیکھا
عجیب عالمِ عبرت ادھر ادھر دیکھا
بڑھا جب آگے عجب شخص پرخطر دیکھا
خموش بیٹھے ہوئے اس کو خاک پر دیکھا
رواں تھے اشک برابر زمین پر اس کے
پڑے تھے بال سرا سر زمین پر اس کے

راوی زعفر جن کو کیسے پہچانتا لہٰذا بات چیت شروع ہوتی ہے اور مرثیے کے پانچویں راوی کے طور پر زعفر جن بہت اصرار کے بعد آخرکار اپنا تعارف کراتا ہے،

بغیر پوچھے رہوں گا نہ میں خدا کی قسم
بیاں کرو دُرِ دندانِ مصطفی کی قسم
بتاؤ زخم سرِ پاکِ مرتضی کی قسم
تمہیں شہادتِ سلطانِ کربلا کی قسم

یہ سن کے یاس سے مجھ پر نگاہ کی اس نے
کہا کہ ’’زعفرِ جن‘‘ اور آہ کی اس نے
یہی ہے زعفرِ جن صدق ہو گیا مجھ کو
کہا یہ میں نے بڑا اشتیاق تھا مجھ کو
بہت حسین کی باتوں کا ہے مزہ مجھ کو
سناؤ قصہ ٔ سلطانِ کربلا مجھ کو

برائے اذنِ وغا پاؤں پر گرے زعفر؟
کہو کہ کب گئے،کچھ ٹھہرے، کب پھرے زعفر؟
یہ سن کے تھام لیا ہاتھ سے جگر رویا
لہو کا جام بنی چشمِ نامور رویا
مثالِ برق تڑپ کر زمین پر رویا
یقینِ مرگ ہوا مجھ کو اس قدر رویا
اسی سوال میں غش اس کو چند بار آیا
بغیر پوچھے نہ لیکن مجھے قرار آیا

نیر مسعود صاحب کی تحقیق کے مطابق اس کے بعد بطور راوی زعفرجن کے چوالیس تمہیدی بند مرثیے کی روایت میں زعفر جن کے تمام قصوں میں غیرمعمولی ترین ہیں۔ قصہ مختصر وہ اپنی فوج کے ساتھ نکلتا ہے اور نہرِ علقمہ پر پر پہنچ کر ٹھہر جاتا ہے یہاں کئی شعری بند وہ منظر بیان کرتے ہیں جو وہ ایک ہی نظر میں دیکھ لیتا ہے، انبیاء و اولیاء علیھم السلام کا ایک ہجوم ہے، جبریل امین علیہ السلام پروں سے سایہ کئے ہیں، اور سارے ہجوم کے باہر زعفر جن بے قرار کھڑا دیکھتا رہتا ہے،

پکارا دور سے چلا کے آ نہیں سکتا
غلام سامنے آقا کے آ نہیں سکتا
مریض پاس مسیحا کے آ نہیں سکتا
وہ لوگ ہیں جنہیں سرکا کے آ نہیں سکتا
نصیبِ سلطنتِ قرب و دید ہو جائے
سند قدیمِ عطا کی جدید ہو جائے

آخر امام عالی مقام اسے پاس بلا لیتے ہیں اور اس کے بار بار اصرار کے باوجود اسے اپنی مدد کی اجازت نہیں دیتے یہاں تک کہ وہ ان سے انسانی صورت میں لڑنے تک کی اجازت طلب کرتا ہے۔ وہ انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں لیکن

ہمارے ساتھ ذرا تھوڑی دور چل زعفر
کیا اشارہ بڑھا اسپِ شاہِ جن و بشر
رکاب تھام لی میں نے چلا عرق میں تر
گئے جو گوشۂ صحرا میں سبطِ پیغمبر
درخت خشک و پریشاں تھے اور پستی تھی
عجب طرح کی اداسی وہاں برستی تھی

وہاں سے امام حسین علیہ السلام اسے علی اکبر علیہ السلام کی لاش کے پاس لے جاتے ہیں اور ان کی شہادت کا حال سنانے کے بعد انبیا واولیاء و ملائکہ وغیرہ کو رخصت کرنے کے بعد زعفر کو بھی الوداع کہتے ہیں،

جہاں سے لائے ہیں تشریف سب وہاں جائیں
فقط یہاں ملک الموت اب ٹھہر جائیں
تجھے جو چاہئے تھا وہ کیا خدا حافظ
بس اے حسین کے جانباز جا خدا حافظ

پس زعفر حکم کی تعمیل کرتے ہوئے واپس لوٹتا ہے لیکن وہاں اس کی ماں اسے مزید خبریں سناتی ہے اور خود بھی اس کے ساتھ واپس کربلا چل پڑتی ہے۔ اب وہ واپس کربلا پہنچتے ہیں تو ہر طرف تباہ حالی کا دور دورہ ہوتا ہے اور یوں بیمار سید سجاد علیہ السلام اس مرثیے کے آخری راوی کے طور پر سامنے آتے ہیں۔

شریکِ حال ہوا اجر دے تجھے داور
ہمارے سر کی قسم جا بس اب یہاں نہ ٹھہر
جو ہو سکے تو یہی بات سب سے ہے بہتر
ہمیشہ روئیو بے کس حسین کو زعفر
ثواب ہو گا تجھے مجلسِ عزا کرنا
ہمیشہ ماتمِ ابن علی کیا کرنا

بس اس کے بعد زعفر’’حسین حسین‘‘ ہی پکارتا رہتا ہے اور اس جزیرے پر موجود ہر پوچھنے والے کو یہی جواب دیتا ہے،

جو اشک تھمتے ہیں تو بے قرار ہوتا ہوں
یہ نام اس لئے لکھتا ہوں اور روتا ہوں

اس تحریر کو نیر مسعود صاحب کے مضمون کی ایک مختصر ترین تلخیص کہا جا سکتا ہے لیکن پورا مضمون پڑھنے کے لائق ہے۔ وہ ذکر کرتے ہیں کہ میر عشق نے اس مرثیے پر کیسی کیسی داد وصول کی۔ میر انیس نے انہیں ہدایت کی کہ اس کو اپنی قبر میں رکھوا لینا کہ تمہاری نجات کے واسطے کافی ہو گا۔

Published on: Mar 3, 2021

 

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments