مادری زبانوں کا ادبی میلہ


انسان کا اپنی پیدائش میں دخل ہے، نہ قسمت پر۔ حالات و واقعات اس کی زندگی میں اتار چڑھاؤ لے کر آتے ہیں۔ ماں کے پیٹ میں ہی بچہ ماں کی آواز اور اس کی بولی سے آشنا ہو نے لگتا ہے۔ ماں کے منہ سے پیار کی میٹھی بولی بچے کے جنم لیتے ہی دماغ میں رس گھولنے لگتی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ بچہ کیفیات، ضروریات، خواہشات، خوشی، غم، اور شکایات کا اظہار کرنے لگتا ہے۔ اظہار کی یہ قوت ماں کو مطمئن کر دیتی ہے۔

تخلیقی صلاحیت کسی مخصوص خطے، خاندان، حسب نسب سے مشروط نہیں۔ یہ کہیں بھی کسی کے پاس بھی دبے قدموں آ سکتی ہے۔ اس کے ہونے کا احساس انسان کو ایک طرف مکمل کرتا ہے تو دوسری طرف سراہے جا نے کی خواہش اسے بے کل کیے رہتی ہے۔ اپنی صلاحیت کے بارے میں وہ دنیا سے جاننا چاہتا ہے، کہ تخلیقی بہاؤ کے ساتھ گہرائی میں اترے یا کنارہ پکڑ لے۔

اسلام آباد میں مادری زبانوں کے میلے کے انعقاد کو آٹھ برس ہو چکے۔ اس میلے نے پاکستان کے تمام لوگوں کو ایک قومی دھارے شامل کر لیا ہے۔

کوئی چیز کوئی پیغام، کوئی تبلیغ، کوئی تقریر، کوئی قربانی، کوئی جدوجہد، کوئی کہانی سبق آموز نہیں ہو سکتی جب تک کہ دلوں کو نہ جوڑا جائے۔ دل یوں ہی نہیں جڑتے۔ دل رکھنے والوں کے مل بیٹھنے اور دل کی کارگزاری سب پر عیاں کرنے کو کمالات کیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں قریباً اسی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس میلے میں بیس سے زائد مادری زبانوں کے ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔

مختلف سیشنز میں مادری زبان میں حصول تعلیم کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ افتتاحی اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔

انڈس کلچر پاکستان کے زیر اہتمام، پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس میں 17 تا 19 فروری، تین روزہ ادبی میلے کا انعقاد کیا گیا جس میں لائف اچیومنٹ ایوارڈز، شاعری، نثر، تھیٹر، رقص و موسیقی، مصوری، اور سینکڑوں کتابوں کی نمائش اور رونمائی کے سیشنز ہوئے۔ فنون و ادب کے ہر میدان سے آئے ہوئے لوگوں کے خوشی سے کھلے چہرے ان کے حوصلوں اور ارادوں کو ظاہر کر رہے تھے۔ اس ادبی میلے میں پاکستان کے مختلف خطوں میں بولی جا نے والی قومی زبانوں میں کتابوں کے اسٹال بھی سجائے گئے، جہاں انتہائی کم قیمت پر کتابیں دستیاب تھیں۔

کسی بھی ایونٹ کا انتظام و انصرام ایک مشکل مرحلہ ہو تا ہے۔ ہر مہمان کو عزت و احترام دینا اور تمام امور میں نظم و ضبط۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں چہروں پر مسکراہٹ سجائے سب کی خدمت اور رہنمائی کو موجود۔ یہ محض میلہ نہیں تھا، دل بستگی کا ایک مکمل پیکیج تھا۔

کسی بھی ملک کے کو لوگوں کو متحد کرنے کے لیے ایک دوسرے کی تہذیب و ثقافت کا احترام اور زبان سے شناسائی ضروری ہے۔ اس کے لیے ایک دوسرے سے روابط کے لیے میلے کی صورت میں جو پلیٹ فارم مہیا کیا گیا اس سے یقیناً بھائی چارے، کی فضا اور ایک دوسرے کے حالات اور مسائل کو سمجھنے میں مد ملے گی۔ دور دراز کے فن کا روں کا اپنے فن پراعتماد بلند ہو گا۔ فروغ فنون ہی ملک کو انتہا پسندی سے نکال کر محبت کے ساگر میں ڈال سکتا ہے۔ فنون کی آبیاری کے لیے ادبی میلوں میں سیاسی اغراض و مقاصد کو بالائے طاق رکھ کر، قومی یکجہتی اور وسیع تر مفاد کے لیے ہر صوبے میں ایسے میلے منعقد ہونے چاہئیں۔ جن میں زیادہ سے زیادہ نئے چہروں کو متعارف کرایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments